• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان میں مارشل لائوں کی کوکھ سے پیدا ہو کر، ان ہی کی گود میں پرورش پا کر عوامی بن جانے والی ہر دو سیاسی جماعتیں اور ان کی قیادتیں، ہفتوں میں ملک گیر اور قومی بن جانے والی وکلاء کی تحریک (2007-8) کے تاریخی نتیجے ’’عدلیہ بمطابق آئین و قانون کا قیام‘‘ سے پیدا ہونے والی ملکی صورتحال کا ادراک ہی نہ کر سکیں اور اگر کر سکیں تو پھر یہ اس قدر خود غرض ہیں کہ انہوں نے اپنے لامحدود ذاتی مفادات کیلئے ماورائے ملکی و قومی مفاد، خلاف آئین و قانون، ہر حالت میں اپنا دھندہ جاری رکھا اور رکھے ہوئے ہیں۔ گویا یہ اس قابل ہی نہیں کہ آئین و قانون کی پیروی میں پنپ سکیں۔ اب یہ ثابت ہو چکا کہ ’’آئین کا مکمل اور قانون کا یکساں نفاذ‘‘ ہی ان کی مکمل تحلیل اور پاکستان میں اقتصادی استحکام اور جمہوریت کی بقا اور ارتقاء کی ضمانت ہے۔ ثابت یوں ہوا کہ جیسے ہی وکلا تحریک کے نتیجے میں بمطابق آئین آزاد و غیر جانبدار عدلیہ کا قیام اور ساتھ ہی عشرہ بحالی جمہوریت (جو اب اختتام پذیر ہے) کا آغاز ہوا، پیپلز پارٹی اور ن لیگ تو اپنی تمام تر عوامی حیثیت اور مقبولیت کے باوجود زوال پذیر ہونا شروع ہو گئیں۔ دوسری جانب ہر دو کی بدترین روایتی حکمرانی میں عدلیہ کا کردار فعال ہوتا اور قومی امور میں بڑھتا گیا، جبکہ ہر دو کی حکومتوں میں پارلیمان کا مقام اپنے آئینی کردار کے حوالے سے پہلے سے بھی بدتر ہو گیا۔ تاریخی وجہ بہت واضح ہے کہ موجود اسٹیٹس کو تشکیل دینے والی دونوں جماعتیں حقیقی معنوں میں کوئی عوامی اور قومی مزاج کی سیاسی جماعتیں نہیں ہیں۔ ان کی پیدائش اور پرورش فوجی حکومتوں میں ہوئی اور عوامی یہ اپنے منفی اور ایک سے بڑھ کر ایک حربے سے خود بنیں، تبھی تو پارلیمان کا کردار دس سال سے مایوس نہیں بلکہ شرمناک ہے۔ اور یہ بھی اسٹیٹس کو کا گورکھ دھندہ ہی ہے کہ وہ عدلیہ کو اس کے تازہ جاندار آئینی کردار کے باوجود عدلیہ کے خلاف حربوں، دھندوں اور سیاسی ڈراموں سے سخت مزاحمت کر رہا ہے۔ ایسے میں اسٹیٹس کو کی طاقت ناجائز انتظامی اختیارات، سماجی پسماندگی اور بےپناہ ناجائز دولت کی ہی ہے اور عدلیہ کی، آئینی اختیارات یہ تو بحث طلب ہے ہی نہیں کہ ہر دو روایتی حکمران جماعتوں نے کس طرح فوجی آمریت کی کوکھ سے جنم لے کر اسی کی گود میں پرورش پائی؟ نئی نسل کو گمراہ کرنے کیلئے یہ سوال اٹھایا گیا یا اس پر کج بحثی کی گئی تو فقط ’’آئین نو‘‘ میں ہی لاجواب کر دیا جائے گا۔
اک طرف موجودہ گمبھیر سیاسی صورتحال میں اسٹیٹس کو کا گورکھ دھندہ مکمل لاپروائی سے جاری ہے۔ دوسری جانب پاکستان کو مستقبل قریب میں تابناک بنانے والے نووارد اور ظہور پذیر اٹل حقائق اسٹیٹس کو کی شدید مزاحمت کے باوجود تیزی سے اپنی جگہ بناتے جا رہے ہیں، اسی طرح ان کے اٹل (یعنی ریورس نہ ہونے) کا ثبوت مل رہا ہے۔ ’’نووارد اور ظہور پذیر اٹل حقائق‘‘ درج ذیل ہیں:
......* فوج، انتقامی امور میں اپنی روایتی مداخلت کے تاریخی اور تلخ روایتی نتائج، اپنے ایک سے بڑھ کر ایک نئے حساس کردار اور بدلتے حالات کے نئے حقائق کی روشنی میں نا صرف یہ کہ اپنی سوچ میں عدم مداخلت کی نئی سوچ کو پختہ کرتی جا رہی ہے بلکہ اب وہ ملک میں آئین و قانون کی بالادستی کیلئے پرعزم ہے۔
......*عدلیہ ثابت کر چکی کہ وہ آئین و قانون کی روشنی میں اپنے اختیارات کو استعمال کرتے ہوئے کسی سیاسی دبائو اور حربے کی پروا کئے بغیر بڑے سے بڑے فیصلے دینے کیلئے Empowered ہو چکی ہے اور ملک کے باشعور شہریوں میں خصوصاً اور عوام الناس، جس میں وسطی پنجاب کے علاوہ بھی ہر صوبے اور علاقے کے پاکستانی شامل ہیں میں با اعتبار بن چکی ہے۔
......*میڈیا ایٹ لارج، اپنے روایتی پیشہ ورانہ کردار سے آگے گورننس کی سخت مانیٹرنگ کرتے ہوئے تحقیقاتی رپورٹنگ کی طرف مائل ہے۔ نظر انداز پبلک افیئرز کی رپورٹنگ بھی میڈیا کے ایجنڈے میں اپنی جگہ بڑھا رہی ہے۔
......*احتساب جس سے اسٹیٹس کو کے حکمراں سخت بیزار رہے ہیں، عمل میں ڈھل گیا ہے۔ یہ لغو ہے کہ یہ صرف شریف خاندان کا ہو رہا ہے۔ اس کا آغاز آئین و قانون کی روشنی میں پی پی کی بدترحکمرانی کے متوازی جسٹس افتخار چوہدری کے جوڈیشل ایکٹوزم I سے ہوا تھا جس کی زد میں کتنے ہی اداروں کے غیر قانونی مقرر ہوئے سربراہ ہی نہیں بلکہ وزیر اعظم تک آئے، ایسےکہ انہوں نے تو بمطابق قانون انصاف پایا اور جمہوریت پھر بھی بچی رہی۔ پھر بانی متحدہ کی میڈیا پر پابندی ، ایان علی، شرجیل میمن ، ڈاکٹر عاصم، عزیر بلوچ، عابد باکسر کی گرفتاری اور ان پر مقدمات کے بعد کیسے مانا جا سکتا ہے کہ احتسابی عمل شریف خاندان تک محدود ہے۔ عمران خان پر کتنے ہی مقدمات اور ان کی عدالت میں سماعت، جہانگیر ترین کی نااہلی، علیم خان کی نیب میں طلبی، بلوچستان میں وزیر اور سیکرٹری صحت سے لوٹی رقم کی ریکوری اور مقدمات، عدلیہ اور نیب کی محدود سکت کے باوجود ملک گیر احتسابی عمل شروع ہونے کی نشاندہی نہیں کرتے؟
یقیناً پاناما لیکس کے حقائق اور حصہ بقدر جثہ میں شریف فیملی زیادہ پکڑ و جکڑ میں آئی ہے کہ کیا یہ اتنی ہی بااختیار، مقتدر اور کرپشن کے ایک سے بڑھ کر ایک الزام میں ملوث نہیں؟ تو پھر یہ کیا کتنا سچ ہے کہ فقط وہ ٹارگٹڈہیںاور احتسابی عمل میں انتقام ناقابل فہم ہے۔ اسٹیٹس کو کی دونوں بڑی سیاسی قوتوں پی پی اور ن لیگ کا یہ فرق کھل کھلا کر واضح ہوگیا کہ پی پی اپنی بدترین گورننس میں اگر ن لیگ کے مقابل اور مساوی ہی ہے تو اپنی قومی سوچ، ریاستی اداروں کے احترام و قبولیت اور جمہوریت کی بقا اور ملکی سلامتی و استحکام کے بنیادی امور میں ن لیگ کے مقابل کہیں زیادہ ذمے دار جمہوری اور آئین کی پابند ہے۔
اسٹیٹس کو کی جماعتوں کے چار عشروں سے قومی سیاست و حکومت میں غلبے کے حاصل کہ انتخابی سیاست اور فیصلوں میں دو خاندانوں کے فیصلہ کن کردار نے خاص و عام پر واضح کردیا ہے کہ ہر دو خاندانوں کی جمہوریت کے کیا معنی ہیں۔ پی پی، سیاسی حکمت اور شعور میں (بلکہ گورننس کے بھی) ن لیگ سے زیادہ اسمارٹ ہے۔
ن لیگ کی قیادت اور خود جماعت کبھی انقلابی بن سکتی ہے نہ حریت پسند ی کا ملمع اپنے پر چڑھا سکتی ہے، اس کی یہ سعی مضحکہ خیز اور لاحاصل ہے، اس لئے وہ ریاستی داروں سے لڑ بھڑ کر اور اپنی دھماچوکڑی سے مثبت سمت میں آئے اداروں کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتی کہ ان کا رخ آئین و قانون کی جانب ہے اور خود ن لیگ اور اس کی رہبرانہ قیادت مہم جوئی اور انارکی کی طرف، لیکن وہ اپنے کمال گورکھ دھندے کے باوجود اتنی طاقت ور ہرگز نہیں کہ مملکت، ریاست اور قوم کے مقابل آکر اپنے منفی مقاصد حاصل کرسکے۔ آگے اس کی مرضی۔ وما علینا الالبلاغ۔

تازہ ترین