• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

تیزی سے رنگ بدلتی سیاست ذہن اور قلم کو اپنی طرف متوجہ کرتی ہے اگرچہ تجزیات اور تبصروں کے دریا دن رات بہہ رہے ہیں۔کئی ماہ قبل میں نے لکھا تھا کہ 2017-18پاکستان کی تاریخ و سیاست میں بنیادی تبدیلیوں کے سال ہیں۔ کچھ نام سیاست کے صفحے سے محو ہوں گے، کچھ دھندلا جائیں گے اور کچھ نمایاں ہو جائیں گے۔یہ سلسلہ جاری و ساری ہے خیال تھا کہ اسی حوالے سے خامہ فرسائی کروں گا لیکن کینیڈا سے ایک پاکستانی قاری کے فون نے میری توجہ قائداعظم پر مرکوز کر دی۔سچ یہ ہے کہ پاکستانی لکھاریوں کی بڑی اکثریت قائداعظم سے گہری عقیدت رکھتی ہے، انہیں سیاسی حوالے سے اپنا آئیڈیل سمجھتی ہے لیکن تحقیق اور مطالعے کی کمی کے سبب قائداعظم کے ضمن میں معصوم سی غلطیاں کر جاتی ہے جس سے نوجوان نسل کے ذہنوں میں غلط فہمیاں پیدا ہوتی ہیں۔قائداعظم کے حوالے سے میرا اپنا مطالعہ بھی سطحی ہے اور وقت کےتیز رفتار دھارے میں بہتے ہوئے کتب بینی کے لئے وقت بھی کم ملتا ہے۔ مہربان لکھاریوں کی معصوم غلطیوں کی نشاندہی کے لئے فون کرتا ہوں تو فون بندملتے ہیں کیونکہ اولین ترجیح یہی ہوتی ہے کہ کالم نگار خود ہی اپنی غلطی کی تصحیح کریں بعض دوست تصیح کا وعدہ کرتے ہیں لیکن پھر بھول جاتے ہیں۔قارئین اور نوجوان طلبہ کی قائداعظم کے حوالے سے غلط انفارمیشن کی ایک بڑی وجہ یہی ہے کیونکہ کتابیں پڑھنے کی انہیں عادت نہیں اور اخباری مواد کبھی کبھار غلط فہمی کا باعث بنتا ہے۔
بیرون وطن سے آنے والی کال کے بعد میں نے ایک نہایت محترم اور عزیز کالم نگار کا کالم پڑھا تو حیرت میں ڈوب گیا کیونکہ کالم نگار کو قائداعظم سے گہری محبت اور عقیدت ہے اور وہ صف اول کے لکھاری ہیں لیکن قائداعظم کی ذاتی زندگی کے حوالے سے ایک عجیب سی غلطی کر گئے ۔انہوں نے چند روز قبل اپنے کالم میں لکھا تھا کہ ’’پیرس میں رتی جناح کی قبر پر قائداعظم پھوٹ پھوٹ کر روئے پھر اسے اللہ کے سپرد کیا اور اپنے مشن کی طرف لوٹ گئے ‘‘اسے میں ایک معصوم سی غلطی اس لئے کہتا ہوں کہ رتی جناح موت سے کچھ عرصہ پیرس میںبراے علاج گئی تھیں اور ان کی والدہ بھی ان کے ساتھ تھیں ۔قائداعظم سے رتی کے تعلقات کشیدہ ہو چکے تھے لیکن دونوں طرف محبت کی آگ بدستور روشن تھی جس کا اندازہ رتی کے خطوط بنام جناح سے ہوتا ہے اس وقت قائداعظم ایک سیاسی مصروفیت کے لئے لندن میں تھے انہیں رتی کی بیماری کا پتہ چلا تو فوراً پیرس پہنچے اور بیوی کی تیمارداری میں مصروف ہو گئے ۔قائداعظم اس کلینک سے مطمئن نہیں تھے جہاں رتی جناح زیر علاج تھیں چنانچہ انہوں نے رتی کو ایک اور بہتر کلینک میں منتقل کیا اور تقریباً ایک ماہ تیمارداری میں مصروف رہے۔رتی جناح اکتوبر 1928میں صحت یاب ہو کر وطن لوٹیں اور بمبئی میں قیام کیا لیکن قائداعظم کے گھر نہیں آئیں۔کچھ عرصہ بعد وہ پھر بیمار ہو گئیں اور 20فروری 1929کے دن وفات پاگئیں ۔مقدر کے کھیل پر غور کیجئے کہ رتی ڈنشا 20فروری 1900کو پیدا ہوئیں اور 29سال دنیا میں گزارنے کے بعد 20فروری 1929کو وفات پا گئیں۔قائداعظم دہلی میں تھے انہیں اطلاع ملی تو فوراً بمبئی پہنچے۔رتی کی تجہیزوتکفین اسلامی اصولوں کے مطابق کی گئی اور قائداعظم تدفین تک موجود رہے۔قائداعظم اپنے جذبات پر قابو کے لئے ایک علامت کی حیثیت رکھتے ہیں لیکن جب رتی ان کی زندگی کی پہلی محبت کو قبر میں اتارا جا رہا تھا تو وہ پھوٹ پھوٹ کر روئے اور ایک عینی شاہد کے مطابق بچوں کی مانند سسکیاں بھرتے رہے۔قائد اعظم کے ایک قریبی دوست کے مطابق پاکستان ہجرت کرنے سے ایک روز قبل قائداعظم بمبئی کے اس قبرستان میں گئے جہاں رتی دفن تھی اور دیر تک رتی جناح کی قبر پر مخموم بیٹھے رہے۔شام کے سایے ڈھلے تو وہ دل ہی دل میں رتی کو خداحافظ کہہ کر گھر لوٹ آئے ۔اگلے دن یعنی سات اگست 1947کو قائداعظم بذریعہ ہوائی جہاز کراچی روانہ ہوگئے۔اس مبارک سفر کے لئے ہوائی جہاز ہندوستان کے آخری وائسرائے یا گورنر جنرل لارڈ مائونٹ بیٹن نے دیا تھا گزشتہ دنوں ایک لکھاری نےلکھا کہ مائونٹ بیٹن قائداعظم کو الوداع کرنے کے لئے ہوائی اڈے پر پہنچے یہ بھی ایک معصوم سی غلطی ہے کیونکہ نہ ہی مائونٹ بیٹن قائداعظم کو الوداع کرنے ایئرپورٹ آئے اور نہ ہی جب مائونٹ بیٹن 13اگست 1947کو آزادی کا پروانہ دینے کراچی آیا تو قائداعظم اس کے استقبال کے لئے ایئر پورٹ آئے جس کا مائونٹ بیٹن نے برا منایا۔ مائونٹ بیٹن کو کراچی کے ہوائی اڈے پر گورنر سندھ ہدایت اللہ اور کچھ سینئر افسران نے ریسیو کیا۔ایک محقق و مصنف نے لکھا ہے کہ قائداعظم نے چودہ اگست کو مائونٹ بیٹن سے حلف اٹھایا۔یہ بھی غلط ہے کیونکہ قائداعظم نے 15اگست 1947کو پنجاب کے چیف جسٹس عبدالرشید سے حلف اٹھایا ایک اینکر پرسن فرما رہے تھے کہ قائداعظم حلف اٹھانے سے قبل غلطی سے گورنر جنرل کی کرسی پر بیٹھ گئے۔جسٹس عبدالرشید نے بذریعہ ملٹری سیکرٹری نشاندہی کی تو وہ معذرت کرکے دوسری کرسی پر تشریف فرما ہو گئے۔مجھے کوشش کے باوجود اس واقعے کا ثبوت یا سورس نہیں ملا اس لئے کچھ کہنے سے قاصر ہوں۔
بات چلی تھی رتی جناح سے جو بمبئی کے ایک مشہور اور رئیس پارسی سر ڈنشا کی اکلوتی بیٹی تھی۔نازک اندام، خوبصورت اور بقول سروجنی نائیڈو لاڈ سے بگڑی (SPOILED)رتی بمبئی کا خوبصورت پھول سمجھی جاتی تھی ۔ وہ سیاست میں حصہ لیتی تھی انگریز کی غلامی کی دشمن تھی اور قائداعظم سے بے حد متاثر تھی 1916کے لکھنو پیکٹ کے حوالے سے کانگریس مسلم لیگ کے مشترکہ اجلاس پر صدارت کرنے جب قائداعظم پہنچے تو رتی اپنے والدین کے ساتھ جلسے میں موجود تھی اور قائداعظم کو اتحاد کا پیامبر کا خطاب ملنے پر بہت خوش تھی۔قائداعظم اور رتی ڈنشا کی محبت کی شادی 19اپریل 1918کو انجام پائی جب رتی نے قائداعظم کی شرط منظور کرکے 18اپریل کو اسلام قبول کیا رتی کے مشرف بہ اسلام ہونے اور اگلے دن قائداعظم سے نکاح کی خبر ہندوستان کے تمام اخبارات میں شائع ہوئی۔نکاح سے ایک روز قبل محمد علی جناح رتی کو ساتھ لیکر بمبئی کی جامع مسجد میں پہنچے جہاں رتی نے امام مسجد جناب مولانا نذیر احمد خوجاندی کے ہاتھ پر اسلام قبول کیا۔مولانا نذیر احمد صدیقی (خوجاندی)مولانا شاہ احمد نورانی کے تایا تھے اور جنت البقیع مدینہ منورہ میں مدفون ہیں۔شواہد کے مطابق رتی نے اسلام قبول کرنے سے قبل اسلام کا خاصا مطالعہ کیاتھا۔چنانچہ ایک بار رتی جناح نے عدالت میں کھڑے ہو کر کہا تھا کہ اس نے اپنی مرضی سے اسلام قبول کیا۔وہ زندگی کی آخری سانس تک مسلمان رہی اور اسلامی اصولوں کے مطابق ہی دفن ہوئی۔19اپریل کو رتی کا نکاح شیعہ اصولوں کے مطابق پڑھایا گیا اور مولانا محمد حسن نجفی نے دلہن کی طرف سے دستخط کئے جبکہ گواہان میں راجہ محمود آباد بھی شامل تھے۔حق مہر ایک ہزار ایک روپے قرار پایا لیکن محمد علی جناح نے سوالاکھ روپے بطور تحفہ دلہن کو دیئے۔یہ حساب کرنا مشکل ہے کہ 1918کے سوا لاکھ روپے آج کتنے کروڑ روپوں کے برابر ہیں۔قدرت کے حسین اتفاقات میں سے ایک اتفاق یہ بھی ہے کہ قائداعظم محمد علی جناح کی اکلوتی بیٹی دینا چودہ پندرہ اگست1919کی نصف شب پیدا ہوئی اور قائد اعظم کا ’’واحدبچہ‘‘ 15-14اگست 1947کی نصف شب پیدا ہوا اور اس کا نام پاکستان رکھا گیا ۔محمد علی جناح کی پہلی شادی پندرہ سال کی عمر میں ہوئی اور دلہن ان کے انگلستان قیام کے دوران ہی وفات پاگئی۔ دوسری شادی تقریباً گیارہ برس رہی جو محبت و مسرت کی مثا ل تھی لیکن آخری برسوں میں تعلقات کشیدہ ہو گئے کیونکہ قائداعظم دن رات مسلمانوں کے حقوق اور ہندآزادی کے لئے مصروف رہتے تھے اور رتی کو زیادہ وقت دے نہیں پاتے تھے میں ان کی زندگی کا مطالعہ کرتا ہوں تو احساس ہوتا ہے کہ قائداعظم نے ذاتی زندگی اور گھریلو خوشیاں ہماری آزادی پر قربان کر دیں وہ نہ بیوی کو وقت دے سکے نہ بیٹی کو اور دونوں کو کھو کر پاکستان کو پالیا۔اپنی تمام جمع پونجی اور دولت بھی قوم کو دے دی مجھے اتنے عظیم ایثار کی مثال تاریخ میں نہیں ملتی۔

تازہ ترین