• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

یہ کالم میں سندھ کے جس مقام پر لکھ رہا ہوں، اس کا شمار نہ سندھ اور نہ پاکستان میں ہوتا ہےمگر اس علاقے کو انتہائی ممتاز تاریخی مقامات میں کہا جاسکتا ہے، مگر کتنے افسوس کی بات ہے کہ اس مقام کے بارے میں جسے ’’رنی کوٹ کا قلعہ‘‘ کہا جاتا ہے، پاکستان کے باقی علاقوں کے عوام کو تو شاید کچھ پتہ بھی نہیں مگر خود سندھ کے عوام کی اکثریت اس مقام اور اس کے نام سے لاعلم ہے، ہم بچپن سے اس کے بارے میں سنتے رہے ہیں کہ سندھ کے ضلع دادو میں رنی کوٹ کے نام سے ’’منی چائنیز وال‘‘ موجود ہے‘ یہ اعزاز کچھ عرصہ پہلے حکومت سندھ کی طرف سے سندھ کے تاریخی ورثے کے تحفظ کے لئے قائم کئےگئے ادارے ’’انڈومینٹ فنڈ ٹرسٹ‘‘ کو حاصل ہوا ہے جو 17 فروری کو کراچی، حیدرآباد کے علاوہ سندھ کے دیگر شہروں سے صحافیوں، تعلیمی ماہرین، طلباء، آرکیالوجی کے پروفیسرز کو گاڑیوں میں سوار کرکے رنی کوٹ کا قلعہ دکھانے کے لئے لایا ، ان خوش نصیبوں میں، میں بھی شامل تھا۔ یہ دیکھ کر بہت افسوس ہوا کہ یہاں سیاحوں کے لئے سہولتیں فراہم نہیں کی گئیں اور اس کے بارے میں سندھ ، ملک بھر میں اور عالمی طور پر تشہیر کیوں نہیں کی گئی۔ ہمارے ٹی وی چینلز کا بھی تو فرض ہے کہ وہ ملک کے ایسے تاریخی مقام کی تشہیر کرتے،بہرحال انڈومینٹ فنڈ ٹرسٹ جو 2008 ء میں قائم کیا گیا اس نے رنی کوٹ کے تاریخی قلعے کو اہمیت دی،اس عرصے کے دوران قلعے کی مرمت شروع کی گئی ۔ سیاحوں اور مرمت کے کام کا جائزہ لینے کے لئے آنے والے افسران کے لئے ایک دو دن کی رہائش اور کھانے پینے کا کسی حد تک انتظام بھی کیا گیا ہے۔بہرحال رنی کوٹ کے کچھ حصوں کو دیکھنے کے بعد اس بات سے اتفاق کرنا پڑا کہ واقعی رنی کوٹ منی دیوار چین ہے جبکہ اسے Great wall of sindh ’’سندھ کی بلند ترین دیوار‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔ یہاں آکر یہ احساس اور بڑھ گیا کہ کیا اس ریجن میں سندھ کی ثقافت کا کوئی Match ہے؟ یہ بھی عجیب اتفاق ہے کہ چھوٹے پیمانے پر ہی صحیح، اس عظیم تاریخی مقام کا پہلی بار Exposure کا جو اہتمام کیا گیا ہے وہ ایسے وقت پر کیا گیا جب سندھ صوفی تحریک کے ذریعے ایک ایسے ثقافتی انقلاب کو اپنے کندھوں پر سوار کرکے اپنی تاریخی بلندیوں کی طرف پرواز کرنے لگا ہے، اس قلعے کے وسیع حصوں کا معائنہ کرنے کے بعد جب انڈومینٹ فنڈ کے افسران سے میڈیا کی بات چیت ہوئی اور جب مجھ سے بھی رائے معلوم کی گئی تو میں نے اس مقام کی تعریف کرتے ہوئے اعتراف کیا کہ یہ سب کچھ دیکھنے کے بعد ذہن میں سوالات پیدا ہوتے ہیں کہ اتنے بلند پہاڑوں پر اتنے بڑے فاصلے پر اتنی بلند اور موٹی دیوار قائم کرنے کا کارنامہ کس نےانجام دیا،اتنے فاصلے پر اتنی بلند و بالا دیوار قائم کرنے کی ضرورت کیوں پیش آئی،یہ دیوار کب تعمیر کی گئی؟ اس وقت ان سوالات میں سے کسی بھی سوال کا جواب نہیں، کیا یہ حکومت پاکستان اور حکومت سندھ کی ذمہ داری نہیں ہے کہ بتائیں کہ ان بلند و بالا پہاڑیوں پر اتنی بلند و بالا دیوار کس نے تعمیر کرائی اور کیوں کرائی؟ اگر رنی کوٹ کے بارے میں ان سوالات کے جواب تلاش کرنے کے لئے دنیا بھر سے آرکیالوجی کے ماہرین کو مدعو کیا جائے، تاریخ دانوں اور جغرافیہ دانوں کو مدعو کیا جائے ۔انہیں یہاں مطلوبہ تحقیق کرنے کے لئے ضروری سہولتیں فراہم کی جائیں ، دنیا کے مختلف ملکوں کے ٹی وی چینلز پر اس تاریخی مقام پر بنائی گئی ڈاکیو منٹری ٹیلی کاسٹ کی جائیں تو میرا دعویٰ ہے کہ یہاں ہر وقت دنیا بھر سے آئے ہوئے سیاحوں اور قدیم آثاروں کے ماہرین کے میلے لگے ہوئے نظر آئیں گے۔ انڈومینٹ فنڈ ٹرسٹ (آئی ایف ٹی) کے افسران کی طرف سے رنی کوٹ کے قلعے کے بارے میں جو بریفنگ دی گئی وہ اہم ہے ۔اس بریفنگ کے مطابق رنی کوٹ جسے ’’گریٹ وال آف سندھ‘‘ کہا جاتا ہے جس کا شمار دنیا کے بلند ترین اور وسیع ترین تاریخی قلعوں میں ہوتا ہے، دادو ضلع، سندھ کے مشہور پہاڑی سلسلے ’’کھیر تھر‘‘ ریجن میں ایک بلند ترین پہاڑی چوٹی پر واقع ہے، اس کی بلندی مختلف مقامات پر 500 سے 1500 فٹ تک ہے، رنی کوٹ کے قلعے کو دنیا کے وسیع ترین فوجی قلعوں میں شمار کیا جاسکتا ہے، رنی کوٹ کے قلعے کا بیرونی دائرہ 32.15 کلو میٹر وسیع ہے جوانسانوں نے تعمیر کی ہے، بلند ترین اور انتہائی موٹی دیواریں تعمیر کی گئی ہیں،قلعے کی دیواریں پتھر اور Lime Mortar سے بنائی گئی ہیں، ان غیر مثالی دیواروں کی لمبائی 7.25 کلو میٹر ہے، قلعہ میں داخل ہونے کے پانچ دروازے ہیں، مشرقی دیوار کا گیٹ ’’سن گیٹ‘‘ شمال کی طرف ’’آمری گیٹ‘‘ مغربی دیوار میں ’’موہن گیٹ‘‘ جنوبی دیوار میں ’’شاہیر گیٹ‘‘ اور جنوب مشرقی دیوار میں ’’ٹوری ڈھورو گیٹ‘‘ ہے جبکہ دیوار کے کچھ حصوں میں شگاف بھی پائے جاتے ہیں جن میں سے بارش کا پانی قلعے میں داخل ہوجاتا ہے، رنی کوٹ میں دو اور چھوٹے قلعے بھی ہیں جن کے نام ہیں میری کوٹ اور شیر گرہ، ان میں سے ہر قلعے میں پانچ برج ہیں۔ بعد میں (آئی ایف ٹی) کی رپورٹ کے ممبر اشتیاق انصاری نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے تجویز دی کہ سندھ کے قلعوں اور کوٹوں کا تحفظ یقینی بنانے کے لئے ایک اتھارٹی قائم کی جائے۔ انہوں نے زور دے کر کہا کہ اگر ہم نے اپنے ان اثاثوں کا تحفظ نہ کیا تو یہ سارے قلعے اور کوٹ، مٹی کے ڈھیر میں تبدیل ہوجائیں گے، اس مرحلے پر سندھ کے مختلف مقامات پر جو قلعے اور کوٹ واقع ہیں، کی ایک مختصر فہرست بھی پیش کی گئی ان کے نام یہ ہیں۔ حیدرآباد کا پکا قلعہ، سہون کا قلعہ، کراچی کا کوٹ، منوڑہ کا کوٹ، رنی کوٹ، کلان کوٹ، دھلیل کوٹ، عمر کوٹ، نند کوٹ، رانو کوٹ، کھیر تھیر کوٹ، کوٹ ڈیجی، حیدرآباد کاکچا قلعہ، ملانی کوٹ، لاہاری بندر اور انڑ کوٹ شامل ہیں۔ اس موقع پر آئی ایف ٹی کے افسران نے بتایا کہ اس سیزن میں تقریباً 65 ہزار سیاح رنی کوٹ کی بلند و بالا دیواریں دیکھنے کے لئے آئے۔ یہ بڑی بات ہے کہ ٹوٹے پھوٹے اور خطرناک راستوں کے باوجود بیرونی سیاح اتنی تعداد میں رنی کوٹ دیکھنے کے لئے آئے، ہماری موجودگی میں ہی بیرونی سیاحوں کی 5 ٹیمیں وہاں پہنچیں ان لوگوں نے بھی اس دن رنی کوٹ کا معائنہ کیا ان سب کی متفقہ رائے تھی کہ اگر اچھی اور محفوظ سڑکیںتعمیر کی جائیں اور سند ھ کی اس عظیم دیوار کی تعمیر کا کام کافی حد تک مکمل ہوجائے تو شاید روزانہ سینکڑوں کی تعداد میں ملکی اور غیر ملکی سیاح ہر وقت وہاں موجود ہونگے، بیرونی سیاحوں کی طرف سے یہ سب کچھ دیکھنے کے بعد بیرونی دنیا کی سندھ (پاکستان) کے بارے میں رائے ہوگی کہ اس علاقے کی تہذیب اور ثقافت بہت عظیم ہے۔

تازہ ترین