• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بھارت جس رفتار سے مقبوضہ کشمیر میں یکے بعد دیگرے ڈیم بناکر پاکستان کو دریائی پانی سے محروم کرنے کے اقدامات کررہا ہے، اسے روکنے کی سنجیدہ تدابیر ضروری ہیں۔ عالمی قوانین کسی ملک کو اجازت نہیں دیتے کہ وہ دریائوں کا دوسرے ملک کی طرف بہائو کم کرنے یا اس کا رخ موڑنے کی کوشش کرے جبکہ نئی دہلی اور اسلام آباد کے درمیان تو سندھ طاس کا معاہدہ بھی موجود ہے جس کی بھارت کی جانب سے برسوں سے خلاف ورزیوں کا سلسلہ وطن عزیز میں پانی کی قلت کا سبب بن رہا ہے۔ پاکستان ہائی کمشنر نے پچھلے مہینے بھارتی وزیر برائے پانی کو لکھے گئے خط میں نئی دہلی کے چھ ایسے بڑے پروجیکٹس کی نشاندہی کی ہے جن کے ذریعے بجلی پیدا کرنے کے بہانے پاکستان کا پانی روکا جائے گا۔ بھارتی حکومت نے مذکورہ منصوبوں کی تعمیر کے لئے فنڈز بھی جاری کر دیئے ہیں۔ سال 2011ء سے ابتدائی طور پر تعمیر ہونے والے منصوبوں میں پکل دل، کوار اور کیرو شامل ہیں جنہیں 2023ء تک مکمل کرلیا جائیگا۔ اس کے ساتھ ہی مقبوضہ کشمیر کی حکومت سے کہا گیا ہے کہ وہ باقی ماندہ متعدد پروجیکٹس کیلئے فنڈز مہیا کرے۔ یہ ایسی منصوبہ بندی ہے جس سے دریائے سندھ کو خشک کرنے کے مذموم عزائم کا اظہار ہوتا ہے جبکہ پاکستان کے ذخائر میں پانی کی کمیابی پہلے ہی خطرے کے نشان کو چھوتی محسوس ہورہی ہے۔ منگلا ڈیم میں پانی ڈیڈ لیول تک جا پہنچا ہے جس کے پیش نظر ارسا کا ہنگامی اجلاس طلب کرکے چشمہ جہلم لنک کینال فوری طور پر کھولنے اور تریمو اور سدھنائی بیراج بچانے کیلئے چار ہزار کیوسک پانی دینے کا فیصلہ اکثریتی ووٹوں سے کیا گیا۔ صورتحال اس بات کی متقاضی ہے کہ ایک طرف وطن عزیز میں پانی کی ایک ایک بوند احتیاط سے استعمال کرنے کی موثر منصوبہ بندی کی جائے تو دوسری جانب بھارت سے دوطرفہ بات چیت اور بین الاقوامی اداروں سے رجوع کرنے سمیت ہر آپشن استعمال کیا جائے۔ پانی بقائے حیات کی بنیادی ضرورت ہے، اس باب میں کوئی بھی غفلت موجودہ تشویشناک صورتحال کی سنگینی میں مزید اضافہ کرسکتی ہے۔

تازہ ترین