• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

میاں نواز شریف نے جلسوں میں اپنے بعد مریم نواز کی تقریر کرانے کا حکم دیا مگر یار لوگوں کو بات سمجھ میں نہیں آئی پھر بھی میاں شہباز شریف کوپارٹی کاصدر بنانے کےلئے شور مچاتے رہے ۔پھر میاں نواز شریف نے اپنی جگہ گاڑی کی فرنٹ سیٹ پر مریم نواز کو بٹھادیامگر یار لوگوں نے اِس طرف بھی توجہ نہیں دی۔ ایسی باتیں بڑے لوگ زبان سے نہیں کیا کرتے ۔اپنے عمل سےدوسرے کے مقام و مرتبہ کا احساس دلاتے ہیں جو میاں نواز شریف نے بڑے بھرپور اندازمیں مسلم لیگ نون کی لیڈر شپ کو دلایاحتی کہ اپنے داماد سے بھی یہ کہلوا دیا کہ پارٹی کی صدارت کےلئے مریم نواز سے زیادہ اہل اور کوئی نہیں اورمیں انہی کو ووٹ دوں گا ۔اس اعلان سے یہ بھی پتہ چل گیا کہ پارٹی کا وہ اجلاس جس میں شہباز شریف کو صدر بنانے کا عندیہ دیا گیا ہے وہاں اُن کا مقابلہ مریم نواز سےہوگا اور فیصلہ ووٹ کریں گے۔یہ بھی کہا جارہا ہے مریم نواز کو صدر بنانے کا جو سب سے بڑا فائدہ پارٹی کوہو گا وہ یہ ہےکہ پارٹی کا نام اُسی طرح نون لیگ ہی رہے گاکیونکہ مریم نواز کے نام میں نواز کا نون بھی موجود ہے ۔شہباز شریف کے صدر بن جانے سے یہ پارٹی نون لیگ کی بجائے شین لیگ بن جائے گی ۔سو اس بات کا قوی امکان ہے کہ شہباز شریف پارٹی کے صدر نہیں بن سکیں گے ۔ان کے صدر بننے کی وجہ سے اور بھی بہت پیچیدگیاں پیدا ہو سکتی ہیں ۔پہلا مسئلہ تو یہ ہوگا کہ جب پارٹی کے صدر کی طرف سے اعلان کیا جائے کہ ہم عدلیہ اور اپنے اداروں کا مکمل طور پر احترام کرتے ہیں ۔ان کے خلاف اگر نون لیگ کے کسی کارکن نے کوئی بات کی تو اس کی ذمہ دار پارٹی نہیں ہوگی۔وہ اُس شخص کی ذاتی رائے ہوگی توپھر طلال ،دانیال اور نہال کہاں جائیں گے ۔ ایسے صدر کے ساتھ مریم نواز کتنی دیر چل سکیںگی ۔
بظاہر تومیاں محمد شہباز شریف کے صدر بنائے جانے کا اعلان ہو چکا ہے مگر ابھی تک مجھے یقین نہیں آ رہا ۔اگر انہیں صدر بنا نا تھا تو اسی وقت اجلاس بلا کر بنایا جا سکتا تھا تاریخ دینے کی کیا ضرورت تھی ۔ پہلے بھی تو میاں محمد شہباز شریف کو وزیر اعظم بنانے کا اعلان کیا گیا تھا اور چالیس دن کےلئے شاہد خاقان عباسی کو وزیر اعظم بنایاگیا تھاپھر وہ اعلان واپس لے لیا گیاکہ انہیں وزیر اعظم نہیں مسلم لیگ کا صدر بنا یا جار ہا ہےمگر دیکھنے میں آیا انہیں صدر بنانے کی بجائے یعقوب ناصر کو صدر بنا دیا گیا ۔نون لیگ والے اُس روز ایک دوسرے سے پوچھتے پھرتے تھے کہ یہ کون صاحب ہیں ۔اب پھر کہا جا رہا ہے کہ میاں محمد شہباز شریف کو صدر بنا رہے ہیں جس کی مخالفت کے بینر بھی لگنے شروع ہو گئے ہیں ۔پنجاب کے زراعت کے وزیر نعیم بھابھہ کے چھوٹے بھائی ندیم بھابھہ کی سوشل میڈیا پر چند لائنیں ابھی پڑھ رہا تھا آپ بھی پڑھ لیجئے ’’زرداری نے بیان دیا تھا کہ ہم نواز شریف کو ہرگز سینیٹ کا الیکشن نہیں جیتنے دیں گے ہم نے تب ہی مان لیا تھا کہ یہ جملہ محض لاہور کی سڑکوں پر گھسیٹنے والا جملہ نہیں ۔مسلم لیگ ن نواز شریف تک ہے شہباز شریف اچھے ایڈمنسٹریٹر ضرور ہیں تعمیرات کے ہنر سے لبریز ہیں ہٹلر کو پسند کرتے ہیں جرمن زبان جانتے ہیں لیکن عوام سے زیادہ بیوروکریٹس کے ہیں اور اپنے نمائندوں کو جاہل بھی سمجھتے ہیں ایسی شخصیت تمام لیڈرز کو ساتھ لے کر کیسے چلے گی اور خاص طور پر زوال کے دنوں میں ہماری سمجھ سے باہر ہے ۔‘‘
دوسری طرف پنجاب کے مختلف شہروں میں بینروں پر مریم نواز کی تصویروں پر کالک پھیری جارہی ہے اور حمزہ شہباز کے نعرے لکھے جارہے ہیں ۔خاص طور پر یہ واقعہ اُس شہر میں پیش آیا جہاں گزشتہ روز مریم نواز کی تاج پوشی کرائی گئی ہے ۔یعنی شہزادی اور شہزادے میں جنگ جاری ہے اورعملی طور پر نون دو حصوں میں تقسیم ہو چکی ہے ۔جب یہ سوال مریم نواز کے شوہر نامدار سے کیا گیا کہ اگر انہیں صدر بنا یاگیا تو چوہدری نثار علی پارٹی چھوڑ دیں گے تو وہ کہنے لگے ’’نہیں وہ بہت مہربان ہیں ۔جب میں کہوں گا تو وہ میری بات مان لیں گے ۔‘‘سب لوگ سمجھتے ہیں کیپٹن صفدر کا یہ یقین سو فیصد غلط ہے وہ کسی صورت میں مریم نواز کی صدارت میں کام کرنے پر تیار نہیں ۔دوسری طرف وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی بھی پریشان ہو کر میاں محمد شہباز شریف سے ملنے لاہور پہنچ گئے ۔انہیں تین طرح کے وہموں نے گھیر رکھا ہے ۔ایک وہم تو یہ ہے کہ جس وقت نواز شریف نےانہیں وزیر اعظم نامزد کیا تھا تو اس وقت وہ نااہل ہوچکے تھے۔اگر عدلیہ کا خیال اِس طرف چلا گیا تو ان کی وزیر اعظم شپ خطرے میں پڑ سکتی ہے ۔دوسرا وہم یہ ہے کہ اگر شہباز شریف پارٹی کے صدر بن گئے تو ممکن ہے وہ کسی روز بیٹھے بیٹھے وزیراعظم تبدیل کرنے کا فیصلہ سنا دیں کیونکہ شاہد خاقان عباسی جب وزیر اعظم بن رہے تھے تو حمزہ شریف ووٹ دینے کےلئے اسمبلی میں ہی نہیں گئے اور میاں شہباز شریف دن بھر مری میں موجود رہے مگر تقریبِ حلف وفاداری میں شریک نہیں ہوئے تھے ۔وزیر اعظم بھی سہیل وڑائچ کو انٹرویو دیتے ہوئے کہہ چکے ہیں شہباز شریف ایک صوبے کے لیڈر ہیں ان کی پہچان صرف پنجاب تک ہے ۔۔ تیسرا وہم انہیں مریم نواز کی طرف سے ہے ۔دراصل شاہد خاقان عباسی کو وزیر اعظم بنانے میں مریم نواز نے بہت اہم کردار ادا کیا تھا مگر وہ شایدمریم کی توقعات پر پورے نہیں اترے ۔تاثر ہے کہ مریم نواز کا خیال تھاکہ شاہد خاقان عباسی کے وزیر بننے کے بعد وہ وزیر اعظم ہائوس میں اس طرح مقیم رہیں گی جیسے نواز شریف کے دورِ اقتدار میں رہتی تھیں مگرایسا ممکن نہ ہو سکا۔اس کے علاوہ بھی بہت سی باتیں ایسی ہیں جنہیں وزیر اعظم نے ماننا ضروری نہیں سمجھا ۔پارٹی کے صدر میاں شہباز شریف بنیں یا مریم نواز ۔مسلم لیگ کی خاندانی تقسیم دیوار پر لکھی جاچکی ہے ۔

تازہ ترین