• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سابق وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف کیا اب سیاست میں رہ سکیں گے یا نہیں ؟ یہ آج کا بہت اہم سوال ہے ۔ بظاہر یوں محسوس ہو رہا ہے کہ میاں محمد نواز شریف پر سیاست کے دروازے بند ہو رہے ہیں ۔ سپریم کورٹ آف پاکستان نے 28 جولائی 2017 ء کو پاناما کیس میں انہیں وزارت عظمی سے ہٹا دیا تھا اور کسی سرکاری عہدے کے لئے نااہل قرار دے دیا تھا ۔ 21 فروری 2018 ء کو سپریم کورٹ نے انہیں اپنی پارٹی کی صدارت سے بھی ہٹا دیا اور کسی بھی سیاسی عہدے کے لئے نااہل قرار دے دیا ۔ اب ایک کیس کا فیصلہ ہونا باقی ہے کہ نااہلی کی مدت کیا ہونی چاہئے ۔ اس کیس کے فیصلے پر منحصر ہو گا کہ میاں محمد نواز شریف جلد یا بدیر سیاست میں واپس آسکتے ہیں یا نہیں ۔
جدید تاریخ کے مختلف واقعات سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ اگر سیاست دان تاریخ اور اپنے عہد کے معروضی حالات کا گہرا ادراک رکھتا ہو اور اس ادراک کے ساتھ فیصلے کر سکتا ہو تو اسے سیاست سے باہر نہیں کیا جا سکتا جبکہ اپنے غلط فیصلوں سے کچھ سیاست دان از خود ہی سیاست سے باہر ہو گئے ۔ 20 ویں صدی اور 21 ویں صدی کے ان دو عشروں میں بے شمار ایسی مثالیں مل سکتی ہیں ۔ سرد جنگ کے عروج کے زمانے میں خصوصاً 1950 سے 1980 ء کے چار عشروں کے دوران ایشیا ، افریقا اور لاطینی امریکہ کو اس وقت کے مقبول سیاست دانوں کے قبرستانوں میں تبدیل کر دیا گیا لیکن جسمانی طور پر ختم کرنے کے باوجود ان سیاست دانوں کو سیاست سے باہر نہیں کیا جاسکا ۔ آج بھی ان کے سیاسی خانوادے (راجونش) (ynastie ) ہی ان ملکوں کی سیاست کا محور ہیں ۔ ان میں پاکستان کے ذوالفقار علی بھٹو بھی شامل ہیں ۔ کئی سیاست دان ایسے تھے ، جنہیں سیاست سے باہر کرنے کی کوشش کی گئی لیکن وہ پھر سیاست میں آگئے ۔ ان میں پاکستان کی سابق وزیر اعظم محترمہ بے نظیر بھٹو اور خود میاں محمد نواز شریف کی مثال دی جا سکتی ہے ۔ جنرل ضیا الحق کے دور میں پارلیمنٹ سے جو قانون سازی کرائی گئی ، اس کا بنیادی ہدف یہ تھا کہ محترمہ بے نظیر بھٹو کو کسی طرح سیاست سے باہر رکھا جائے ۔ اسی طرح جنرل پرویز مشرف کے دور میں جو قانون سازی کی گئی ، اس کے ذریعے میاں محمد نواز شریف اور محترمہ بے نظیر بھٹو کو سیاست سے دور رکھنے کی کوشش کی گئی ۔ دونوں رہنماؤں نے جبری جلا وطنی بھی اختیار کی اور مقدمات میں انہیں سزائیں بھی ہوئیں لیکن دونوں رہنما واپس سیاست میں آگئے ۔ حالیہ تاریخ میں کئی سیاست دان ایسے ہیں ، جنہیں سیاست سے باہر کیا گیا تو وہ واپس نہ آسکے ۔ ان میں حسین شہید سہروردی جیسے جید سیاست دان بھی شامل تھے ۔
اصل بات یہ ہوتی ہے کہ سیاست دان ایسے حالات میں کیا فیصلے کرتے ہیں ،جب انہیں سیاست سے باہر کرنے یا ہونے کے خطرات محسوس ہو رہے ہوں ۔ سرد جنگ کے زمانے میں سیاست دانوں کو ہٹانے کا طریقہ زیادہ تر یہی ہوتا تھا کہ کوئی فوجی اقتدار پر قبضہ کر لیتا تھا ۔ سرد جنگ کے بعد امریکی نیو ورلڈ آرڈر کے زمانے میں افراتفری ، انتشار اور دہشت گردی کی وجہ سے کچھ سیاست دان اور سیاسی جماعتیں طبعی یا سیاسی طور پر ختم ہو گئیں لیکن اس عہد میں بھی کچھ سیاسی جماعتوں نے اپنا وجود اور سیاست دانوں نے اپنا کردار برقرار رکھا ۔ آج کل تیسری دنیا میں عدالتیں زیادہ سرگرم ہیں ۔ اس کا مطلب یہ ہرگز نہ لیا جائے کہ عدالتیں لازمی طور پر غیر سیاسی قوتوں کے ماضی کے ایجنڈے پر عمل پیرا ہیں یا ماضی میں سیاست دانوں کو حکومتوں اور سیاست سے ہٹانے کا ہر اقدام ناجائز تھا ۔ یہ بھی ضروری نہیں ہے کہ سیاست دان ہر حال میں حق پر ہو اور اس نے کوئی غلطی نہ کی ہو ۔ تیسری دنیا میں بری حکمرانی اور کرپشن کے بڑھتے ہوئے رحجانات کی وجہ سے عدالتوں کے لئے سرگرمی کا موقع پیدا ہوا ہے اور اس میں سیاست دان بری الذمہ نہیں ہو سکتے ۔ ہم صرف یہ بات کر رہے ہیں کہ سیاست دان اگر تاریخ اور اپنے عہد کے معروضی حالات کا ادراک رکھتا ہے اور سیاست سے دستبردار نہ ہونے کے عزم کے ساتھ کام کرتا ہے تو وہ بہت طاقتور ہوتا ہے ۔ تاریخ سے یہی سبق ملتا ہے ۔
محترمہ بے نظیر بھٹو کو عدالت نے ایک کیس کے فیصلے میں سرکاری عہدے اور سیاست سے نااہل قرار دے دیا تھا۔ اس فیصلے کی وجہ سے ذوالفقار علی بھٹو کی پاکستان پیپلز پارٹی الیکشن لڑنے والی جماعت نہیں رہی ۔ اس کی جگہ الیکشن کمیشن میں پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹرینز کے نام سے ایک اور سیاسی جماعت الیکشن کمیشن میں رجسٹرڈ ہوئی ، جس کے سربراہ مخدوم امین فہیم تھے ۔ محترمہ بے نظیر بھٹو نے سیاسی تدبر کا مظاہرہ کیا اور اس کیس میں اپنی سزا اور نااہلی ختم کرائی۔ اسکے بعد بھی انہوں نے پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹرینز کے انتخابی نشان تیر سے الیکشن لڑا ۔ حالانکہ بھٹو کی پیپلز پارٹی کا انتخابی نشان تلوار تھا ۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کے خلاف میاں محمد نواز شریف کے سابقہ دور میں بنائے گئے مقدمات کو پرویز مشرف کی حکومت نے پوری شدت کے ساتھ چلایا اور محترمہ بے نظیر بھٹو کے خلاف ثبوت حاصل کرنے کیلئے پوری ریاستی مشینری لگادی۔ محترمہ بے نظیر بھٹو ان مقدمات کو قانونی طور پر لڑتی رہیں اور انہوں نے تدبر اور صبر کا مظاہرہ کیا ۔ انہیں مقدمات میں آصف علی زرداری بھی جیل میں رہے ۔ پھر ایک وقت ایسا آیا کہ پرویز مشرف کو محترمہ بے نظیر بھٹو کی طرح این آر او ( قومی مفاہمتی آرڈی ننس ) کے تحت سیاسی معاملات طے کرنا پڑے ۔ لوگ چاہے کچھ بھی کہیں کہ محترمہ بے نظیر بھٹو اور ان کے شوہر نے این آر او کے ذریعے اپنے خلاف مقدمات ختم کرائے لیکن حقیقت یہ ہے کہ پرویز مشرف اس بات پر مجبور ہوئے کہ یہ مقدمات ختم کریں ۔ اس سے دنیا کو یہ پیغام گیا کہ یہ مقدمات سیاسی نوعیت کے تھے ۔ پرویز مشرف کی مجبوری سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ سیاست دان طاقتور ہوتے ہیں۔ شرط یہی ہے کہ وہ تاریخ اور اپنے عہد کے حالات کا ادراک اور سیاست میں رہنے کا مصمم ارادہ رکھتے ہوں ۔ بحث یہ نہیں ہے کہ سیاست دان اچھے ہوتے ہیں یا برے ۔ تاریخ کا رخ سیاست متعین کرتی ہے اور اس میں سیاست دانوں کا کردار بہت اہم ہوتا ہے ۔ میاں نواز شریف پہلے بھی ایک تجربے سے گزر چکے ہیں ۔ انہیں پہلے جو تکلیف ہوئی ، وہ اس وجہ سے نہیں ہوئی کہ پاکستان کی ہیئت مقتدرہ (اسٹیبلشمنٹ ) ان کی مخالف تھی ۔ ان کے لئے سیاست میں پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے بہت ہی سازگار حالات میسر رہے ۔ پہلے بھی ان کے اپنے ہی فیصلوں سے تکلیف ہوئی ۔ اب اگرچہ پہلے والے حالات نہیں ہیں لیکن ان کے سیاسی مستقبل کا انحصار ان کے آئندہ فیصلوں پر ہے ۔ بوجوہ ماضی سے حالات قدرے مختلف اور ناسازگار ہیں ۔ اسلئے انہیں زیادہ تدبر سے فیصلے کرنا ہوں گے ۔

تازہ ترین