• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہمیشہ ہی سرد موسم میںجب باہر درجہ حرارت منفی حد کو چھورہا ہو تو گاڑی میں چلنے والا گرم ہیٹر بہت بھلا محسوس ہوتا ہے یہی وجہ تھی کہ اپنی نئی گاڑی کو پارکنگ میں لگانے کے بعد کچھ دیر گاڑی میں بیٹھ کر گرمی کو انجوائے کیا اور پھر گاڑی سے اتر کر پچھلا دروازہ کھولا ہی تھا کہ بریف کیس نکال سکوں ، اچانک ایک وین بالکل میرے سامنے آکر رکی ،وین کے پچھلے دروازے سے ایک آدمی نے پنجابی زبان میں میرا نام پکارا ورکہا کہ بھائی جی ذرا یہاں تک آئیں گے کچھ بات کرنی ہے ،میں نے جواب دیا کہ آپ کو بات کرنی ہے تو آپ یہاں آئیں میں کیوں آئوں ، وہ تھوڑا جھجکا اور پھر آگیا ،مجھے وہ بہت آسودہ حال دکھائی نہیں دے رہا تھا ایسا محسوس ہورہا تھاکہ وہ کسی یارڈ پر گاڑیاں کاٹنے کی مزدوری کرتا ہے ،اس کے منہ سے شراب کی بو بھی آرہی تھی ۔ میں ایک قدم پیچھے ہٹا تو اچانک اسی گاڑی کا دروازہ کھلا اورچہرے پر ماسک لگے دو آدمی باہر آئے ۔ ایک شخص نے مجھے گردن سے پکڑا تو دوسرے نے کندھوں سے ، تیسرے نے میری ٹانگوں کو پکڑا اور زبردستی اپنی وین کی جانب لے جانے لگے ، ایک شخص کے ہاتھ میں چاقو بھی تھا جو مجھے قتل کرنے کی مسلسل دھمکیاں دے رہا تھا ، دوآدمی مجھے لیکر پیچھے بیٹھے جبکہ ایک نے فوری طور پر گاڑی چلا دی ۔ میں ابھی تک حیران پریشان تھا کہ جاپان جیسے محفوظ ملک میں میرے ساتھ کیا ہورہا ہے ۔ مجھے پیچھے والی سیٹ کے نیچے لٹا دیا گیا ، ایک شخص نےٹیپ سے میرے ہاتھ پائوں باندھ دیئے ، منہ پربھی ٹیپ لگادی ،اب میں مکمل طور پر اغواکاروں کے قبضے میں تھا کچھ معلوم نہ تھا کہ کون ہیں کیوں اغوا کیا اور کیا ارادے ہیں ،چند منٹوں بعد میری تلاشی لےکرپرس سےتمام کارڈزاوردو لاکھ روپے نکال لئے گئے ،جس کے بعد مجھ سےاے ٹی ایم پاس ورڈ معلوم کرنے کیلئے گردن پر چاقو رکھ کر منہ سےٹیپ ہٹائی گئی ،ساتھ میں دھمکی دی گئی کہ آواز نکالی یا غلط پاس ورڈ بتایا تو گردن کاٹ دیںگے ۔تقریباََ آدھے گھنٹے کی ڈرائیو کے بعد مجھے محسوس ہوا کہ وہ کسی گاڑیوں کے یارڈ پر آگئے ہیں ایک آدمی پیچھے بیٹھ کر میری حفاظت پر مامور رہا جبکہ دو افراد وین سے اتر کر باہر گئے ۔ ایسا لگا کہ وہ کسی کے کہنے پر مجھے اغوا کرکے لائے تھےاور اور اب اغوا کی قیمت وصول کررہےتھے ۔ کچھ دیربعد گاڑی چل پڑی اور ایک سیون الیون نامی اسٹور پر رکی جہاں اے ٹی ایم مشینیں لگی ہوتی ہیں ،وہاں ایک آدمی میرے تینوں کارڈز اپنے ساتھ لے گیا ، اور چند منٹوں میں واپس بھی آگیا ،اس کے ہاتھ میں لفافہ تھا اپنے ساتھی کے پوچھنے پر اس نے بتایا کہ اس کے اکائونٹ میں رقم تو کروڑوں میں ہے لیکن کارڈ کی حد کی وجہ سے صرف بیس لاکھ روپے نکل سکے ۔ یہ میری خوش قسمتی ہے کہ بینک والوں نے یہ حد محدود رکھی ہے ورنہ تمام رقم نکل چکی ہوتی ،۔ وہ ایک بار پھر مجھے ناگویا کی سڑکوں پر گھماتے رہے ۔ مجھے یقین تھا کہ اگر بچ گیا تو جلد ہی یہ اغوا کار پولیس کی گرفت میںہونگے کیونکہ میرے گھر میںموجود سی سی ٹی وی کیمروں سے گھر اور پارکنگ کی ریکارڈنگ ہوتی ہے ، پولیس نے بھی پورے شہر میں کیمرے لگا رکھے ہیں جبکہ سیون الیون میں بھی اے ٹی ایم مشینوں پر خفیہ کیمرے نصب ہیں لہٰذا بچنے کا امکان صفر ہی ہوتا ہے ۔میں مسلسل اللہ تعالیٰ کویاد کرتے ہوئے اپنی سلامتی کی دعائیں مانگ رہا تھا تاکہ جاپان جیسے پر امن ملک میں خطرناک جرم کرنے والوں کو گرفتار کراکر دنیا کے سامنے مثال بنا سکوں پھر اللہ تعالیٰ نے دعاسن لی باوجود ایک اغواکار نے مجھے قتل کرکے گاڑی کسی نامعلوم جگہ پر چھوڑ کر بھاگنے کی تجویز بھی پیش کی لیکن دیگر دو نے اس کی تجویز رد کردی اورپھر مجھے ایک نامعلوم مقام پر ہاتھ پیر کھول کر وین سے یہ دھمکی دیکر اتاردیا کہ جس طرح آج اغواکیا ہے دوبارہ بھی کرسکتے ہیں لہٰذا پولیس یاکسی سے بھی اس بارے میں بات کی تو ٹکڑے کرکے سمندر میں بہادیں گے ، میں جیسے تیسے کرکے اپنے گھر پہنچا گاڑی ابھی تک اسی طرح کھلی ہوئی تھی اسے بند کیا اپنا سامان نکالا اور فوری طور پر پولیس کو واقعہ کی اطلاع دی ، پولیس نے فوراََکارروائی شروع کردی ،دوگھنٹے کا اغوا بائیس لاکھ میں پڑا جبکہ نفسیاتی طور پر یہ واقعہ زندگی بھر نہیں بھلا سکتاتھا ۔ پچھلے چھ ماہ کے دوران میرے ساتھ پیش آنے والا یہ تیسرا واقعہ تھا ۔ جاپان جیسے محفوظ ملک میں صرف چھ ماہ کے دوران دو دفعہ دن دیہاڑے گھر میں چوری ہوچکی تھی اور اب اغوا کی واردات بھی ہوگئی ۔ پہلی واردات چودہ اگست کے دن ہوئی جب میں اپنے اہل خانہ کے ہمراہ پاک جاپان دوستی فیسٹیول میں شرکت کے لئے ٹوکیو گیا تھا جہاں سے واپسی پر معلوم ہوا کہ دو عدد گاڑیاں اور گھر سے قیمتی سامان چوری ہوچکا ہے پولیس کو اطلاع دی اور اگلے روز ہی دونوں گاڑیاں برآمد کر لی گئیں ۔پولیس نے ملزمان کے سی سی ٹی وی ویڈیو سمیت کئی اہم ثبوت حاصل کرلئے امید یہی تھی کہ چند دنوں میں ملزمان گرفتار ہوجائیں گے لیکن کئی ہفتوں بعد بھی ملزمان گرفتار نہ ہوسکے ۔ ابھی پچھلا واقعہ ہی ذہن میں تھا کہ ایک روز دفتر سے واپسی ہوئی تو پورا گھر الٹ پلٹ تھا قیمتی گھڑیاں اور اہم کاغذات غائب تھے ایک بار پھر پولیس کو اطلاع دی ، پولیس آئی تفتیش شرو ع کی کئی اہم ثبوت ہاتھ لگے لیکن پھر بھی ملزمان گرفتار نہ ہوسکے ۔تین ہفتوں میں دو وارداتیں ہوچکی تھیں کہ ایک روز ایک معروف برانڈ کی دکان سے فون آیا جہاں سے میں نے قیمتی گھڑی خریدی تھی کہ آپ کی گھڑی ایک جاپانی بیچنے آیاہے کہہ رہا ہے کہ آپ نے تحفہ میں دی ہے میں نے فوراََ پولیس کو اطلاع کرنے کا کہا کہ یہ گھڑی میرے گھر سے چوری ہوئی ہے پولیس میں رپورٹ درج ہے میں نے کسی کو تحفہ میں نہیں دی ۔ لیکن وہ چور اس روز بھی بچ گیا۔ اور اب اغوا برائے تاوان کا واقعہ بھی ہوگیا ہے لیکن مجرم تاحال گرفتار نہیں ہوئے ، گزشتہ روز اپنی سی سی ٹی وی کی فوٹیج اور تصاویر فیس بک پر ڈالیں تو ایک نامعلوم نمبر سے کال آئی کہ تمہیں منع کیا تھا کہ اس واردات کا پولیس سمیت کسی سے ذکر نہ کرنا لیکن یہ کرکے تم نے غلطی کی ہے اور اس کی سزا تمہیں قتل کرکے ہی دی جائے گی ، کوئی ڈھٹائی سے مجھے دھمکیاں دے رہا تھا ، میں نے فون کاٹ کر فوری طور پر پولیس کو اس کال سے بھی آگاہ کردیا ہے ،پاک جاپان بزنس کونسل کے صدر رانا عابد حسین مجھے فون پراپنی تکلیف دہ کہانی سنارہے تھے ،ان کے آخری الفاظ یہی تھے کہ اگر مجھے قتل کردیا جائے تو جاپانی حکومت اورپاکستانی سفارتخانے سے ضرور پوچھاجائےکہ ایک آدمی ایک پاکستانی شہری مسلسل زیادتی کا شکار ہورہا ہے اور بار بار کی درخواستوں کے باوجودکوئی اس کی فریاد سننے والا نہیں کوئی اس کی داد رسی کرنے والا نہیں ہے ،یہ کہہ کرانہوں نے فون بند کردیا اور میرے پاس بھی ان سوالوں کا کوئی جواب نہیں تھا۔

تازہ ترین