• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

دنیا بھر میں منائے جانے والے مادری زبانوں کے دن کے حوالے سے جنگ ڈویلپمنٹ رپورٹنگ سیل نے ایک تحقیقی رپورٹ جاری کی ہے جس کے مطابق مختلف ملکوں میں بولی جانے والی ایک تہائی زبانوں کی بقا خطرے میں ہے ان میں سے 26کا تعلق پاکستان سے ہے۔ اظہار، بلاغت اورحصول علم میں مادری زبان سے بہترکوئی ذریعہ نہیں۔ اگر ہم مادری زبان میں پڑھیں تو یقیناً اس سے بہت سی وہ تخلیقی صلاحیتیں بروئے کار آسکتی ہیں جنہیں اکثر لوگ اپنےسینے میں لیکر اس دنیا سے چلے جاتے ہیں۔ پاکستان جیسے ملکوں میں انگریزی دفتری زبان ہونے کی وجہ سے سرکاری سطح پر فرسٹ لینگویج، اردو (بحیثیت قومی زبان) سیکنڈ، اور مادری زبان تیسری حیثیت میں استعمال ہوتی ہے حالانکہ اصولی طورپر مادری زبان فرسٹ، اردو سیکنڈ اور انگریزی تھرڈ لینگویج کے طورپر استعمال میں آتی ہے۔ دوسری طرف چینی، انگریزی اور ہسپانوی زبانیں دفتری، قومی اور مادری تینوں سطحوں پر یکجا ہونے کی وجہ سے دنیا بھر میں بالترتیب پہلے دوسرے اور تیسرے نمبر پر استعمال ہوتی ہیں۔ یہ بات فکر انگیز ہے کہ پاکستان میں بولی جانے والی 37مادری زبانوں میں سے35فیصد کی بقا خطرات سے دو چار ہے ان میں سے سات زبانیں مخصوص علاقوں تک محدود ہیں اور 13زبانوں کو نئی نسل استعمال کرنا چھوڑ چکی ہے جبکہ 6زبانیں ایسی ہیں جن سے نئی نسل واقف ہی نہیں رہی پاکستان میں بولی جانے والی زبانوں میں سرفہرست پنجابی ہے، دوسرے، تیسرے، چوتھے، پانچویں اور چھٹے نمبر پر بالترتیب پشتو، سندھی، سرائیکی، اردو اور بلوچی آتی ہیں۔ اس سے پہلے کہ نئی نسل میں تیزی سے بدلتے رجحانات انہیں اپنی علاقائی زبانوں سے بھی دور کر دیں ضرورت اس بات کی ہےکہ زبانوں کے اس قومی ورثے کو زندہ رکھتے ہوئے کم ازکم اسے اختیاری مضمون کے طور پر تعلیمی نصاب کا حصہ ضرور بنایا جائے تاکہ عوام الناس کو اپنی ذہنی صلاحیتیں بروئے کار لانے میں ان سے مدد مل سکے اور لوک ورثہ محفوظ رہ سکے۔

تازہ ترین