• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کراچی لٹریچر فیسٹول میں شرکا کی تعداد اپنے عروج پر ہونے کے باوجود توقع سے کم تھی۔ میرے حساب سے مستقبل میں کتابیں صنعتی انقلاب سے پہلے والی شکل میں آجائیں گی۔لگژری چیزوں کی طرح چند روز قبل کا واقع ہے ، میں نے اپنے چھوٹے بیٹے آدم کو مطالعہ کی اہمیت سمجھاتے ہوئے ٹیلی ویژن دیکھنے سے پرہیز کی تلقین کرتے ہوئے کہا ۔
’’کتابیں پڑھنے کیلئے تمہیں وقت کب ملتا ہو گا؟‘‘
بیٹے نے کہا۔’’کتابیں پڑھنے سے کیا فائدہ پایا‘‘؟
’’ اس سے آ پکا ذہن وسیع ہوتا ہے‘‘ میں نے جواب دیا۔
آدم کا جواب تھا ’’وہی ساری چیزیں ٹی وی پربھی ہیں، چنانچہ ذہن ٹی وی دیکھنےسےبھی وسیع ہوتا ہے‘‘۔
میں کہتا ہوں ’’کتابوںمیں تمہیں بے شمار سائنسی معلومات اور ان کا حال احوال ملے گا‘‘۔
بیٹا کہتا ہے ’’سائنس ٹی وی پر بھی ہے‘‘۔
میں پھر کہتا ہوں۔ ’’کتابوں میںادب ہے، سیاست ہے، صحافت ہے ثقافت اور تہذیبی سرمایہ ہے‘‘۔
آدم جواب دیتا ہے۔ ’’ایسی بہت سی چیزیں اور پروگرام جن کا تعلق ادب، صحافت ، ثقافت ، سیاست ، تفریح اور تہذیب و تمدن سے ہے ۔ ٹیلی ویژن پھر بھی موجود ہیں‘‘۔
بیٹے کو سمجھاتے سمجھاتے جب میں تنگ آجاتا ہوں تو کہتاہوں۔ ’’اس کے باوجود تمہیں کتابیں پڑھنی ہونگی‘‘۔
’’وہ کیوں؟‘‘ بیٹے نے پوچھا۔
’’اس لئے کہ ہم کتابیں لکھتے ہیں‘‘ ! باپ کی زبانی یہ دلیل سنتے ہی بیٹا کہتا ہے۔
’’ جب ہم کتابیں پڑھتے نہیں تو آپ کتابیں لکھتے ہی کیوں ہیں‘‘!!
مطالعہ کا ذوق و شوق ختم ہونے کی حقیقت پر اس سے بڑا تبصرہ اور کیا ہوسکتاہے ۔ میں یہ نہیں کہتا کہ میرا بیٹا کوئی بڑا لیڈر، دولت مند، سیاستدان، صنعت کار، ڈاکٹر، انجینئر، سائنس دان، پروفیسر یا فنکار بن جائے بلکہ میں اسے بے لاگ ، بےخوف، بااعتماد، روشن خیال ، روشن ضمیر اور
متوازن شخصیت کا مالک بنانا چاہتا ہوں کہ وہ بڑا ہو کر اس وسیع حقائق کی دنیا میںزندگی سے نبرد آزما ہو اور وہ اپنا مقام آپ پیدا کرے اور میں یہ بھی سمجھتا ہوں کہ ان مقاصد کو پانےکے لئے مطالعہ ضروری ہے۔ بے حد ضروری… اب رہ گئی بات اختلاف کی تو مجھے اس بات سے مکمل اتفاق ہے کہ اگر کس شخص کو کسی سے فکری اور نظری اختلاف ہو تو سب سے پہلے یہ سمجھنا چاہئے کہ یہ اختلاف فطری اور طبعی ہے، یہ کوئی ضروری نہیں کہ ایک انسان دوسرے انسان کی فکر و نظر کا مکمل طور پر پابند ہو، اختلاف زندہ ضمیری کی بھی علامت ہے۔ پرنٹ میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا کے بارے میں پائے جانے والے نئی ،پرانی نسل کے اختلافات کو میں ذاتی اختلاف میں تبدیل نہیں کر رہا لیکن الیکٹرانک میڈیا کا دھماکہ خیز انقلاب اگر سب سے زیادہ کسی چیز پر اثر انداز ہوا ہے تو وہ ہے پرنٹ میڈیا جس سے کتابی دنیا میں سانس لینے والے عناصر بہت بے چین ہوئے، گلوبلائزیشن تحریک کی اہمیت اور حقیقت اپنی جگہ مسلم ہے لیکن کتاب آج بھی آمادہ ارتقا ہے۔ کتاب کی اہمیت کل بھی تھی آج بھی ہے اور کل بھی رہے گی۔ الیکٹرانک میڈیا تو آج کی پیداوار ہے لیکن عقل کی مدد سے انسان نے اس دور میں بھی بہت سی معلومات حاصل کر لی تھیں جب وہ پتھر کے زمانے میں رہا کرتا تھا، اس وقت اس کے پاس ایساکوئی ذریعہ نہ تھا کہ وہ اپنی معلومات ، فکر اور جیسا بھی تھا علوم و فنون کو محفوظ رکھ سکے اور دوسرے تک منتقل کر سکے جس کا وہ بے حد خواہش مند تھا کہ انسان اپنی خوشیوں اور غموں میں دوسرے انسانوں کو شریک کر کے طمانیت محسوس کرتا ہے چنانچہ انسان نے لکھنے کی ابتدا کی ، اس سے قبل تک ابلاغ کا عمل زبانی، آوازوں اور اشاروں کی مدد سے ہوتا تھا۔ تحریر کی ایجاد سے پہلے انسان کو ہر بات یاد رکھنی پڑتی تھی۔ علم سینہ بہ سینہ اگلی نسلوں کو پہنچتا تھا، بہت سا حصہ ضائع ہو جاتا تھا۔ تحریرسے لفظ اور علم کی عمر میں اضافہ ہوا، دیگر لوگ اس میں شریک ہوئے اور انہوں نے نہ صرف علم حاصل کیا بلکہ اسکے ذخیرے میں اضافہ بھی کیا۔ لفظ حقیقت اور صداقت کے اظہار کے لئے تھا اس لئے مقدس ہوا، لکھے ہوئے لفظ کی اور اسکی وجہ سے قلم اور کاغذ کی تقدیس ہوئی۔ بولا ہوا لفظ آئندہ نسلوں کے لئے محفوظ ہوا تو علم و دانش کے خزانے محفوظ ہو گئے۔ جو کچھ نہ لکھا جا سکا وہ بالآخر ضائع ہو گیا۔ پہلے کتابیں ہاتھ سے نقل کی جاتی تھیں اور علم سے صرف کچھ لوگوں کے ذہن ہی سیراب ہوتے تھے۔ (لکھنےکی ابتدا کب کیسے اور کہاںسے ہوئی یہ ایک الگ موضوع ہے) علم حاصل کرنےکے لئے دور دور کا سفرکرنا پڑتا تھا جہاں کتب خانے ہوں اور ان کا درس دینے والے عالم ہوں۔ چھاپے خانےکی ایجاد کے بعد علم کے پھیلائو میں وسعت آئی (یہ الگ بات ہے کہ چھاپے کے استعمال کو مخالفت کا بھی سامنا کرنا پڑا۔) کیونکہ وہ کتابیں جو نادر تھیں اور وہ کتابیں جو مفید تھیں آسانی سے دستیاب اور فراہم ہوئیں۔ میرے حساب سے سماجی، سیاسی ، ثقافتی اور طبعی علوم کی کتابوں کی اہمیت ادبی کتابوں سےکم نہیں ہے، اگر ادب زندگی کا آئینہ ہے تو زندگی سماج سے جڑی ہوئی ہے اور سماجی ارتقا اور ذہن انسانی کی نشوونما طبعی، انسانی علوم اور ٹیکنالوجی کے بغیر ممکن نہیں۔ الیکٹرونک میڈیا کی اہمیت سے ایک لمحے کو بھی انکار نہیں لیکن کتب بینی انسانی زندگیوں کو صحیح رخ پر ڈھالنے کا ایک بہترین ذریعہ ہے۔ اپنی شخصیت کو نکھارنے اور خیالات کو سنوارنے میں کتابیں ہماری بہترین رفیق ہیں۔ میں خود زندگی کو کتابوں کے آئینہ میں دیکھتا آیا ہوں یہی وجہ ہے کہ آج برا بھلا جیسا بھی ہوں اپنے بچوں کے لئے قابل فخر ہوں۔ (یہ میں نہیں کہتا یورپ میں پیدا ہونے اور تعلیم و تربیت حاصل کرنے والے میرے چار بچوں کا کہنا ہے۔)
بات کہاں سے کہاں جا پہنچی۔ آخری بات یہ کہ یورپ میں جب سے بچوں کے فکشن کاایک مقبول سلسلہ ’’ہیری پورٹر‘‘ منظر عام پر آیا ہے اور جسے ’’ولیم پورٹر سیریز‘‘ کا نام دیا گیا ہے ،اس کروڑوں کی تعداد میں چھپنے والی سیریز نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ سردست کتاب کے مستقبل کو کوئی خطرہ لاحق نہیں ۔اس مقبول ترین سیریز کی مصنفہ جے کے رولنگ نے حال ہی میں اپنی کتابوں کی آمدنی میں سے برطانونی لیبر پارٹی کو ایک ملین پائونڈ کا عطیہ دیا ہے۔ مصنفہ کا کہنا ہے کہ وہ بچوں میں غربت ختم کرنے کی لیبر پارٹی کی کوششوں سے متاثر ہوئی ہے۔ امیر ترین افراد کی لسٹ کے مطابق جے کے رولنگ پانچ سو ساٹھ ملین پائونڈ کی مالک ہیں۔

تازہ ترین