• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

احتساب اور سزا کا خوف جاتا رہے تو سماج کے تار و پود بکھر کر رہ جاتے ہیں۔ طاقتور کمزور سے اس کا حق ہی نہیں چھینتا اسے دبانے میں بھی کوئی کسر اٹھا نہیں رکھتا۔ اخلاقی و معاشرتی جرائم کو مہمیز ملتی ہے۔ سماج کو انہی قباحتوں سے بچانے کے لئے قوانین وضٗع کئے جاتے ہیں تاکہ کوئی بھی فرد کسی دوسرے کے لئے باعث آزار نہ بن سکے اور بدعنوانی سے قبل اس کے ذہن میں قانون کی پکڑ کا خوف ہو۔ عربی زبان کی کہاوت ہے کہ مچھلی ہمیشہ سر کی جانب سے خراب ہونا شروع ہوتی ہے اور پھر بتدریج اس کا سارا وجود گل سڑ جاتا ہے۔ معاشروں کا بھی یہی حال ہوتا ہے، معاشرے کے عام افراد ہمیشہ مراعات یافتہ طبقے یعنی حاکموں کی اتباع کرتے ہیں آج ہم پورے سماج میں کرپشن کے زہر کے سرایت کر جانے کا رونا روتے ہیں تو بلاشبہ اس کی بنیادی وجہ اس بے رحمانہ احتساب کا فقدان ہے جو معاشرے کے ہر فرد کو بدعنوانی سے روکتا ہے۔ وطن عزیز کا المیہ یہ رہا کہ اس کے قیام کے فوری بعد ہی ملک میں الاٹمنٹوں اور جعلی کلیموں کی صورت بدعنوانی شروع ہو گئی۔ جو پاناما لیکس پر آن ٹھہری ہے اور ابھی بہت سے لوگوں کا آشکار ہونا باقی ہے۔ احتساب کے حوالے سے نیب کے دائرہ کار پر بھی بہت سے سوال اٹھتے رہے بلکہ طعنے دیئے جاتے رہے کہ احتساب صرف ہمارا ہی ہو رہا ہے کوئی جنرل (ر) مشرف پر کیوں نہیں ہاتھ ڈالتا۔ اس پر چند روز قبل اسلام آباد ہائیکورٹ کے ڈویژن بنچ نے ابہام دور کرتے ہوئے اپنے فیصلے میں کہا کہ افواج پاکستان کے سابق افسران سمیت بے قاعدگیوں میں ملوث تمام لوگوں کا احتساب نیب کے فرائض منصبی میں شامل ہے۔ دریں صورت پاکستان میں احتساب کے قومی ادارے نیب کی جانب سے ایک ایسے وقت میں تین سابق جرنیلوں کے خلاف بدعنوانی کے برسوں پرانے کیسز کو دوبارہ کھولنے کا اعلان کیا گیا جس سے یہ تاثر زائل ہوا کہ نیب صرف سیاستدانوں کے خلاف کارروائیاں کر رہا ہے ۔ علاوہ ازیں یہ بات بھی سامنے آ رہی ہے کہ پاناما لیکس میں صرف نواز شریف اور ان کے اہل خانہ کے خلاف ہی کارروائی کی گئی، اس حوالے سے اطلاعات ہیں کہ پاناما لیکس میں شامل تمام افراد کے احتساب کا سلسلہ بھی جلد شروع ہونے والا ہے یوں کوئی بھی یہ نہ کہہ پائے گا کہ فلاں سے درگزر کرتے ہوئے محض اسے ہی نشانہ بنایا گیا، خواہ اس کا تعلق کسی بھی شعبے سے ہو اور وہ بزعم خود کتنا ہی طاقتور کیوں نہ ہو۔ پاناما کے علاوہ بھی بہت سے معاملات ہیں انہیں بھی چھان بین کے مراحل سے گزارنا ضروری ہے۔ پاکستان کی مجموعی صورتحال میں بلاشبہ یہ کریڈٹ عدلیہ اور اس کے ذیلی اداروں اور نیب کو جاتا ہے کہ اس نے کسی بھی دبائو کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے اقدامات کئے جس کی گواہی ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی حالیہ رپورٹ سے ملتی ہے کہ پاکستان میں کرپشن کے خلاف اقدامات میں بہتری آئی ہے مگر رفتار سست ہے۔ کرپشن پرسیپشنز انڈیکس (سی پی آئی) کے تازہ ترین اعداد و شمار میں پاکستان کو 180ممالک میں 117ویں درجے پر رکھا گیا ہے۔ 2017ءکی اس رپورٹ میں انتہائی کرپٹ 100ممالک کی فہرست میں پاکستان کو 32ویں نمبر پر رکھا گیا ہے۔ 2013ء کے بعد مسلم لیگ کی حکومت کے دوران اس میں پانچ درجے بہتری آئی ہے۔ ٹرانسپیرنسی کی رپورٹ خوش کن سہی کہ بہتری کا اشارہ ہے لیکن یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ ابھی بہت سا کام باقی ہے۔ چیئرمین نیب کا عزم صمیم لائق ستائش ہے لیکن یہ احتیاط ناگزیر ہے کہ جو بھی اقدام کیا جائے اس پر ماورائے آئین و قانون کی تہمت نہ دھری جا سکے۔ شفافیت بہرطور لازم ہے کہ کسی کو محض شک کی بنیاد پر بھی دھر لیا جائے تو یہ بدنامی عمر بھر اس کا ساتھ نہیں چھوڑتی۔ ملک کے ہر شعبہ زندگی کو کرپشن کے خاتمے میں اپنا مثبت کردار ادا کرنا ہو گا تاکہ پاکستان ترقی و خوشحالی کی منزل پا سکے۔ نیب کو البتہ اس حوالے سے اپنا کام انتہائی حزم و احتیاط سے کرنا ہو گا۔ کسی کو بھی ٹھوس شواہد کے بغیر طلب نہ کیا جائے کہ یہ اداروں کا معاملہ ہے اور اس سے بے چینی پھیلنے کا اندیشہ ہے۔

تازہ ترین