• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کانوں سے اتر کر دلوں میں بس جانے والی آواز کے جادو گر : طلعت محمود

’اے میرے دل کہیں اور چل ۔۔غم کی دنیا سے دل بھر گیا ۔۔‘ درد کی لے میں ڈوبے ہوئے اس گیت کو اپنی آواز دینے والے طلعت محمود واقعی اب اس دنیا میں نہیں رہے مگر انگنت موسیقی کے متوالوں کے دلوں میں بستے ہیں۔

طلعت محمود کو گلوکاری کا شوق بچپن سے ہی تھا۔ وہ کہیں بھی ہوں اکثر کچھ نہ کچھ گنگناتے رہتے تھے اور جب طلعت نے گھر والوں سے یہ کہا کہ ’میں گلوکار بننا چاہتا ہوں تو ان کے والدین نے اس بات کی کافی مخالفت کی اور انہیں گلوکاری چھوڑنے پرزوردینا شروع کردیا لیکن طلعت کو موسیقی سے بہت لگا ئو تھا ،وہ کسی اور جانب جانا ہی نہیں چاہتے تھے۔

محض 16سال کی عمر میں طلعت نے لکھنؤ ریڈیو سے اپنے کریئر کا آغاز کیااور ریڈیو پر ہی کئی غزلیں گائیں۔

انہی دنوں لندن کی موسیقی کی ایک کمپنی ’ایچ ایم وی‘ کے کچھ ارکان جو بھارت آئے ہوئے تھے جب انہوں نے ریڈیو پر طلعت کی آواز سنی تو ان کے دیوانے ہوگئےاور 1941ء میں طلعت کو میوزک ڈسک آفر کردی ۔ اس ڈسک کے کئی گانے راتوں رات طلعت محمود کی شہرت کا سبب بنے۔

سن 1944 ءمیں ان کے ایک غیر فلمی گیت’’ تصویر تیری دل میرا بہلا نہ سکے گی ‘‘سے ان کی شہرت پوری دنیا میں پھیل گئی اور اسی گانے نے طلعت کے کامیاب سفر کا آغاز ہوا۔

طلعت محمود کی گلوکاری تو حسین تھی ہی لیکن وہ دیکھنے میں بھی کافی خوبصورت تھے اسی لیے کئی ڈائریکٹر نے انہیں فلمیں آفر کیں اور انہوں نے 16 فلموں میں کام بھی کیا ۔

لیکن طلعت چونکہ گلوکاری سے محبت کرتے تھے اسی لیے انہوں نے موسیقی زیادہ کی ۔1950ءمیں بلاآخر طلعت کو بالی ووڈ میں گانے کا موقع مل گیا۔ انہوں نے دلیپ کمار کی فلم '’آرزو‘میں ’اے دل مجھے ایسی جگہ لے چل۔۔‘ گایا جس نےطلعت کے لیے شہرت کے تمام دروازے کھول دیئے۔

طلعت نے 8 سو سے زائد فلمی گیت گائے جن میں’ جلتے ہیں جس کے لئے ‘،’ اے غمِ دل کیا کروں‘ ،’ پھر وہی شام‘ ،’ پیار پر بس تو نہیں‘ اور’ میرا پیار مجھے لوٹا دو‘ جیسے سپر ہٹ گانے دئیے جنہیں سن کر لوگ آج بھی نہیں بھولے ۔

اپنی فلمی زندگی میں طلعت محمود نے سب سے زیادہ گانے دلیپ کمار کی فلموں کے لیے ہی گائے۔جیسے’ شامِ غم کی قسم‘ یا’ حسن والوں کو‘ اور ’یہ ہوا ،یہ رات، یہ چاندنی‘ وغیرہ قابل ذکر ہیں۔

طلعت محمود نے زیادہ تر دکھ بھرے گانے گائے اسی لیے انھیں'دکھ دردکا ترجمان‘ کہا جاتا تھا۔

طلعت بہت کم گو انسان تھے۔ ایک انٹرویو میں دلیپ کمار کا ان کے بارے میں کہنا تھا کہ طلعت دل کا بہت سادہ بندہ تھا اتنی شہرت کے باوجود اس کے اندر کوئی غرور نہیں تھا و ہ ہر انسان کی عزت کرتا تھا۔

سن1951 ءمیں طلعت نے اپنی ہی ایک مداح جو بنگالی تھیں اور طلعت کو کافی پسند کرتی تھیں،ان سے شادی کرلی تھی جنہوں نے شادی کے بعد اپنا نام نسرین رکھ لیا۔ طلعت کے ان سے دو بچے ہوئے۔

انہیں فلم فیئر ایوارڈ بھی ملا اورپدما بھوشن ایوارڈ سے بھی نوازا گیا۔9 مئی 1998 کو ممبئی میں طلعت محمود کا انتقال ہوا تاہم آج بھی ان کے نغمے دلوں میں ایک خاص کیفیت طاری کردیتے ہیں۔

تازہ ترین