• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

میڈیا میں جنسی زیادتی کی جو دل دہلانے والی خبریں آ رہی ہیں ان سے اندازہ لگانامشکل ہے کہ انسان کس حد تک گر سکتا ہے۔ بھائی بھائی کے ساتھ جنسی زیادتی کرکے اسے قتل کر دیتا ہے، کمسن معصوم بچیوں (اور بچوں) کے ساتھ بد فعلی کرکے ان کی لاش کوڑے کے ڈھیر پر پھینک دی جاتی ہے۔ خواتین کے ساتھ اجتماعی زیادتی کرنے والے دندناتے پھرتے ہیں اور خاندانی وقار کے نام پر کئی بے گناہ قتل کر دئیے جاتے ہیں۔ نفسا نفسی کا یہ عالم ہے کہ بلھے شاہ کے یہ اشعار دماغ پر ہتھوڑے برساتے ہیں:
جد آپو اپنی پے گئی ، دھی ماں نوں لٹ کے کھا گئی
(جب سب نفسا نفسی کا شکار ہو گئے تو بیٹی ماں کو لوٹ کر کھاگئی)
ویسے تو یہ کہنا سراسر نا انصافی ہوگا کہ صرف پاکستان میں بیمار ذہنیت پائی جاتی ہے ، ہمسایہ ملک ہندوستان میں بھی تین ماہ کی بچی کے ساتھ جنسی زیادتی ہوتی ہے، گینگ ریپ ہوتے ہیں اور انسانوں کو ذات برادری اور مذہب کے نام پر قتل کیا جاتا ہے۔ امریکہ اور مغرب کے صنعتی طور پر ترقی یافتہ معاشروں میں بھی وقتاً فوقتاً ذہنی بیمار قابل نفرت افعال کے مرتکب ہوتے رہتے ہیں۔ لیکن ہمارے دعوے کے مطابق ،یہ تو کافر معاشرے ہیں جن میں مذہبی اقدار ناپید ہیں۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ پاکستان جیسی مملکت خداداد میں ایسا کیوں ہوتا ہے جبکہ گلی گلی اقدارکا شور مچایا جارہا ہے۔ستر کی دہائی سے لے کر اب تک ہر وہ قانون بنایا جا رہا ہے جس سے ’پاکیزہ ‘معاشرہ تخلیق ہو۔ شراب اور دوسری منشیات پر پابندی لگا دی گئی، جوا اور گھوڑ دوڑ بند کر دی گئی،مجرموں کے لئے سخت سے سخت سزائیں تجویز کی گئیں لیکن پھر بھی معاشرے میں برائیاں پھیل رہی ہیں۔ کسی بھی صاحب حال سے پوچھ لیجئے اب پہلے سے کئی سو گنا زیادہ شراب پی جارہی ہے، کروڑوں لوگ منشیات کے عادی ہو چکے ہیں ، جنسی کاروبار پھیل چکا ہے ، خواتین کی بے حرمتی عام ہوگئی ہے اور بچوں کے ساتھ بد فعلی اور قتل کے واقعات شہر شہر میں ہو رہے ہیں۔ ساحر لدھیانوی کی مشہور نظم ’’ثناء خوان تقدیس مشرق کہاں ہیں ‘‘ آج ستر سال بعد پہلے سے زیادہ سچ دکھائی دے رہی ہے۔
صالحین پچھلی کئی دہائیوں سے یہ دعوے کر رہے ہیں کہ اگر مذہبی قوانین منظور کر لئے جائیں تو معاشرے میں اخلاقی بیماریوں کا قلع قمع ہو جائے گا۔ لیکن اس کا کیا کریں کہ ایک برادر عرب ملک جیسے کلیتاً مذہبی سماج میں انٹرنیٹ پر ہم جنسی کے بارے میں دنیا میں سب سے زیادہ تلاش کی جاتی ہے۔ پاکستان غیر اخلاقی فلموں کی انٹرنیٹ پرتلاش میں پہلے نمبر پر ہے۔ آخر ہم اخلاقی پہلو سے اتنے گرے ہوئے کیوں ہیں۔ کیا کہیں ایسا تو نہیں کہ جوں جوں قوانین سخت ہوئے ہیں، سماجی گھٹن بڑھی ہے اور اخلاقی گراوٹ میں اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے؟ امریکہ میں بھی جو ریاستیں زیادہ قدامت پرست ہیں اور جن کے قوانین بہت سخت ہیں، وہی ریاستیں زیادہ اخلاقی بحران کا شکار ہیں۔ امریکہ کی جنوبی ریاستوں (صوبوں) میں مذہبی جنون بڑھا ہے اور سماجی قوانین میں سختی آئی ہے ، لیکن انہی ریاستوں میں انٹرنیٹ پر جنسی مواد کی تلاش زیادہ ہوتی ہے، یہی نہیں، انہی ریاستوں میں طلاق کی شرح بھی سب سے زیادہ ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ پچھلے تیس سالوں میں گلوبلائزیشن نے نہ صرف جغرافیائی حدوں کو مسمار کر دیا ہے بلکہ انسانی اخلاق کے تمام معیاروں کو بھی بے معنی بنا دیا ہے۔اس طرح کا ماحول تب پیدا ہوا تھا جب یورپ کا معاشرہ صنعتی انقلاب کی منازل طے کر رہا تھا۔ یہی وہ زمانہ تھا جب یورپ میں مذہبی جنون، فرقہ واریت اور تنگ نظر قوم پرستی بڑھ رہی تھی، دکھاوے کیلئے سخت سے سخت قوانین بنائے جا رہے تھے اور مشہور فلسفی نیٹشے نے کہا تھا کہ ہم نے خدا کو قتل کردیا ہے اور ہمیں اس کا احساس بھی نہیں ہے۔ نیٹشے خدا کی نفی نہیں کر رہا تھا بلکہ یہ کہہ رہا تھا کہ وہ ضابطہ اخلاق جو پہلے معاشرے میں مذہب کی چھتری تلے جاری تھا وہ تجارتی اور صنعتی ترقی کے دور میں بے معنی ہو چکا ہے۔ نیٹشے کے مطابق المیہ یہ ہے کہ ہم نے پرانے اخلاقی نظام کو تو خیر باد کہہ دیا ہے اور نیا نظام تشکیل نہیں ہو سکا۔
ہماری دنیا یعنی برصغیر میں چالیس سال پہلے تک زیادہ تر آبادی تنہائی کا شکار نیم خوابیدہ دیہات میں رہتی تھی۔وہاں ہر کوئی دوسرے کو جانتا ہی نہیں تھا بلکہ ہر کوئی ایک دوسرے کے ساتھ کسی نہ کسی تعلق میں بندھا ہوا تھا۔ اسی طرح شہروں کے محلے بھی ایک ایسی دنیا تھے جس میں ہر کوئی ایک دوسرے کو جانتا تھا۔ دیہات ہوں یا شہر ، ہر جگہ ہزاروں سال سے عائد اخلاقی اقدار موثر انداز میں اپنا کردار ادا کر رہی تھیں۔ اس زمانے میں ذہنی بیمار ہوتے ہوں گے لیکن ان کی تعداد بہت ہی کم تھی۔ لیکن گلوبلائزیشن ، تجارتی اور صنعتی ترقی کے بعد گاؤں بھی بدل گئے اور شہر وں کے محلے بھی۔ دیہات کی بہت سی آبادی شہروں کی طرف نقل مکانی کر گئی اور محلے بھی اجڑ گئے۔ پورا معاشرہ ایک ایسی منڈی کی زد میں آیا کہ انسانوں کی ایک دوسرے سے شناسائی ناپید ہو گئی۔ اس اجنبیت کے شکار معاشرے میں پرانی اقدار مٹ گئیں اور نئے ضابطے تشکیل نہیں پائے۔ اس خلا کو مذہبی قوانین سے بھرا گیا لیکن ان سے مطلوبہ نتائج نہ نکلنے تھے اور نہ ہی نکلے۔عجیب لیکن قابل فہم امر یہ ہے کہ اجنبی معاشرے میں اپنی شناخت کھونے والوں نے قدیم ترین روایات (مذہب، فرقہ، ذات برادری) میں پناہ ڈھونڈنے کی کوشش کی لیکن وہ تو محض حقیقت سے فرار تھا۔ عملی حل تو یہ تھا کہ نئے ابھرتے ہوئے سماج کے تقاضوں کے مطابق نئی اقدار تشکیل پاتیں۔ لیکن یہ عمل تو صدیوں میں ہوتا ہے اور ہمیں تو ابھی صرف چالیس سال ہوئے ہیں اس جہان نو میں داخل ہوئے۔ بقول غالب:
عاشقی صبر طلب اور تمنا بیتاب
دل کا کیا رنگ کروں ، خون جگر ہونے تک

تازہ ترین