• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

دور ایوب خان کا، شخصیت شورش کاشمیری کی، ان دنوں شورش کا ہر لفظ بغاوت کی سان پہ چڑھا، لہجہ طنطنے کا ہمالہ، آنکھوں میں استحصالی لوگوں کے خلاف جہاد کی شعلہ فشاں کیفیت، حضرت شورش کاشمیری کے صاحبزادے، عزیز از جان مشہود شورش نے اپنی روایتی سعادت مندی کی شیرینی سے بھرے اسلوب میں بتایا ’’بھائی جان! یہ ایوب عہد ہی کا واقعہ ہے جب ابی کو ایوب انتظامیہ کے ساتھ اپنے مزاحمتی کردار کی برقراری کے لئے جان لیوا قسم کی آنکھ مچولی سے گزرنا پڑا، وہ گرفتاری سے بچتے بچاتے عاصمہ جہانگیر کے والد گرامی، آزاد منش سیاستدان ملک غلام جیلانی اور عاصمہ کی موجودہ رہائش گاہ میں پناہ گزیں ہوگئے، بدبخت مخبروں کی عمریں اکثر دراز ہوتی ہیں، ایسے ہی کسی نے مخبری کردی، حضرت نے ہاتھ نہ آنے کی جرات رندانہ کا اعلان کردیا، سوال پیدا ہوا، کوٹھی کے چاروں جانب تو پنجاب پولیس کا گھیرا ہے، کیا کیا جائے، ان دنوں کی برخورداری عاصمہ نے کہا ’’انکل میں کہتی ہوں، آپ میرے کندھوں پر پائوں رکھ کر کوٹھی کی پچھلی دیوار پھاند جائیں، عاصمہ نے ایسا ہی کیا، شورش ایک بار پھر ایوب انتظامیہ کے خلاف چلتا پھرتا باغیانہ کردار ادا کرنے کو تیار ہوگئے، حالات نے ذرا سانس لیا، تب شورش کے قلم سے اس ’’برخورداری عاصمہ‘‘ کے لئے ایک نظم کی آمد ہوئی جسے آج ہم عاصمہ جہانگیر کہتے ہیں، کسی کے ان کے سلسلے میں متعین بیانیہ کے مطابق۔ ’’محاورہ ہے کہ قبرستان ناگزیر افراد سے بھرے پڑے ہیں‘ لیکن عاصمہ جہانگیر جیسے افراد کو استثنیٰ حاصل ہے۔ آپ ان سے نفرت کریں یا محبت لیکن آپ ان سے لاتعلق نہیں رہ سکتے۔ عاصمہ جی کی نماز جنازہ نے پاکستانی اجتماعیت کو زندہ کردیا۔ ان کی وفات پر سوگ منانے والے، ان کی زندگی کو داد و تحسین پیش کرنے والے اور ان کی روشن کردہ شمع لے کر آگے بڑھنے والے سب انسان وہاں جمع تھے‘‘، اب آپ حضرت شورش کاشمیری یعنی نابغہ عصر، شہنشاہ قلم و قرطاس، لفظ و معنی کے دریا ئے رواں اور برصغیر میں صحافت ادب اور سیاست کی نیرنگی دوراں کے قافلہ سالار کا عاصمہ جہانگیر کے لئے خراج تحسین کے ’’شورش گلدستہ‘‘ کی خوشبو سے معطر ہوں، ہاتھ اٹھا کر انسانیت کی خدمت گزار عاصمہ کے لئے دعائے مغفرت و رحمت میں مصروف ہو جائیں، شورش اپنی ’’بیٹی عاصمہ‘‘ سے مخاطب ہو کے بولے؎
بنت جیلانی پہ ہو لطف خدائے ذوالجلال
مائیں ایسی بیٹیاں جنتی ہیں لیکن خال خال
رات دن میری دعا ہے بارگاہ قدس میں
جس کے گھر بیٹی ہو، وہ بیٹی ہو ایسی خوش خصال
خطہ پنجاب سے مایوس ہوں لیکن ابھی
آ نہیں سکتا مسلمانوں کو اے شورش! زوال
ایک اسماء غیرت پنجاب کی للکار ہے
خوش نہاد و خوش سرشت و خوش دماغ و خوش خیال
ایک تتلی جس میں شیروں کے تہور کی جھلک
ایک کونپل جس کی آب و تاب میں سحر و جلال
ایسی چنگاری ابھی تک اپنی خاکستر میں ہے
تیز رو، شمشیر براں، بے نظیر و باکمال
دبلی پتلی ایک لڑکی شبنمی انداز کی
ہیچ اس کے روبرو لیکن پہاڑوں کا جلال
اپنی امی کی جگرداری کا نقش دل پذیر
اپنے ابا کے سیاسی ولولوں سے مالا مال
وہ کسی افتاد بے ہنگام سے ڈرتی نہیں
آ کے ڈٹ جائے سر میداں تو پھر رکنا محال
یہ تھیں ہمارے پاکستان کی ہماری محترمہ و مکرمہ عاصمہ جہانگیر ۔
سوشل میڈیا پر ان دنوں پرانے ’’پہاڑی سائز پگڑبردار‘‘ بابوں میں سے ایک بابے کی ’’مکالمہ نما شاعری‘‘ وائرل ہوئی ہوئی ہے، آپ کا اس سے محروم رہنا یقیناً کوئی منافع کا سودا نہیں ہوگا، چنانچہ آپ کو اس خسارےسے محفوظ رکھنے کی خاطر یہ ’’مکالمہ نما شاعری‘‘ آپ کی خدمت میں پیش کی جارہی ہے، بابا ارشاد فرماتا یا ارشاد فرما رہے ہیں؎
تیرا ایمان سلامت رہے
تیرا سہاگ سلامت رہے
تیرا بچہ نیک ہووے
ادب خدمت کرن والا ہووے
دودھ چوری ونڈن والا ہووے
تے وڈا افسر بن جاوے، وڈا پرنسپل ہو جائے
جنرل، کرنل، میجر، بریگیڈیئر، ڈاکٹر،
انجینئر، اکائونٹینٹ ،آرکیٹکٹ،اسٹیٹ بینک دا گورنر،
یونیورسٹی دا چانسلر، وائس چانسلر، چیف مارشل،
فیلڈ مارشل ہووے، کیمیادان بن جائے
پنج کلو سونا بنا وے روز دا
حافظ، قاری، عالم، فاضل، مفتی، متقی ہو جے
آپ کا بیٹا امام بن جائے
ٹیکنوکریٹ، بیوروکریٹ، گریجویٹ، میٹکولیٹ،
ایڈووکیٹ، اپ ٹو ڈیٹ، نہ ہو وے لیٹ
بن جا وے وڈا سیٹھ
نہ بنے سیاسی ڈکیت
سیاسی ڈکیتیاں ملک لٹ لٹ کھا لیا
آپ وی منگن جاندے، سانوں وی منگن تے لا لیا
او ذرا ڈیجیٹل طریقے نال منگدے آں
اساں مینوئل طریقے دے نال منگدے آں
فقیر منگدا، وزیر منگدا، سفیر منگدا، وکیل منگدا،
ساڈا وزیراعظم وی منگدا، کہندا ڈنوشن دو
سب منگدے ای آں، پنڈ دا نمبردار وی منگدا
ون ٹو آل بیگرز
ڈاکٹر وی منگدے
دو ہزار دی بوتل مگاندے، ہزار آلی بروندے
ٹیکا پا کے رنگ وٹوندے
مریض پچھا، اے کی کیتا اے
کہندا طاقت دا ٹیکا پایا اے
ایداں ای رل مل کے رولا پائی دا
تے چوراں دی دنیا، چوراں دی رات،
چوراںدی بارات، چوراں دی سوغات
کوئی دل دا چور
کوئی چوری کردا دو آنے دی
کوئی چوری کردا خزانے دی
کوئی علم دا چور، کوئی دل دا چور

تازہ ترین