• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
جب میں ڈاکٹر صاحبہ کے گھر پہنچا تو عشاء کی اذان ہورہی تھی ، اسلام آباد شہر سے باہر واقع الہدیٰ کیمپس کے اندر ایک کونے میں نسبتاً اس پرُسکون جگہ پر ڈاکٹر فرحت ہاشمی اور انکے خاوند ڈاکٹر ادریس زبیر سے ملنے میں پہلے بھی کئی دفعہ آچکاتھا لیکن ہر بار یہاں آتے اور پھر واپس جاتے ہوئے یہ خیال ضرور آتا ہے کہ پاکستان کا کون سا ایسا شہر ہے کہ جہاں ڈاکٹر صاحبہ کی قرآن کلاس نہ ہو رہی ہو ،دنیا کاکون سا ایسا ملک ہے کہ جہاں ڈاکٹر صاحبہ کے لیکچرز سنے نہ جار ہے ہوں اور پھر وہ ڈاکٹر صاحبہ جن کا شمار دنیا کے 500بااثر مسلمانوں میں ، جن کے عقیدت مند پوری دنیا میں اور جو جہاں بھی جائیں شاہی مہمان ہوں ، وہی ڈاکٹر صاحبہ اپنے خاوند کے ساتھ یہاں اُس 3مرلے کے گھر میں الہدیٰ کی کرائے دار کہ جس گھر کو بنے ہوئے تو کئی سال ہو گئے مگر ابھی تک نہ تو یہ باہر سے پینٹ ہو سکا اور نہ ہی اسکی حالت اندرسے بدل پائی اور تو اور ڈاکٹر صاحبہ کے ڈرائنگ،ڈائننگ، سٹنگ اور میٹنگ مطلب اس "Four in one" روم میں سا لہا سال سے وہی ایک کونے میں پڑا فریج ،فریج کے سامنے ڈائننگ ٹیبل ،دو سنگل بیڈ،3صوفے اور چند کرسیاں ، اس بار میرا یہاں آنے کا مقصد تھا کہ ڈاکٹر صاحبہ سے پوچھوں کہ ان الزامات میں کتنی صداقت ہے کہ دو چار وہ خواتین بھی داعش میں چلی گئیں کہ جنہوں نے الہدیٰ سے پڑھا تھا ، ڈاکٹر ادریس اور ڈاکٹر صاحبہ کے ساتھ بیٹھے جب مجھے 15منٹ ہو گئے ، علیک سلیک ، حال احوال اور سب رسمی جملے ادا ہو چکے تب میںنے پوچھ ہی لیا کہ ’’ڈاکٹر صاحبہ امریکہ تو بہت کچھ کہہ چکا مگر کیا واقعی الہدیٰ کی پڑھی ہوئی خواتین داعش میںگئی ہیں ؟ ہمیشہ کی طرح بڑی توجہ سے سوال سن کر اور ہمیشہ کی طرح ہی ڈاکٹر صاحبہ نے بڑے سکون سے ٹھہر ٹھہر کر بولنا شروع کیا ’’ الہدیٰ کا مشن ہے کہ خواتین کو قرآن سے جوڑا جائے ، ان میں شعور اور مثبت سوچ پید ا کی جائے اور دنیا کے ساتھ ساتھ انکی آخرت بھی سنواری جائے ،ہم انسانیت کی فلاح پر یقین رکھتے ہیں ، ہم نے کبھی ایسی تعلیم نہیں دی کہ جسکے بعد کوئی کسی فرقہ وارانہ سرگرمیوں میں involveہو جائے یا کوئی کسی جہادی تنظیم کی طرف راغب ہو ،لیکن جیسے دنیا کی کسی درسگاہ میں بھی پڑھنے والی کوئی خاتون کبھی بھی کچھ مثبت یا منفی کر سکتی ہے ایسے ہی الہدیٰ کی پڑھی ہوئی کوئی خاتون اگر کچھ کرنا چاہے تو اسے کون روک سکتا ہے مگر یاد رہے الہدیٰ کو قائم ہوئے 21سال ہوگئے اور ابھی تک صرف ایک خاتون کے بارے میں یہ سنا جارہا ہے کہ اس کے کسی انتہا پسند تنظیم سے رابطے تھے اور اس خاتون نے بھی کسی دور میں الہدیٰ میں داخلہ ضرور لیا تھا مگر پھر وہ اپنا کورس ادھورا چھوڑ کر چلی گئی ۔ پھر ان الزامات میں اتنی شدت کیوں ؟ ڈاکٹر صاحبہ سے جب میں نے یہ سوال کیا تو وہ بولیں ’’ یہ شور شرابہ صرف اور صرف اسلام سے متعلق غلط فہمیوں اور اسلام سے خوف کا نتیجہ ہے ۔ اس مسئلے کا حل کیا ہے ؟ جیسے ہی ڈاکٹر فرحت ہاشمی نے اپنی بات مکمل کی تو میں نے اگلا سوال کیا ، کہنے لگیں ’’ حل یہی ہے کہ ایک تو مشرق ا ورمغرب میں اوپن ڈائیلاگ ہو کیونکہ جب تک دنیاکو حقیقی اسلام کا پتا نہیں چلے گا تب تک ان سے اسلام کا خوف ختم نہیں ہو گا اوردوسرا جومذہب ہماری باتوں میں ہے جب تک وہ ہماری زندگیوں میں نہیں آئے گا تب تک بات نہیں بنے گی ‘‘۔ کیا آپ نہیں سمجھتیں کہ آپ کیلئے آگے اور بھی مشکل دن آسکتے ہیں،میرے اس سوال پر ڈاکٹر صاحبہ نے لمحہ بھر کیلئے سرجھکا کر سوچا اور پھر کہا ’’ اللہ کے راستے میں کب مشکلیں اور آزمائشیں نہیں تھیں ، یہاں تو نبیوں اور رسولوں کو نہیں بخشا گیا ، یہاں اللہ کے چنے ہوئے بندوں کے ساتھ ایسا سلوک ہوا کہ حضور ؐ فرمایا کرتے کہ’’ قیامت کے دن کچھ نبی ایسے بھی ہوں گے کہ جن کے ساتھ ایک اُمتی بھی نہیں ہوگا‘‘ مطلب عمر بھر کی تبلیغ اور دعوت کے باوجود کسی ایک شخص نے بھی بات نہ مانی اور کوئی ایک آدمی بھی ایمان نہ لایا ،جب یہ سوچتی ہوں تو پھر سب کچھ برداشت کرنے کی ہمت آجاتی ہے ۔

اس شام میں ڈاکٹر صاحبہ کے ساتھ ڈھائی گھنٹے تک رہا اور وہ ہر موضوع پر بولیں ، جہاں اُنہوں نے کہا کہ مسلمانوں کی بدتر ہوتی ہوئی حالت کی وجہ ان کے قول وفعل کا تضاد ہے وہاں اُنہوں نے بڑی وضاحت سے یہ بھی بتایا کہ ’’ جس اسلام کی ہم روزانہ تبلیغ کرتے ہیں وہ اسلام ہماری زندگیوں میں نظر ہی نہیں آتا‘‘، اُنہوں نے جہاں دکھ بھرے لہجے میں اپنے خلاف فتوے دینے والوں کی حقیقت بتائی ،وہاں غم زدہ انداز میں یہ بھی کہا کہ ’’ اللہ سے انکاری امریکہ اور یورپ میں تو ایک نظام ہے اور وہاں طبقاتی تقسیم نہ ہونے کے برابر جبکہ اللہ کے ماننے والے ہم لوگوں کے ہاں نہ تو کوئی سسٹم اور اوپر سے طبقاتی تقسیم ایسی شدیدکہ گھر گھر پہنچی ہوئی ، ڈ اکٹر صاحبہ نے جہاں یہ مانا کہ ’’ابھی تک جو کچھ اُنہوں نے کیا وہ بہت تھوڑا ہے اور ابھی تک جو نہیںکر سکیں وہ بہت زیادہ ہے ‘‘،وہاں اس عزم کا اظہار بھی کیا کہ اب وہ ملک بھر میں بچوں کیلئے بہترین اسکول کھولنا چاہتی ہیں ، اس شام ڈاکٹر فرحت ہاشمی نے جہاںسب سے یہ درخواست کی کہ قرآن پڑھیں اور سمجھ کر پڑھیں ، وہاں اُنہوں نے یہ بھی بتایا کہ ’’ ان پر اللہ کے فضل کی ایک وجہ ان کا تہجد کے وقت بارگاہ الہٰی میں جھکنا ہے کیونکہ ایک تو ان لمحوں میں آسمانِ دنیا پر آکر خود اللہ تعالیٰ پکاریں کہ ’’ کوئی ہے مانگنے والا ‘‘ اور دوسرا نبی ؐ کی دعا بھی کہ ’’ اے اللہ میری امت کی صبح میں برکت ڈال‘‘ ،اور اس شام جہا ں انہوں نے اپنے والد کو اپنا آئیڈیل قرار دیا وہاں اُنہوں نے برملا کہا کہ اگرا نہیں اپنے خاوند کا تعاون حاصل نہ ہوتا تو شاید وہ یہ سب کچھ نہ کر پاتیں ۔
ویسے تو ڈاکٹر صاحبہ کی ہر بات ہی بڑی اہم تھی مگر اس شام ان کا یہ کہنا کہ ’’ میری خواہش ہے کہ پاکستان وہ ملک بن جائے کہ جہاں کسی قسم کی بھی جہالت نہ ہو ، جہاں دلوں میں اتنی وسعت ہو کہ اختلاف کے باوجود اتحادقائم رہے ، جہاں ذہن ایسے کشادہ ہوں کہ ہر مسلک کا احترام ہو ، جہاں عدل اور مساوات ہو ، جہاں جس مذہب کی تبلیغ ہو وہ مذہب زندگیوں میں بھی جھلکے اور جہاں صرف اللہ تعالیٰ سے ڈرنے والے ہوں ‘‘ ، جب سے میں نے ڈاکٹر صاحبہ سے یہ سنا تب سے ذہن میں با ر بار یہی خیال آرہا ہے کہ وہ ملک جہاں خود ڈاکٹر فرحت ہاشمی کو گمراہ کہہ دیا جائے ، جہاں ایک اللہ ،ایک رسول ؐ اور ایک قرآن کے ماننے والوں کے 97فیصد متفقہ دین پرانکے 3فیصد مسلکی اختلافات غالب آچکے ہوں ، وہ ملک کہ جہاں شروع سے ہی تعلیم کا حال یہ ہو کہ بقول قدرت اللہ شہاب ’’ صدرا سکندر مرزا کے زمانے میں کابینہ کے وزیر جب حلف اٹھا کر اپنے اپنے محکموں کا چارج لینے کیلئے جانے لگے تو اسی اثناء میں وزراء اور انکے محکموں کی فہرست دیکھتے ہوئے مجھے معلوم ہوا کہ تعلیم کا محکمہ توا لاٹ ہونے سے ہی رہ گیا ، میں نے فوراً جا کر اسکندر مرزا کو جب بتایا تو اُنہوں نے حکم صادر کیا کہ فوراً جاؤ اور جو بھی ملتا ہے اسے محکمہ تعلیم کا چارج دیدو، یہ سن کر میں نے باہر نکل کر دیکھا تو باقی سب وزراء تو جا چکے تھے صرف مشرقی پاکستان کے ایک وہ بزرگ وزیر جنہیں دمے کی وجہ سے کھانسی کا دورہ پڑگیا تھا اوروہ ابھی تک اپنی کار پر جھکے کھانس رہے تھے ، میں انکے پاس پہنچا اور جب ان کی طبیعت ذرا سنبھلی تو میں نے وہیں کھڑے کھڑے محکمہ تعلیم ان کے حوالے کردیا ‘‘اورپھر یہ تو وہ ملک کہ جہاں بچوں کوا سکولوں اور بڑوں کو مسجدوں میں مارنے والوں کی جیبوں سے بھی جنت کی چابیاں ملیں ، جہاں اللہ اوربندے کے تعلق کی حالت یہ ہوچکی کہ بے اختیار وہ درویش یاد آجائے کہ جس نے ایک فروٹ والے سے جب اللہ کے نام پر ایک سیب مانگا تو فروٹ والے نے انتہائی ناگواری سے ایک گلا سڑاسیب پکڑا دیا لیکن تھوڑی دیر بعد جب اسی درویش نے اسی فروٹ والے کو 50کا نوٹ پکڑا کر کہا کہ سیب دیدو تو فروٹ والے نے بڑی ہی خوش اخلاقی سے 2 بہترین سیب لفافے میں ڈال کر اسے پیش کر دیئے۔ اب اس حسنِ سلوک کے بعداس درویش نے ایک ہاتھ میں گلاسڑا سیب اور دوسرے ہاتھ میں تازہ سیب پکڑ کر آسمان کی طرف دیکھ کر کہا ’’ اے اللہ دیکھ لے تیری مخلوق نے تجھے کیا دیا اور مجھے کیا دیا ‘‘ ۔
قارئین کرام !گو کہ مایوسی گناہ ہے مگر پھر بھی بار بار خیال یہی آرہا ہے کہ ان حالات اور اس پاکستان میں ڈاکٹر فرحت ہاشمی کا پاکستان۔۔۔۔ کم ازکم
مجھے تو یہ پاکستان اپنی زندگی میں بنتا دکھائی نہیں دیتا ،آپ کا کیا خیال ہے ؟
تازہ ترین