• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان میں آج کل بالادستی کا چرچا عروج پر ہے۔ ہر کوئی خود کو دوسرے سے زیادہ سپریم سمجھتا ہے۔سول و عسکری قیادت کے درمیان بالادستی کی بحث پرانی ہے مگر اب معزز عدلیہ بھی بالادستی کے معاملے میں شریک ہوچکی ہے۔اسلام آباد اور راولپنڈی میں سے زیادہ سپریم کون ہے؟ یہ بحث ماضی کا قصہ ہوچکی ہے۔اب شاہراہ دستور پر موجود پارلیمنٹ اور عدلیہ کے درمیان بالادستی کا معاملہ اپنے عروج پر ہے۔ملک میں یہ طے ہی نہیں ہوپارہا کہ اصل سپریم کون ہے؟ہر ادارہ اپنی بالواسطہ یا بلاواسطہ بالادستی کیلئے دلائل دے رہا ہے۔ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کے قومی اسمبلی میں پر زور خطاب کے بعد نئی بحث نے جنم لے لیا ہے۔وزیراعظم فرماتے ہیں کہ پارلیمنٹ سب سے زیادہ سپریم ہے اور ہر ادارہ پارلیمنٹ کے بعد ہے۔مگر معزز چیف جسٹس صاحب کی رائے ہے کہ پارلیمنٹ واقعی سپریم ہے مگر آئین پارلیمنٹ سے بھی زیادہ سپریم ہے اور سپریم کورٹ کو آئین یہ اختیار دیتا ہے کہ وہ بنیادی حقوق سے متصادم کسی بھی قانون کا جائزہ لے سکتے ہیں۔اب یہ نہیں طے ہوپارہا کہ 2018کے پاکستان میں کس کی بالادستی ہوگی؟
وکالت کے طالبعلم ہونے کے ناطے میری ناقص رائے ہے کہ کسی بھی ریاست یا ملک میں سب سے زیادہ سپریم عوام ہوتے ہیں۔عوام ہی ارکان پارلیمنٹ کو منتخب کرکے اسمبلیوں میں بھیجتے ہیں اور انہی ارکان پارلیمنٹ کے ذریعے آئین وجود میں آتا ہے۔ملک میں بالادستی سے متعلق جاری نئی بحث کے بعد ایک سابق جج صاحب سے میں نے پوچھا کہ جج سپریم ہوتا ہے یا جج کا فیصلہ سپریم ہوتا ہے۔اس پر ریٹائرڈ جج صاحب مسکرائے اور کہنے لگے کہ عدالتی فیصلہ پبلک پراپرٹی ہوتا ہے اور اس پر تنقید کی جاسکتی ہے۔اس لئے سپریم وہ ہوتا ہے جو فیصلہ تحریر کرتا ہے نہ کہ فیصلہ۔ہمیشہ جج سپریم ہوتا ہے کیونکہ ان پر تنقید نہیں کی جاسکتی،جبکہ فیصلہ کبھی بھی سپریم نہیں ہوتا۔میں نے اپنا سوال پھر دہرایا اور کہا کہ پھر پارلیمنٹ اور آئین میں سے زیادہ سپریم کون ہے؟ جج صاحب مسکرائے اور کہنے لگے کہ پارلیمنٹ آئین بناتی ہے اور ارکان پارلیمنٹ آئین بنانے کے عمل میں ووٹ دیتے ہیں، اگر آئین سپریم ہوتا تو کبھی بھی 1956اور1962کا آئین پاکستان منسوخ ہوکر 1973کا آئین معرض وجود میں نہ آتا،جج صاحب نے اپنی بات جاری رکھی اور فرمایا کہ سپریم چیز میں کبھی بھی رد و بدل نہیں کیا جاتا،21سے زیادہ آئینی ترامیم اس بات کا عملی ثبوت ہیں کہ آئین سپریم نہیں ہے بلکہ آئین کو بنانے والا ادارہ سپریم ہے۔جو جب چاہے نیا آئین بنا سکتا ہے۔گفتگو کا سلسلہ جاری رہا تو ریٹائرڈ جج صاحب کہنے لگے کہ ہمیشہ بنیاد ڈالنے والا سپریم ہوتا ہے۔آئین کی بنیاد ارکان پارلیمنٹ ڈالتے ہیں ۔اس لئے جو آئین بناتے ہیں سپریم بھی وہی ہوتے ہیں۔میں نے جج صاحب کی بات سے اختلاف کرتے ہوئے کہا کہ آئین میں واضح درج ہے کہ پارلیمنٹ ایسا کوئی بھی قانون نہیں بناسکتی جو آئین کی بنیادی روح کے خلاف ہو اور سپریم کورٹ ایسے کسی بھی قانون کا جائزہ لے سکتی ہے۔جج صاحب نے تحمل سے میری بات سنی اور کہنے لگے کہ پاکستان میں یہ کوئی پہلا آئین نہیں ہے،بلکہ یہ تیسرا آئین ہے۔اگر پہلے دو آئین منسوخ ہوکر پارلیمنٹ تیسرا آئین بنا سکتی ہے تو پارلیمنٹ کی اکثریت تیسرے بنائے ہوئے قانون میں ترمیم بھی کرسکتی ہے۔اس لئے ملک میں سب سے زیادہ سپریم پارلیمنٹ ہے اور آئین پارلیمنٹ کے تابع ہے۔جج صاحب کی باتیں سن کر خاموش ہوگیا اور مزید کچھ نہیں کہا۔مگر آج ملک میں جس قسم کی بحث چھڑ چکی ہے ،میں بہت بڑا آئینی بحران دیکھ رہا ہوں۔اداروں میں قائم بھرم ختم ہوچکا ہے۔قومی مشاورت کا وقت قریب آچکا ہے۔
پارلیمنٹ کی بالادستی ہم سب کے لئے اشد ضروری ہے۔اگر تحریک انصاف سمیت نوازشریف کے تمام ناقدین کی بات سے اتفاق بھی کرلیا جائے کہ نااہل شخص کو پارٹی سربراہ بنانے کا فائدہ ایک شخص کو ہوا ہے اور ایک شخص کے لئے قانون سازی کی گئی ہے تو اسی پر تھوڑی بات کرلیتے ہیں۔پہلی بات تو نوازشریف کے مینڈیٹ اور طاقت کو تسلیم کرنا چاہئےکہ وہ نااہل ہوکر بھی اتنی گرفت رکھتا ہے کہ اپنی ذات کے لئے آئین میں ترمیم کرالی اور پارلیمنٹ کی تمام جماعتیں مل کر بھی مسلم لیگ ن کو روک نہیں سکیں۔کینسر سے لڑنے والا رکن پارلیمنٹ بھی نوازشریف کو ووٹ دینے کے لئے اسمبلی پہنچا۔کیا کسی نے کبھی سوچا ہے کہ اگر 200سے زائد ارکان نے نوازشریف کو ووٹ دیا اور پارٹی صدارت کے لئے اہل قرار دلوایا اور آئین میں ترمیم کی تو یہ200لوگ کون ہیں؟یہ200وہ لوگ ہیں جو ہر حلقے سے 70سے80ہزار ووٹ لے کر پہنچے ہیں ،200میں سے ہر ایک شخص4سے 5لاکھ لوگوں کا نمائندہ ہوتا ہے،کل ملا کر یہ تعداد کروڑوں میں ہے۔اگر کروڑوں لوگوں کے منتخب نمائندے ایک شخص کیلئے اس حد تک اسٹینڈ لیتے ہیں تو پھر نوازشریف واقعی بہت مضبوط آدمی ہے اور ہر عہدے کا حقدار ہے۔ناقدین کی بات کو وزن دیا جائے تو ایسی ترمیم کو ختم کروانے کے لئے دوسرا کوئی فورم استعما ل نہیں کرنا چاہئے۔اگر پارلیمنٹ کی اکثریت نوازشریف کے ساتھ کھڑی ہے تو کسی فیصلے سے اس کا مقابلہ مناسب نہیں۔یہی سے جنگ اور تنازعات شروع ہوتے ہیں۔اگر آپ سمجھتے ہیں کہ نوازشریف کو غلط اجازت دی گئی ہے اور نااہل شخص پارٹی صدارت کیلئے اہل نہیں ہے تو اس کے لئے بھی فورم پارلیمنٹ ہے۔آپ واپس جائیں عوام میں اور اتنا مینڈیٹ لے کر آئیں کہ نوازشریف کی جماعت کی جانب سے کی گئی آئینی ترمیم کو پارلیمنٹ کے ذریعے ختم کروائیں۔یہ آئینی اور قانونی طریقہ ہے۔یہ کوئی طریقہ نہیں ہے کہ آپ اپنی اہلیت سے ہر مرتبہ شطرنج کی گیم ہار جائیں۔مسلسل ہار کے بعد جب کوئی راستہ نہ ملے تو پوری شطرنج کی بساط ہی ہاتھ سے الٹ پلٹ دیں۔
پارلیمنٹ کے بنائے ہوئے قانون کو ختم کرنے کا اختیار بھی پارلیمنٹ کے پاس ہے۔اگر نوازشریف اپنی عوامی طاقت سے صرف اپنی ذات کیلئے قانون بنواسکتا ہے تو پھر آپ سب مل کر اس قانون کو عوامی مینڈیٹ کے ذریعے واپس کروائیں۔پارلیمنٹ کے بنائے ہوئے قانون کو ختم کرنے کا اختیار بھی پارلیمنٹ کے پاس ہونا چاہئے۔ پاکستان میںمضبوط اور آزاد عدلیہ کا قائم رہنا بہت ضروری ہے۔اگر عدلیہ کمزور ہوئی تو نقصان صرف عدلیہ کا نہیں بلکہ پورے پاکستان کا ہوگا۔ تمام اداروں کے سربراہ اپنی ذاتی اناپس پشت ڈال کر ملک کیلئے چند قدم پیچھے ہٹ جائیں اور حکمت کو ترجیح دیں کیونکہ اگر نقصان پارلیمنٹ کا ہوگا تو پھر نقصان دیگر اداروں کا بھی ہوگا۔

تازہ ترین