• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کالم نگار نے کہاکہ ’’وہ انتہائی چالاک اور ہوشیار ہیں۔ انہوں نے بڑی ہوشیاری کے ساتھ پوری ٹیم کی جیت کو اپنے نام کر لیا ‘‘۔ کالم نگار کوکون بتائے کہ ہمیشہ پلٹون کی فتح کا سہرا کپتان کے سر پر ہی سجا کرتا ہے ۔پھر کہا کہ ’’وہ جنرل حمید گل کی انگلی پکڑ کر سیاست میں آئے ۔ ‘‘ کوئی اگر پاسبان کے سربراہ محمد علی درانی کی انگلی پکڑ کر صحافت میں آئے تو اس میں بری بات کیا ہے ۔(بڑے دنوں کے بعد اُس دن حسن نثار کے گھر میں محمد علی درانی سے ملاقات ہوئی ۔اُس وقت کو یاد کرتے رہے جب وہ جماعت اسلامی کے نوجوانوں کی تنظیم ’’پاسبان ‘‘ کے سربراہ ہوا کرتے تھے )پھر کہا کہ ’’پرویز مشرف کی حمایت کی۔‘‘عمران خان نے تو پرویز مشرف کی حمایت کرنے پر قوم سے معافی مانگ لی تھی مگر نواز شریف ۔وہ شایدابھی تک جنرل ضیاالحق کی معنوی اولاد ہونے پر فخر کرتے ہیں ۔ پھر کہا کہ ’’ایک جرنیل کے کہنے پر جہانگیر ترین اور شاہ محمود کے کاندھوں پر ہاتھ رکھے ۔‘‘ اِس پر اِ س کے سواکیا تبصرہ کروں کہ کالم نگار اگرچہ میجر عامر کے قریبی دوست ہیں اِ س کے باوجوداُنہیں’’آپریشن مڈنائٹ جیکال ‘‘ میں نواز شریف کا کردار یاد نہیں رہا ۔’’پھر کہا ’’وہ امپائر کی انگلی کے منتظر ہیں ‘‘۔اگر وہ ایسے ہوتے تو اقتدار میں ہوتے ، ملک میں اگر جمہوریت ہے تو اس کا کریڈٹ صرف اور صرف عمران خان کوجاتا ہے ۔جاننے والے اس حقیقت سے مکمل طور پر باخبر ہیں ۔پھر کہا کہ ’’ وہ پارٹی فنڈز میں بیرون ملک سے آئی ہوئی رقوم کا حساب پیش کرنے کو تیار نہیں ۔‘‘شاید ہمارے دوست کو علم نہیں پی ٹی آئی یہ کام کر چکی ہے ۔تھوڑا سا وقت ضرور لگا ہے ۔یہ پشاور کی کسی نیوز ایجنسی کے فنڈ کا حساب کتاب تونہیں تھا،ایک ملک گیر پارٹی کی فنڈنگ کا معاملہ تھا۔ پھر لکھا کہ ’’ ان کی کامیابی کا پہلا خواب ہنری کسنجر نے دیکھا تھا۔‘‘ دیکھئے معاملہ کہاں سے کہاں پہنچ گیا عمران خان نے صرف اتنا سا جرم کیا کہ کہیں ہنری کسنجر کا یہ جملہ لکھ دیا تھا
A leader does not deserve the name unless he is willing "occasionally" to stand alone
پھر کہا کہ’’ پاکستانی نژاد محمد صادق کے مقابلے میں وہ یہودی امیدوار کی مہم چلاتے نظر آتے ہیں ۔‘‘۔سراسر الزام ۔انہوں نے برطانیہ میں کسی کی انتخابی مہم نہیں چلائی۔ حمایت کا اعلان ضرور کیا ۔صادق خان کے امیدوار بننے سے پہلے عمران خان اُس کے ساتھ وعدہ کر چکا تھا اور وعدہ نبھانا فرض ہے ۔ایک وضاحت جمائما کا بھائی یہودی نہیں عیسائی ہے ۔پھر کہا کہ ’’وہ اپنے گھر والوں کاوفادار نہیں‘‘۔ حضور سرور کائناتﷺ نے فرمایا تھا کہ اُس کی قسم جسکے ہاتھ میں محمدﷺکی جان ہے،اگرمحمدﷺکی بیٹی فاطمہ نےبھی چوری کی ہوتی تو میں لازماً اُس کا ہاتھ بھی کاٹ دیتا۔ پھر الزام دیا ۔’’وہ پارٹی رہنمائوں کو کبھی عون چوہدری کی قدم بوسی پر مجبور کرتے ہیں تو کبھی جہانگیر ترین کی‘‘۔ یہ ایک ایسا الزام ہے جس کا حقیقت سے ذرہ برابربھی کوئی تعلق نہیں ۔عمران خان کے پاس آنے والوں کا جتنا خیال یہ دونوں صاحبان رکھتے ہیں ۔اتنا خیال شاید ہی کوئی اور رکھتا ہو ۔پھر کہا کہ ’’ پنجاب کے چار حلقوں میں دھاندلی کا واویلا بلند کرکے چار سال تک آسمان سر پر اٹھائے رکھا۔‘‘۔حیرت ہے یہ تو سپریم کورٹ نے بھی اپنے فیصلے میں لکھ دیا تھا کہ چالیس فیصد دھاندلی ہوئی ہے ۔موصوف کو ابھی بھی چار حلقوں کی دھاندلی یاد ہے ۔ پھر الزام لگایا کہ ’’پارٹی انتخابات کے دوران بدترین دھاندلی کرائی ‘‘اِس الزام پر جگر کو روئوں یا سر کو پیٹوں۔ او بھئی تحریک انصاف تونام ہی عمران خان سے محبت کرنے والوں کا ہے انہیں کسی دھاندلی کی کیا ضرورت تھی ۔کسی امیدوار کے حق میں ان کا ایک بیان ہی کافی تھا ۔پھر الزام لگایا کہ’’اپنے دوست کو ڈی جی احتساب لگایا پھر فارغ کردیااور پھرکوئی ڈی جی مقرر نہیں کیا ‘‘ موصوف کوشاید یہ علم نہیں کہ خیبرپختون خوا اسمبلی احتساب ایکٹ میں ترمیم کرچکی ہے اور وہاں قانون کے تقاضوں کے مطابق کام ہورہا ہے ۔پھر فرمایا کہ’’وہ سول نافرمانی کا اعلان کرنے کے بعد بھی دندناتے پھررہے ہیں۔‘‘اُن کےلئے عرض ہے کہ 1977ء میں پاکستان قومی اتحاد نے سول نافرمانی کی تحریک شروع کرنے کا اعلان کیاتھا کہ اُس کے تمام لیڈران ِ کرام جتنا عرصہ زندہ رہے دندناتے پھرتے رہے۔ پھر کہاکہ ’’ انہوں نے پارلیمنٹ پر حملے کروائے۔‘‘ حیرت ہے کہ دھرنے کے دنوں میں آنسو گیس کی بے تحاشا برسات کے سبب پارلیمنٹ کے احاطے میں داخل ہونے والے بھی حملہ آور قرار پا گئے ۔پھر فرمایا کہ ’’ عدلیہ کو بلیک میل کرنے کی کوشش کی۔ ‘‘وہ شخص جسے عدلیہ نے صادق اور امین ہونے کا سرٹیفکیٹ دیا ہے اُ س پر یہ الزام لگا یاجارہا ہے کہ اس نےعدلیہ کو بلیک میل کرنے کی کوشش کی۔ میرے نزدیک یہ جملہ توہینِ عدالت کے زمرے میں آتا ہے ۔ پھر لکھا کہ ’’ مشہور ہے کہ جہاز ایک کا استعمال ہوتا ہے ، بلٹ پروف گاڑی کسی اور کی جبکہ کچن کا خرچہ کوئی اور اٹھاتا ہے ‘‘۔ ’’مشہور ہے ‘‘ کا مفہوم یہی ہے نا کہ لوگوں سے سنا ہے۔ صحیح بخاری میں ہے کہ ’’کسی شخص کے جھوٹا ہونے کے لئے اتنا ہی کافی ہے کہ وہ ہرسنی سنائی بات کو آگےبڑھا دے۔‘‘ پھر کہا کہ ’’عمران خان نے خیبر پختون خوا میں ایک ارب سے زائد پودے لگانے کا کہا وہاں پچاس کروڑ بھی نہیں لگے ۔‘‘ایسا لگتا ہے ہمارے کالم نگار دوست پودے گن کر آئے ہیں ۔پھر فرمایا ۔’’پولیس کے بارے میں جھوٹ کا پول شریفاں بی بی، اسما اور عاصمہ رانی کے کیسزنے کھول دیاہے ‘‘موصوف کو پورے صوبے سے پچھلے ساڑھے چار سال میں صرف تین کیس ملے ہیں جن کا وہ حوالہ دے سکے ہیں ۔اس سے بہتر پولیس کی کارکردگی اور کیا ہوگی ۔پھر کہا کہ ’’ وزیرتعلیم ایسے ہزار بچے بھی نہیں دکھاسکتے جو پرائیویٹ اسکول چھوڑ کر سرکاری اسکولوں میں آئے ہوں ۔‘‘اِس سلسلے میں وزیر تعلیم سے کالم نگار کی ملاقات انتہائی ضروری ہے ۔ ملے بغیر فیصلہ کرلینا اچھی بات نہیں ہوتی ۔میں اپنے کالم نگار دوست کا بہت احترام کرتا ہوں ۔میرے نزدیک رحیم اللہ یوسف زئی کے بعد افغان امور پر وہ بہت گہری نگاہ رکھتے ہیں مگر سیاست کے معاملے میں ان کا رویہ بالکل ’’پاسبان ‘‘ کے نوجوانوں جیسا ہے، انہیں اس میں کچھ ترمیم کرنا چاہئے ۔ پانی پلوں کے نیچے سے گزر گیا ہے ۔ نواز شریف دوسری مرتبہ نااہل ہوچکے ہیں ۔احد چیمہ کی گرفتاری بھی حکومتِ پنجاب کےلئے خطرے کی گھنٹی سے کم نہیں۔

تازہ ترین