اگر گزشتہ چند دہائیوں میں پاکستان نے تعلیم، صحت، تحقیق و ترقی، ٹیکنالوجی اور ووکیشنل ٹریننگ کی مد میں جی ڈی پی کے تناسب سے اتنی ہی رقوم خرچ کی ہوتیں جتنی ایشیا کے ان ملکوں نے کی ہیں جنہوں نے قدرتی وسائل نہ ہونے کے باوجود معیشت کے شعبے میں تیز رفتاری سے ترقی کی ہے تو آج پاکستان کی جی ڈی پی 290ارب ڈالر نہیں بلکہ 1500ارب ڈالر اور برآمدات 24ارب ڈالر سالانہ نہیں بلکہ 300ارب ڈالر سالانہ ہوتیں۔ جاپان کی آبادی پاکستان سے کم ہے اور اس کے پاس قدرتی وسائل سرے سے موجود ہی نہیں ہیں لیکن جاپان کی جی ڈی پی 4700ارب ڈالر اور برآمدات 680ارب ڈالر سالانہ ہیں۔ اگر اس کیساتھ اسی مدت میں پاکستان صرف تھر کوئلے اور پانی سے بڑے پیمانے پر بجلی پیدا کرتا، علم پر مبنی معیشت اپناتا اور گوادر پورٹ سے استفادہ کر رہا ہوتا تو آج پاکستان کی جی ڈی پی تقریباً 3000ارب ڈالر ہوتی جس سے وطن عزیز میں خوشحالی کا دوردورہ ہوتا۔ چند ماہ قبل کراچی میں جاپان کے قونصل جنرل اکیر اوچی نے کہا تھا کہ جاپان کی تیز رفتار ترقی کا راز یہ ہے کہ جاپان کا تعلیمی نظام دنیا کے بہترین تعلیمی نظام میں شمار ہوتا ہے، جاپان میں تعلیم جاپانی زبان میں دی جاتی ہے اور جاپانی تعلیم یافتہ ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ جاپانیوں نے جن خصوصیات کو اپنایا ہوا ہے ان میں خلوص، ایمانداری اور یکسوئی سے اپنے فرائض کی انجام دہی اور نظم و ضبط اور وقت کی پابندی شامل ہیں کیونکہ ان خصوصیات کی اہمیت اتنی ہی ہے جتنی تکنیکی مہارت حاصل کرنے کی۔
یہ ملک و قوم کی بدقسمتی ہے کہ تعلیم و صحت مختلف حکومتوں کی ترجیح عملاً کبھی بھی نہیں رہی۔ پاکستان میں تعلیم کا شعبہ زوال کا شکار ہے۔ ملک میں ہزاروں گھوسٹ اسکول ہیں۔ ہر صوبے میں لاکھوں بچے اسکول نہیں جا رہے جبکہ ہزاروں سرکاری اسکولوں کی حالت تکلیف دہ حد تک خراب ہے۔ صوبوں کے محکمہ تعلیم میں کرپشن عام ہے۔ پیشہ ورانہ کالجوں اور یونیورسٹیوں میں بھی تعلیم کا معیار گر رہا ہے۔ تحقیق و ترقی کی سرگرمیوں کے بجائے سیاست ہو رہی ہے، وائس چانسلرز اور سینیٹ و سنڈیکیٹ میں تقرریاں سیاسی بنیادوں پر ہو رہی ہیں اور متعدد اعلیٰ تعلیمی درسگاہوں میں کرپشن ہونے اور نظم و ضبط کے فقدان کی رپورٹیں سامنے آ رہی ہیں جبکہ شفاف اور مؤثر احتساب کا تصوّر عملاً نظر نہیں آ رہا۔ آج سے 15برس قبل پاکستان نے عالمی برادری سے عہد کیا تھا کہ ملک کا ہر بچہ 2015ءتک اسکول جا رہا ہو گا۔ وزیراعظم نواز شریف نے کہا تھا کہ وہ اس وقت تک چین سے نہیں بیٹھیں گے جب تک ہر بچہ اسکول نہ جانے لگے مگر 2050ءتک بھی ایسا ہوتا نظر نہیں آ رہا۔ 2009ء کی متفقہ منظور شدہ قومی تعلیمی پالیسی سے انحراف کرتے ہوئے وفاق اور چاروں صوبوں نے متفقہ طور پر یہ فیصلہ کیا ہے کہ جی ڈی پی کے تناسب سے تعلیم کی مد میں 2015تک 7فیصد مختص کرنے کے فیصلے پر عمل نہیں کیا جائیگا۔ حکومت نے اب یہ فیصلہ کیا ہے کہ اس کے بجائے 2018ءتک صرف 4فیصد مختص کیا جائیگا۔ اس فیصلے پر دل خون کے آنسو رو رہا ہے۔
اس پس منظر میں یہ بات انتہائی تکلیف دہ ہے کہ دہشت گردوں نے پاکستان دشمن طاقتوں کی مدد سے ایک مربوط حکمت عملی کے تحت پاکستان میں تعلیم کے شعبے کو خصوصی طور پر نشانہ بنایا ہوا ہے۔ دہشت گردی کی وارداتوں اور امریکی ڈرون حملوں سے سینکڑوں درس گاہیں تباہ ہوئی ہیں جبکہ لاکھوں طلباء و طالبات کا ایک سال یا اس سے زائد کا وقت ضائع ہو چکا ہے۔ آرمی پبلک اسکول پشاور اور اب چارسدہ میں باچا خان یونیورسٹی میں خون کی ہولی کھیلی گئی ہے۔ 2016ءکو پاکستان میں دہشت گردی کے خاتمے کا سال قرار دیا گیا ہے مگر امریکہ، بھارت اور افغانستان گٹھ جوڑ اور نیشنل ایکشن پلان کے نامکمل اور غیر مؤثر ہونے کی وجہ سے آنے والے برسوں میں بھی ایسا ہوتا نظر نہیں آ رہا۔ اب سے 6برس قبل ہم نے ان ہی کالموں میں عرض کیا تھا ’’اگر امریکا، بھارت گٹھ جوڑ کے نتیجے میں افغانستان سے رقوم اور اسلحہ دہشت گردوں کو فراہم نہ کیا جاتا رہتا تو افواج پاکستان اب تک ان کا صفایا کر چکی ہوتیں چنانچہ موجودہ حالات میں وزیرستان آپریشن میں تو عارضی کامیابی حاصل کی جا سکتی ہے مگر دہشت گردی کے خلاف جنگ نہیں جیتی جا سکتی‘‘ (جنگ 16مارچ 2010ء) یہ بات آج بھی یقیناً درست ہے۔آرمی پبلک اسکول پشاور میں معصوم طلباء کی شہادت کے اندوہناک واقعہ کے بعد حکومت کی رٹ بحال کرنے کیلئے آل پارٹیز کانفرنس (اے پی سی) کے اعلامیہ کے ضمن میں ہم نے ایک برس قبل ان ہی کالموں میں عرض کیا تھا:۔
(i)رٹ کی اس بحالی کو بہرحال دہشت گردی کی جنگ کی کامیابی قرار نہیں دیا جا سکے گا۔ اس کامیابی کیلئے اوّل قبائلی بھائیوں کے دل و دماغ جیتنے کے بھولے ہوئے سبق کو پھر سے یاد کر کے ضروری اقدامات اٹھانا ہوں گے۔‘‘(ii)’’ہر قسم کے استحصال کے خاتمے اور ریاست کے ہر شہری کو مناسب غذا، لباس، تعلیم، علاج معالجہ کی سہولتیں اور رہائش کی فراہمی کیلئے آئین پاکستان میں جو شقیں موجود ہیں ان پر نہ صرف عمل نہیں کیا جا رہا بلکہ ان سے دانستہ انحراف کیا جا رہا ہے۔ آئین کی ان شقوں پر عملدرآمد کیلئے حالیہ اے پی سی میں ایک لفظ بھی نہیں کہا گیا حالانکہ یہ امر مسلمہ ہے کہ غربت اور احساس محرومی بھی انتہاپسندی کا سبب بنتی ہیں۔‘‘ (جنگ یکم جنوری 2015)
نائن الیون کے بعد سے ہم کہتے رہے ہیں کہ افغانستان پر امریکی حملوں کا بنیادی مقصد دہشت گردی کا خاتمہ ہے ہی نہیں بلکہ اصل ہدف عالم اسلام ہے (جنگ 16؍اکتوبر 2001ء) مہمند ایجنسی میں سلالہ کی فوجی چوکی پر نیٹو افواج کے حملے کے بعد جس میں وردی میں ملبوس ہمارے فوجی بھائیوں کو جان بوجھ کر شہید کیا گیا تھا افواج پاکستان کے نمائندے نے قوم کے جذبات کی ترجمانی کرتے ہوئے کہا تھا کہ نیٹو کے ہیلی کاپٹر کا حملہ سوچی سمجھی منصوبہ بندی کے تحت کیا گیا تھا اور یہ سازش تھی۔ امریکہ نے کم از کم تین مرتبہ پاکستان میں امن کیلئے طالبان سے مفاہمت کی کوششوں کو آخری مرحلے پر نقصان پہنچایا ہے۔ پاکستان نے 2006ءمیں پاک افغان سرحد پر باڑ لگانے کا مطالبہ کیا تھا۔ اس کے 9برس بعد 22ستمبر 2015ءکو وزیر داخلہ نے کہا کہ افغانستان سے در اندازی روکنے کا واحد حل پاک افغان سرحد پر باڑ لگانا ہے مگر اس کا مطالبہ بھی نہیں کیا جا رہا۔
پاکستان آرمی کے سربراہ جنرل راحیل نے 20جولائی 2015ءکو کہا کہ دہشت گردوں کی مالی معاونت روکنے کو بھی اتنی ہی اہمیت دی جائے گی جتنی دہشت گردی کی جنگ کو دی جا رہی ہے لیکن 7ماہ کا عرصہ گزرنے کے باوجود اسمگلنگ، ہنڈی؍حوالے کا کاروبار اور انڈر انوائسنگ وغیرہ بدستور جاری ہیں اور معیشت کو دستاویزی بنانے کے ضمن میں منفی پیش رفت ہو رہی ہے۔ اب یہ ناگزیر ہو گیا ہے کہ ٹیکس چوری اور لوٹی ہوئی دولت کو قانونی تحفظ فراہم کرنیوالی انکم ٹیکس آرڈیننس کی شق 111(4) منسوخ کرنے اور آئین کی شقوں 25 (اے) 37 (ڈی) اور 38 (ڈی) پر لازماً عملدرآمد کرنے جو کہ تعلیم اور عوام کی فلاح و بہبود سے متعلق ہیں، وفاق اور صوبوں کی سطح پر ایک مقررہ رقم سے زائد ہر قسم کی آمدنی پر مؤثر طور پر ٹیکس نافذ اور وصول کرنے، معیشت کو دستاویزی بنانے اور کالے دھن کو سفید بنانے کے تمام راستوں کو ممکنہ حد تک بند کرنے کو لازماً نیشنل ایکشن پلان کا حصّہ بنایا جائے۔ اگر یہ اقدامات نہ اٹھائے گئے تو دہشت گردی کی جنگ نہیں جیتی جا سکے گی اور تیل کی قیمتوں میں کمی اور چین، پاکستان اقتصادی راہداری اور ایران سے اقتصادی پابندیاں اٹھنے سے معیشت کو ہونے والے فوائد کے باوجود معیشت میں پائیدار بہتری نہیں آ سکے گی۔