• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جس نے ان بھائی لوگوں کو گلی کوچوں سے اٹھا کر ایوانوں میں پہنچایا تھا، اسی نے ان کو پھر انہی گلی کوچوں میں لاکر بھڑا دیا ہے۔ اب ان میں سے کوئی پی آئی بی کالونی ہے تو کوئی بہادرآباد۔
مجھے اس بہادر آباد سے نہ جانے کیوں ایک انسیت سی ہے میں نے بہت بچپن میں اسے اپنے عروج پر دیکھا تھا۔ یہ یحییٰ خان کی آمریت کے اوائلی دن تھے لیکن کراچی کراچی تھا۔ شرف آباد کہلانے والے علاقے میں ٹی وی اسٹیشن نیا نیا تھا۔ ہم ٹی وی والی پچھلی گلی میں رہتے تھے۔ ان دنوں سڑکوں پر آنیوالے ہر بورڈ، دکانوں پر لگے ہوئے سائن بورڈ بلکہ نیون سائن ابھی شروع ہی ہوئی تھیں جنہیں میں جادو کہتا تھا اور ان پر چلنے والے کارٹون کرداروں کو جن۔ بہادر یار جنگ روڈ (جن کے نام پر یہ بہادرآباد ہے)شاہ ظفر روڈ، جمال الدین افغانی روڈ۔ ’’یار بنا ہے دولہا اور پھول کھلے ہیں من کے‘‘۔ بہادر آباد سے صدر اور پھر صدر سے محمد علی چاولہ کمپنی کی ٹرام ٹاور تک۔ کیماڑی سے منوڑہ۔ سمندر میں مچھیروں کے تیراک بچے لانچ کے گرد پھر کر آتے تو تماش بین نما سیاح پانی میں سکے پھینکتے اور یہ بچے سمندر کے پانی سے وہ سکے اپنے دانتوں اور ہونٹوں میں دبائے پانی سے برآمد ہوتے۔
بول میری مچھلی کتنا پانی
اتنا پانی
بس کے اندر دیکھتے تھے کہ ابھی ایک پہاڑی پر جناح صاحب کے مزار پر کام ہو رہا تھا۔ بس کنڈکٹر بھی کیا احمد رشدی بنے ہوئے تھے۔ ’’بندر روڈ سے کیماڑی‘‘ یاد ہے نہ یو ٹیوب سے بہت بہت پہلے! کلفٹن کا ماہی خانہ بالکل نیا نیا اور انتہائی صاف ستھرا۔ جس کے باہر بکنے والے آلو کے چپس ابھی نیا آئٹم تھا اور ساتھ میں کولا۔
جہاں ہم رہتے تھے وہاں ہمارے مالک مکان جلیل صاحب تھے وہ شمالی ہند سے آئے ہوئے مہاجر تھے اور مع اہل و عیال تبلیغ جماعت کے تھے، پیشے سے وکیل تھے۔ ہمارے پڑوسی اور میرے پہلے دوست حامد والے بھی بوہرہ تھے اور ہمارے سیٹھ پڑوسی احمد صاحب کا تعلق کاٹھیاواڑ سے تھا۔ اور فروٹ کے بڑے آڑھتی تھے انکے بیٹے اکھڑ اور اگر آج کے کراچی میں ہوتے تو بھائی لوگ کہلاتے۔ لفظ ’’کمیشن ایجنٹ‘‘ پہلی بار انہی احمد صاحب کے دکان کے بورڈ پر پڑھا لیکن اچھے لوگ تھے۔ تب ٹی وی بلیک اینڈ وائٹ تھا لیکن وہ بھی ہر کسی گھر میں نہیں تھا۔ ہم بچے ان کے گھر ٹی وی دیکھنے کو سہ پہر ہوتے ہی بڑے سے ڈرائنگ روم میں جمع ہوتے اور جس کو جہاں جگہ ملتی بیٹھ جاتے۔ ’’روبن ہٖڈ‘‘ ، ’’دی مین فرام انکل‘‘ سیریز اور ہر اتوار کو اردو فلم۔
ہم بچے ٹی وی اسٹیشن کے پچھواڑے ٹی وی اسٹیشن والوں کے کچرے میں پھینکے ہوئے بلیک اینڈ فلموں کی ریلوں کے ٹکڑے جمع کرتے اور پھر انہیں بڑے بچے ایک کے گھر پروجیکٹر پر جوڑ کر چلاتے۔ یہ پروجیکٹر بڑے بچوں نے فلمی رسالے شمع میں شائع ہونیوالے اشتہار سے لاہور سے بذریعہ وی پی منگوایا تھا۔
ہمارے کچھ فاصلے پر ان دنوں کراچی کے معروف وکیل کے اے غنی صاحب رہتے تھے جن سے ہمارے خاندانی تعلقات تھے۔ غنی صاحب بعد میں ہائیکورٹ کے جج بھی بنے۔ غنی صاحب راجستھان کے سلاوٹ تھے۔
اور وہ ماریہ والے کرسچن فیملی جنکے پاس صابن دانی گاڑی تھی۔ بہادر آباد کے ساتھ اسلام آباد کہلانے والا ایک اور علاقہ بھی کچھ فاصلے پر تھا جس میں خیرپور کے جمانی رہتے تھے ان کے والد علی محمد جمانی نے سکھر بیراج کی تعمیر میں حصہ لیا تھا۔ ان کا ایک بیٹا امریکہ میں شاہ فہد کا کلاس فیلو تھا۔ یہ لوگ تیل یا پیٹرولیم کے کاروبار سے وابستہ تھے۔ ان میں سے ایک بھائی غلام مصطفیٰ جتوئی کا سمدھی بنا۔ انہی دنوں ہمارے ملنے والے بزرگ کہتے تھے کہ وہ حاکم علی زرداری کی دعوت پر ان کے سینما میں فلم دیکھ کر آئے ہیں جہاں ذوالفقار علی بھٹو بھی آیا کرتا۔ ہمارے ملنے والے بزرگ کے قبیلے کی اکبر بگٹی اور اس کے قبیلے سے کئی دہائیوں تک دشمنی چلی تھی۔ لیکن وہ بزرگ نہایت ہی ملنسار اور شریف اور بہادر انسان تھے۔ ان کے اور بگٹی قبیلے نے ایک دوسرے کے کئی لوگ قتل کیے پھر آخر میں ان کی بگٹی قبیلے سے صلح ہوئی۔ کہتے ہیں کہ آدھی صدی سے زیادہ چلنے والی یہ جنگ ایک قبیلے کی گائے دوسرے قبیلے والوں کی زمین میں چرنے کو آنے پرہوئی۔ میں اس کو ’’کائو وار‘‘ کہوں گا۔
ہم سب بچے آپس میں بات چیت تو اردو میں کیا کرتے لیکن ہم نے بوہرہ بچوں سے ایک کوڈ زبان سیکھی تھی جو آپس میں اپنے تئیں کوئی راز والی بات کرنے کو بولا کرتے۔ وہ ان بچوں کی اپنی ایجاد تھی۔ ہم آج بھی وہ زبان بولیں تو شاذ و نادر ہی کوئی سمجھے۔
اس سے کچھ دن قبل بچوں بڑوں کی لغت میں جس ایک نئے لفظ کا اضافہ ہو چکا تھا وہ لفظ تھا ’’ہنگامہ‘‘ یا اس کا جمع ’’ہنگامے‘‘ جو یحییٰ خان کے مطلق العنانیت سنبھالنے سے ذرا قبل کراچی سمیت ملک بھر میں ہو چکے تھے۔ بس ہر جگہ ہنگامے والے آپ کی گاڑی کو روکتے اگر آپ کی گاڑی پر سیاہ جھنڈی نہیں لہرا رہی۔ پھر ’’ہنگامے والے بڑے لڑکے‘‘ آپ سے ’’بولو صدر ایوب مردہ باد‘‘ ’’بھٹو زندہ باد‘‘ کا نعرہ لگواتے اور آپ یہ جا وہ جا۔ اب ہم چھوٹے بچے بھی اپنے کھیل میں ایک نئی لائن سیکھ چکے تھے۔ ٹی وی اسٹیشن کی عمارت کے پاس سے گزرتے ہوئے ہم سب زور سے چلاتے ’’ہمارے مطالبے پورے کرو‘‘ اور سامنے والے پارک میں جا بیٹھتے۔ سچ پوچھو تو ہمیں ابھی لفظ مطالبے کے معنی بھی معلوم نہیں تھے۔
اب جب بہادرآباد اور پی آئی بی کالونی والوں کے درمیان پانی پت دیکھا تو نہ جانے کیوں مجھے بہادرآباد کے وہ بچے یاد آئے جو اچھے تھے۔ تب کئی زبانیں بولتے تھے۔ کتنے کلاس اور مسلک کے لوگ ایک ہی محلے میں رہتے تھے۔ ابھی بچوں نے کلاشنکوف لیکن اپنے محلے والے کے گھر میں کودنا نہیں سیکھا تھا۔ ابھی تو شاید پیار بھی بمشکل سیکھا ہو۔ مجھے تب بھی وہ یاد آئے جب زرداری نے برے بچے کو بہادر بچہ کہا۔ اور پھر بھائی نے ’’زرداری کے بچے‘‘ کہہ کر اسے مخاطب کیا۔ کہا ’’ابھی تو پہلی راگنی شروع کی ہے‘‘ یعنی کہ پورا سروں کا سرگم سنانے کے موڈ میں ہیں۔ تاریخ کو کیسے بچوں سے واسطہ پڑ رہا ہے۔ چلو بہادر بچے کا ایوارڈ واپس۔ اور پی آئی بی کالونی اس کالونی کو کیوں کہتے ہیں ۔ پیر الہٰی بخش کالونی کا مخفف شاید بہت سوں کو پتہ بھی نہ ہو۔ کہ ہم سب اب بھی حلقہ نمبر چھتیس میں رہتے ہیں۔
تھے ٹرین کا بچہ جس کو کہتے بند ہو گئی سو ٹرام
رہے مولا کا نام بچو رہے مولا کا نام۔
کئی سال بعد کے کراچی پر مصدق سانول کے ایک تھیٹر ڈرامے میں اک گیت میں نے لکھا تھا۔

تازہ ترین