• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
حضرت شوقین حلوی ؔ بڑی شوقین و رنگین روح ہیں۔ ویسے تو آپ نے بے شمار شوق اور بیماریاں پال رکھی ہیں ۔ تاہم ذوقِ مطالعہ ، دل پھینک طبیعت اور عارضہ بصارت و سماعت ان کی پہچان بن کر رہ گئے ہیں ۔ ان کا شمار ان شخصیات میں ہوتا ہے جو اخبار اور دیواروں کے اشتہارات وغیرہ با آوازِ بلند پڑھنے کے عادی ہوتے ہیں ۔ انہیں اس مطالعہ کے وقت سامعین کی اشد ضرورت ہوتی ہے ورنہ وہ یہ حرکت کر ہی نہیں سکتے ۔ اس کارِ خیر کے لئے اگر انہیں کوئی واقف کارمیسر نہ آئے تو را ہ چلتے اجنبیوں کو بھی مخاطب کرنے میں بخل سے کام نہیں لیتے ۔
ستم ظریفی یہ ہے کہ شوقین حلویؔ خود کو ببانگِ دہل استاد اردو اورمعروف شاعر قرار دینے کے باوجود اردو کو مقدور بھر بے توقیر کرنے کا کوئی موقع ضائع نہیں کرتے۔ آپ اپنے ذو ق مطالعہ کی تسکین کے دوران ایسی ایسی فاش غلطیاں کرتے ہیں کہ عبارت کا مفہوم قلا بازیاں کھانے لگتا ہے ۔ کچھ دوستوں کا خیال ہے کہ دراصل حلویؔ خبریں نہیں ، خواہشات پڑھنے والوں میں سے ہیں ۔ البتہ ہم ذاتی طو رپر حسنِ ظن رکھتے ہوئے حضرت کی ان غلطی ہائے مضامین کو ان کے ضعفِ بصارت کا شاخسانہ سمجھتے ہیں ۔حضرت شوقین اکثر راہ چلتی کسی خوش اطوار سی خاتون کا ہاتھ مضبوطی سے پکڑ کر کہتے ہیں ’’میاں ! ذرا مجھے ڈسٹرکٹ اسپتال کا رستہ تو سمجھانا‘‘ پھر جب ’’ میاں‘‘ تڑاخ سے بولتا ہے توگھبرا کر کہتے ہیں ’’ معاف کرنا محترمہ ! میری نظر ذرا کمزور ہے ‘‘ حسنِ اتفاق دیکھئے کہ انہوں نے کبھی کسی مرد کا ہاتھ پکڑ کر رستہ نہیں پوچھا ۔انہیں اپنے اس عارضہ بصارت میں اس وقت کافی افاقہ محسوس ہوتا ہے ، جب آپ ٹی وی پر پاکستانی ڈرامہ یا انڈین فلم دیکھتے ہیں ۔ مجال ہے جو انہوںنے کبھی کسی اداکارہ کو پہچاننے میں ذرا بھی غلطی کی ہو ۔ آپ ٹی وی پر ایسے پروگرام دیکھنے کیلئے محض اس لئے وقت نکالتے ہیں تاکہ کوئی بھی غیر اخلاقی سین آنے پر تبرے ارسال کر کے ثوابِ دارین کما سکیں ۔ یہی وجہ ہے کہ ایسے سین کا بے چینی سے انتظار کرتے ہیں ۔حضرت کو عارضہ سماعت بھی لاحق ہے ۔یہ بیماری اس وقت خطرناک حد تک بڑھ جاتی ہے ، جب کوئی قرض خواہ ان سے ادھار واپس مانگتا ہے ۔ البتہ اگر کوئی انہیں زیر لب بھی کھانے یا حلوے کی دعوت دے تو بسم اللہ اور جزاک اللہ کی گردان شرو ع کر دیتے ہیں ۔ خوش قسمتی سے گھر میں داخل ہوتے ہی حلویؔ صاحب کی ہر بیماری رفع ہو جاتی ہے اور ان کے تمام اعضائے رئیسہ بالکل ٹھیک کام کرنے لگتے ہیں ۔ حتیٰ کہ انہیں اپنے ’’ با آواز بلند مطالعہ ‘‘ کی تکلیف میں بھی شفا نصیب ہو جاتی ہے ۔ اس بابت ان سے سوال کیاجائے تو وہ ایک قولِ زریں دہرا کر خاموش ہو جاتے ہیں کہ جو جنت سے نکلوا سکتی ہے ، وہ گھر سے بھی نکال سکتی ہے ۔ اب ہم حلویؔ صاحب کی غلطی ہائے مضامین کا کچھ ذکر کرتے ہیں ۔ ایک دن ہم ان کے ساتھ کہیں جا رہے تھے کہ قریب سے ایک رکشہ گزرا ۔ پیچھے لکھا تھا ’’ دل دِلاں دے ہوندے ، مُلاں دے کدی نئیں ہوندے‘‘ ( دل دِلوں کے بدلے ملتے ہیں، قیمتاً نہیں بکتے ) آپ نے اسے یوں پڑھا کہ ’’ مُلاں ‘‘ کو ’’مُلا‘‘ کردیا۔ اخبار میں لکھا تھا ’’وزیراعظم کے مشیر برائے امور خارجہ ‘‘ شوقین حلویؔ نے اونچی آوا ز میں پڑھا ’’ وزیراعظم کے مشیر برائے امور خانہ داری ‘‘ سرتاج عزیز کاایک بیان انہوں نے اس طرح پڑھا ’’ پاکستان میں معاشی استحکام کا کوئی خطرہ نہیں ‘‘ حالانکہ وہاں معاشی عدم استحکام لکھا ہوا تھا ۔ اگلے دن اخبار کی ایک سرخی تھی ’’ پنجاب کے مختلف علاقوں میں گیس بحران ، شدید عوامی مظاہرے ‘‘ قبلہ نے ’’ شدید عوامی مظاہرے ‘‘ کو ’’ خوشی کے نعرے ‘‘ بنا دیا ۔ ایک سرخی انہوں نے کچھ یوںسنائی کہ ’’وزارتِ پانی و بجلی نے بار بار بجلی کی ملک گیر بندش کے ذمہ داروں کو نوازنے کا فیصلہ کرلیا‘‘حالانکہ وہاں نوازنے نہیں ہٹانے کا لفظ لکھا ہوا تھا ۔ ایک سرخی انہو ں نے اس طرح پڑھی ’’ باچا خان یونیورسٹی دہشت گردی ، وزیرداخلہ نے مذمت نہیں کی ‘‘ جبکہ وہاں ’’ مذمت کی ‘‘ لکھا ہوا تھا ۔ چیئرمین نیب کا بیان تھا ’’ دانشور اور میڈیا انسدادِ بد عنوانی میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں ‘‘ قبلہ نے خبر سناتے وقت انسداد کا لفظ حذف فرما دیا ۔ پرویز خٹک کا بیان کچھ اس طرح سنایا ’’وفاقی حکومت افغان مہاجرین کو واپس بلوائے ‘‘ جبکہ اصل میں وہاں بلوائے کی جگہ بھجوائے لکھا ہوا تھا ۔ حسین نواز کا ایک بیان پڑھتے ہوئے چونک پڑے اور لوگوں کو مخاطب کر کے سنایا ’’بھارت میں میرا کاروبار ہے ‘‘ حقیقت میں پورا جملہ یوں رپورٹ ہوا تھا کہ بھارت میں میرا کاروبار ہے نہ کسی بھارتی سے شراکت داری ۔ ایک اور شہ سرخی تھی ’’ پولیس نے سخت مقابلے کے بعد خطرناک ڈاکو گرفتارکر لئے ‘‘۔ آپ نے پڑھا ’’ پولیس نے مک مکا کے بعد خطرناک ڈاکو چھوڑ دیئے ‘‘ ایک چھپر ہوٹل کا مالک بھی حلویؔ جتنا پڑھا لکھا تھا ۔ اس نے ہوٹل پر جلی حروف میں لکھ رکھا تھا ’’یہاں کھانے فروخت ہوتے ہیں ‘‘حضرت شوقین نے ماتھے پر ہاتھ رکھ کر یہ عبارت اس طرح دہرائی’’ یہاں تھانے فروخت ہوتے ہیں ‘‘۔ حضرت جو خبر اتفاق سے صحیح پڑھ دیں ، اس پر بے ہودہ سا تبصرہ کر کے اپنی ’’ غلطی ‘‘ کا ازالہ ضرور کرتے ہیں ۔ پرویز رشید کا بیان درست پڑھا کہ دہشت گردوں کے خاتمے کے لئے ان کا نظریہ ختم کرنا ہوگا۔ آپ نے تبصرہ فرمایا ’’ دہشت گردوں کے خاتمے کے لئے کئی نظریے ختم کرنے ہونگے ‘‘ آپ نے جب میرا کا یہ بیان پڑھا کہ عمران خان میرے باپ کی جگہ ہیں ، ان سے شادی نہیں کروں گی تو خوشی سے سب دوستوں کے لئے چائے کا آرڈر دے دیا ۔ ساتھ ہی جب کترینہ کیف اور رنبیر کپور میں صلح کی خبر پڑھی تو چائے کا آرڈر منسوخ فرما دیا ۔مولانا فضل الرحمن کا ایک مفصل بیان سنایا ’’ ہر دور میں مدارس کے خلاف پروپیگنڈے ہوئے مگر اُجلے کردار اور حب الوطنی کی وجہ سے نہ صرف ان کے کردار کو تسلیم کیا گیا بلکہ پروپیگنڈے بھی دم توڑ گئے ‘‘اس پر آپ نے فقط یہ تبصرہ کیا ’’ نیشنل ایکشن پلان ‘‘ ۔مخصوص حالات میں جب حلویؔ صاحب پر عارضہ سماعت ’’ طاری‘‘ ہوتا ہے تو بڑے لطیفے جنم لیتے ہیں ۔ اپنی ایک جاننے والی خوبرو خاتون پر فریفتہ تھے ۔اس نے ایک بد صورت شخص سے شادی کر لی اور اپنے خاوند کو ان سے ملوانے کے لئے لے آئی ۔ حکیم صاحب نے ناگواری سے پوچھا کہ یہ کون ہے ؟ خاتون نے کہا ’’میرے ہزبینڈ ‘‘ بولے ’’کیا کہا ، ڈسٹ بِن ؟‘‘ خاتون ان کا طنز سمجھ کر بولی ’’ مقدر سے کس کو مفر ہے ‘‘ حضرت بے ساختہ گویا ہوئے ’’صحیح فرمایا، بالکل کفر ہے ‘‘ ۔خاتون نے اونچی آوا ز میں کہا ’’ میرا مطلب ہے کہ قسمت کا کھیل ہے ’’ بولے ’’یہ بھی صحیح کہا ، جلتی پہ تیل ہے ‘‘ خاتون نے بے بسی سے کہا ’’سر! جو بھی کہیں آپ کی نوازش ہے ‘‘ حلوی ؔ نے حیرت سے کہا ’’ اچھا باپ کی سازش ہے ؟بھئی بڑا افسوس ہوا یہ سن کر ، توبہ ہے ، آج کل والدین بھی اپنے بچوں کے خلاف کیسی کیسی گھٹیاسازشیں کرتے ہیں ‘‘۔ شوہر نامدار جو کافی دیر سے طنز کے نشتر سہہ رہا تھا ، بولا ’’ سر! میری شکل و صورت پر نہ جائیں ، میں ایک وفادار شوہر ہوں مگر آج کی عورت کو وفا کی ضرورت ہی نہیں ‘‘ ۔شوقین جھٹ سے بولے ’’ اچھا ! آپ کو حیا کی ضرورت ہی نہیں ، خوب ! تبھی توآپ نے میرٹ کی دھجیاں اڑاتے ہوئے ان سے نکاح کرلیا، شاوش اے بھئی ‘‘ ۔
تازہ ترین