• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

’’میں جب جوان تھا۔ پاکستان روئے زمین پر کسی بھی دوسرے عام ملک کی طرح تھا۔ جیکولین کینیڈی کراچی آئیں۔ بیٹلز نے پاکستان کا دورہ کیا۔ ملکہ الزبتھ درۂ خیبر گئیں اور قبائلیوں سے ہم کلام ہوئیں۔ ہم ہاکی اور کرکٹ کے ورلڈ کپ کی میزبانی کرتے تھے۔ دوسرے بہت سے کثیر القومی مقابلے ہمارے ہاں ہوتے تھے۔ عالمی بینک نے 1963ء میں پاکستان کو ایشیا میں سب سے زیادہ ترقی کرتی، آگے بڑھتی قوم قرار دیا۔‘‘
یہ میرے الفاظ نہیں ہیں۔ اگرچہ میں بھی اور میرے بہت سے ہم عصر اِن دنوں جوان تھے۔ یہ خوشگوار یادیں ہمارے سپہ سالار جنرل قمر باجوہ کی ہیں جو انہوں نے میونخ کی سیکورٹی کانفرنس کے شرکاء میں بانٹیں۔ وہ کہتے ہیں۔
’’70 کا عشرہ ہمارے لئے بہت ہی تباہ کن رہا ہے۔ ہمارے مشرقی بازو کی علیحدگی اور دوسرے سیاسی زلزلوں نے بھی ہمارے معاشرے کی ہیئت اتنی نہیں بدلی تھی جتنے گہرے اثرات 1979 ء نے ہم پر مرتب کیے۔ جب سوویت یونین نے افغانستان پر حملہ کیا۔ جب ہمارے پڑوس میں ایران میں انقلاب آیا۔
اس کے بعد ہم نے یہ سوچنا شروع کیا کہ ہم صرف مسلمان نہیں ہیں۔ ہم سنّی ہیں شیعہ ہیں۔ یہی وقت ہے جب ہمیں نظریاتی طور پر سوویت یونین سے لڑنے اور کمیونسٹ آئیڈیالوجی کو چیلنج کرنے کی طرف راغب کیا گیا۔‘‘
دیکھنا تقریر کی لذت کہ جو اس نے کہا
میں نے یہ جانا کہ گویا یہ بھی میرے دل میں ہے
مجھے تو ایک ایک لفظ سے اتفاق ہے۔ آپ کو ہے یا نہیں۔ آگے سنیے۔
’آزاد دنیا کے قابل فکری تعاون سے مغربی یونیورسٹیوں میں ہمارے مدارس کے لئے نصاب مرتب کیے گئے۔ جہاں ہمارے نوجوان ذہنوں کے لئے ’جہاد‘ کی خوراک تجویز کی گئی۔ مگر اس کی تفسیر اور مفہوم کے بغیر۔ غیر ریاستی اداروں نے سیلف ڈیفنس ’خود مدافعت‘ کا سہارا لے کر جہاد کا اعلان کیا۔ دنیا بھر سے نوجوان بھرتی کیے گئے۔ انہیں شدت پسند بنایا گیا۔ جب ان سے اپنا مقصد پورا ہوگیا ان سے ترکِ تعلق کرکے بیچ منجدھار چھوڑ دیا گیا۔‘‘
اور یہ سطور سنیں۔ آپ کے اور میرے دل کی آواز۔
’’ میں تاریخ کا یہ طویل سبق دہرانے پر آپ سے معذرت خواہ ہوں۔ یہ سب کچھ آپ کے لئے تاریخ ہے۔ لیکن ہمارے لئے وطن میں یہ اب جیتا جاگتا مسئلہ ہے۔ ایک بڑی تعداد میں ہمارے لوگوں کے ذہنوں میں شدت بھردی گئی ہے۔ ان کے پاس ہتھیار ہیں۔ سیاسی اور نظریاتی طور پر وہ طاقت ور ہیں۔ انہیں صرف اس لئے ختم نہیں کیا جاسکتا کیونکہ ہم انہیں پسند نہیں کرتے۔ ہم وہی کاٹ رہے ہیں جو ہم نے 40 سال پہلے بویا تھا۔ اس لئے اس فصل کو جڑ سے اُکھاڑنے میں کچھ عرصہ لگے گا لیکن اب آیئے اسے ’جہاد‘ کہنا چھوڑ دیں۔ کیونکہ یہ دہشت گردی کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔‘‘
17 فروری 2018ء کو میونخ میں بین الاقوامی سیکورٹی کانفرنس سے آرمی چیف کا خطاب بہت بامعنی اور فکر انگیز ہے۔ خاص طور پر یہ جملہ کہ ہم وہی کاٹ رہے ہیں جو ہم نے 40 سال پہلے بویا تھا۔ میں نے 1980ء کے عشرے میں یہ شعر کہا تھا۔
سبھی تھے زہر کی نفرت کی کاشت میں شامل
پکی ہے فصل تو اب کاٹنے سے ڈرتے ہیں
اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ادا کرنا چاہیے کہ اسی ادارے کو اس تباہی۔ خونریزی اور انسان کشی کا ادراک ہوگیا ہے جس نے ان خون کے پیاسوں کی سرپرستی کی۔ سوویت یونین کے ساتھ ہم خود ایک ریاست کے طور پر لڑتے تو تباہی آج ہمارا مقدر نہ بنتی۔ 1979ء سے شروع ہونے والا یہ عرصہ ریاست کی حرمت پامال کرگیا۔ اسے 1979ء کی بجائے جولائی 1977ء سے شروع کرلیں۔ جب ایک منتخب حکومت کے خاتمے اور سیاسی شعور کو دفن کرنے کے لئے اسلامائزیشن کا سہارا لیا گیا۔ 1977ء سے پہلے پاکستان ایک اعتدال پسند معاشرہ تھا۔
یہ 40سال جن کا ذکر جنرل قمر باجوہ نے کیا بہت ہی خون آشام ہیں۔ کتنے ڈاکٹر تہ تیغ کیے گئے۔ کتنے علمائے دین سے زندگی چھینی گئی۔ جن میں ہر مسلک کی محترم و مکرّم ہستیاں شامل تھیں۔ کتنے جنرل بریگیڈیئر۔ کرنل۔ میجر۔ کیپٹن اور عام فوجی سپاہی بم دھماکوں میں مارے گئے۔ کتنے سرکاری افسر اور جج اس دہشت گردی کی نذر ہوگئے۔
اسلام تو سلامتی کا پیغام ہے۔ اسوۂ حسنہ تو ہر ایک سے پیار سکھاتا ہے۔ پاکستان کو اللہ تعالیٰ نے 60 فیصد نوجوان آبادی عطا کی ہے۔ ان نوجوانوں کے لئے ہماری فوجی اور سیاسی حکومتوں نے تربیت کا اہتمام کیا نہ انہیں روزگار فراہم کرنے کی منصوبہ بندی کی۔اس لئے یہ بے روزگار نوجوان علیحدگی پسند تنظیموں۔ لسانی گروہوں اور جہادی جماعتوں کے ہاتھ لگتے رہے۔ مارشل لا نے بھی یہ سکھایا کہ طاقت کا سرچشمہ بندوق کی نالی ہے ۔ وڈیروں۔ جاگیرداروں۔ قبائلی سرداروں کے کلچر نے بھی یہی بتایا کہ طاقت ہی سب کچھ ہے۔ علم کی کوئی حیثیت نہیں۔ شہروں میں موجود لینڈ۔ واٹر۔ ٹرانسپورٹ۔ ڈرگ مافیائوں نے بھی اسی سوچ کو آگے بڑھایا تو جب ایک دھتکارا ہوا بے روزگار نوجوان کراچی۔ کوئٹہ یا وزیرستان میں کلاشنکوف اُٹھاتا تھا تو اسے ساری دنیا اپنی غلام دِکھائی دیتی تھی۔ پھر ہمارے قبائلی علاقے جنہیں ہم نے جان بوجھ کر پسماندہ رہنے دیا۔ وہاں سڑکیں نہیں بنائیں۔ اسکول نہیں کھولے۔ اسپتال نہیں تعمیر کیے۔ وہ اپنے رہن سہن اور طرز زندگی کو ہی اسلامی تہذیب سمجھتے ہیں۔ اب بھی وہاں بارہویں یا تیرہویں صدیاں چہل قدمی کرتی ہیں۔ بارہویں صدی کی سوچ رکھنے والوں کو اکیسویں صدی کے ہتھیار اور ٹیکنالوجی مل گئی تو آپ اندازہ کریں کہ کتنا ہلاکت خیز اشتراک وجود میں آگیا۔
مذہب کے حوالے سے اتنی شدت پسندی ذہنوں میں راسخ کی گئی کہ نائن الیون کے بعد جنرلوں۔ بریگیڈیئروں کے بارے میں یہ تاثر دیا گیا کہ یہ امریکہ کی فوج کا ساتھ دے رہے ہیں اس لئے مرتد ہیں۔ واجب القتل ہیں۔
جنرل باجوہ نے یہ درست کہا کہ انہیں صرف اس لئے ختم نہیں کیا جاسکتا کہ یہ ہمیں پسند نہیں ہیں۔ ان کے دل اور دماغ جیتنے کی ضرورت ہے۔ ان کے نزدیک جہاد دہشت گردی نہیں بلکہ عشق ہے۔ یہ ہم نے ہی انہیں باور کروایا تھا۔ مملکت اور حکومت جب معاشرے سے برائیاں ختم نہیں کرپارہی۔ اسلامی مساوات پیدا نہیں کرپارہی۔ میرٹ پر عہدے نہیں ملتے تو ذہن میں شدت اور نفرت پیدا ہوتی ہے۔ ہم نے ہی انہیں ہتھیار دیئے۔ ہلاکت کو جنت کا راستہ قرار دیا۔ جب ہمارا مقصد پورا ہوگیا ہم نے انہیں لاوارث چھوڑ دیا۔ جو افسر ان سے کام لیتے تھے ان کے تبادلے اور ترقیاں کردی گئیں۔ بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔ فوج نے فلاح کی راہ تلاش کرلی ہے۔ غلطیوں کا اعتراف کرلیا ہے۔ سیاسی جماعتیں اور مذہبی تنظیمیں بھی اپنی غلط پالیسیوں کا ادراک کریں۔ مل جل کر اپنی نسلوں ۔ اپنے مذہب کی حرمت اور اپنے تہذیب و تمدن کو بچائیں۔ آج محبت اور اعلیٰ افکار کے بیج بونا شروع کریں تاکہ ہمارے بیٹوں بیٹیوں۔ پوتوں پوتیوں۔ نواسوں نواسیوں کو وہ زہریلی فصل نہ کاٹنی پڑے جو ہمارے حصے میں آرہی ہے۔

تازہ ترین