• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
لیبیا میں اِسلام مخالف فلم کیخلاف احتجاج کرنیوالوں کے ہاتھوں امریکی سفیر کی ہلاکت پر اقوام متحدہ اور غیرمسلم ممالک کے ساتھ ساتھ مسلمان ممالک بشمول پاکستان نے فوری مذمتی بیانات جاری کئے مگر کسی ایک اسلامی ملک نے بھی امریکا کی مذمت کرنے کی جرأت نہ کی کہ اُس نے ایک ایسی فلم کو میڈیا میں کیوں آنے دیا جو اسلام دُشمن ذہن کی خباثت کمینگی اور ذلالت کی تمام حدوں کو پار کرتی ہے؟؟
49مسلمان ممالک میں سے کسی ایک ملک نے بھی امریکا سے باقاعدہ سفارتی احتجاج ریکارڈ نہیں کرایا۔ اُلٹا امریکا سے ہمدردیاں کی جا رہی ہیں کہ اُس کا لیبیا میں سفارتکار مارا گیا…!! شکر ہے کہ اُس کو ”شہادت“ کا درجہ نہیں دیا گیا۔ عراق افغانستان پاکستان اور دوسرے ممالک میں لاکھوں مسلمانوں کے مارے جانے پر تو پتّا بھی نہیں ہلتا لیبیا کے لوگوں کے ہاتھوں کرنل قذافی کے قتل پر کوئی مذمتی بیان جاری نہیں ہوتے۔ اُس وقت کے پاکستان میں افغانستان کے سفیر ملاضعیف کو تمام سفارتی آداب کی خلاف ورزی کرتے ہوئے امریکا کے حوالے کر دیا جاتا ہے اُس پر بھی پوری اقوام عالم خاموش رہتی ہے مگر دُنیا بھر میں بسنے والے تقریباً 2ارب مسلمانوں کے پیارے رسول کی شان میں گستاخی کرنے کی غرض سے امریکا میں بنائی جانے والی فلم کو آزادی اظہار کے بہانے دُنیا بھر میں پھیلانے کی اجازت دینے والے امریکا کا سفیر اگر مارا جاتا ہے تو سب ”غم زدہ“ ہو جاتے ہیں۔ ہمارا دین یقیناً کسی معصوم کی جان لینے سے روکتا ہے مگر یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ امریکاو یورپ آزادی رائے کے نام پر مسلمانوں کی مقدّس ترین ہستیوں کا مذاق اُڑاتے رہیں اور اسکے جواب میں کسی قسم کا ردّعمل نہ ہو۔ یہاں تو کوئی شخص اپنے خلاف یا اپنے ماں باپ کیخلاف گالی برداشت نہیں کرتا ،سروَر دوجہاں حضرت محمد اور دوسرے انبیائے کرام کی شان میں گستاخی مسلمانوں کیلئے کیسے قابل برداشت ہو سکتی ہے…؟؟ لیبیا میں امریکی سفیر کی ہلاکت سے امریکا و یورپ کو سبق سیکھنا چاہئے مگر جب مسلمان ممالک کے حکمران اُن سے احتجاج کی بجائے ہمدردی کر رہے ہوں تو وہ اپنے جرم کو جرم کیسے سمجھیں گے؟ ہم مسلمانوں کا المیہ یہ ہے کہ ہمارے حکمران امریکا کے پٹھو ہیں۔ اسی طرح مسلمانوں کی نمائندہ بین الاقوامی تنظیم او آئی سی (OIC) بھی امریکا کے اشاروں پر ناچتی ہے۔جب مسلمانوں کی نمائندگی کرنے والے امریکا کے پٹھو ہونگے تو عام مسلمان کے پاس احتجاج اور توڑ پھوڑ کے علاوہ کیا رستہ رہ جاتا ہے؟؟اگر اُنکے نمائندے اُنکے احساسات کی ترجمانی کرتے ہوئے گستاخِ رسول اور اسلام دُشمنوں کی سازشوں کے خلاف شدید ردّعمل کا اظہار کریں گے تو اس سے عام مسلمان کا بھی غصہ ٹھنڈا ہو گا ورنہ احتجاج کرنے والے پرتشدّد ہو سکتے ہیں۔
ہمارے صدر یا وزیراعظم کو امریکی صدر سے بات کرکے مسلمانوں کے احساسات کی نمائندگی کرتے ہوئے سخت احتجاج ریکارڈ کرانا چاہئے تھا۔ پاکستان کے دفتر خارجہ کو چاہئے تھا کہ امریکی سفیر کو دفتر خارجہ طلب کرکے اسلام مخالف فلم پر پاکستان کی طرف سے باقاعدہ مذمت کرتے مگر ہمارے صدر، وزیراعظم حتیٰ کہ وزیر خارجہ حناربانی کھر سب اس واقعہ پر خاموش ہیں جبکہ دفتر خارجہ نے 12ستمبر کے روز (جب لیبیا میں امریکی سفیر کو ہلاک کیا گیا) دو پریس ریلیز جاری کیں۔ پہلی پریس ریلیز میں اسلام مخالف فلم کے بننے پر مذمتی بیان جاری کیا مگر اس احتیاط کے ساتھ کہ امریکی حکومت کا اس بیان میں کوئی ذکر نہ آئے۔ اُسکے ساتھ ہی ایک اور بیان جاری کیا جس میں لیبیا میں امریکی سفیر کی ہلاکت پر مذمت کا اظہار کرتے ہوئے مارے جانے والے سفیر کے خاندان کیلئے دعاکی۔
ہماری حکومت کی طرح ہمارے میڈیا کا بھی اس واقعہ پر ردعمل انتہائی پھسپھسا رہا۔ سوات میں ایک خاتون کو کوڑے مارنے سے متعلق جعلی فلم پر تو بغیر تحقیق کئے ہمارے میڈیا نے ہفتوں آسمان سر پر اُٹھائے رکھا مگر امریکیوں کی طرف سے اسلام مخالف فلم بنانے پر اکثرو بیشتر اینکر پرسن خاموش رہے۔ آسیہ مسیح رمشا کیس ہندوؤں کو سندھ سے بے دخل کئے جانیوالی جھوٹی خبروں پر تو ہمارے کئی اینکر پرسنز تڑپ اُٹھے غصہ میں اُنکے منہ سے جھاگ نکلنے لگی مگر امریکا کی اس تازہ غلاظت پر وہ خاموش بیٹھے ہیں۔ کچھ یہی حال ہماری نام نہاد انسانی حقوق، این جی اوز اور سول سوسائٹی کے ”بڑے بڑے“ عَلم برداروں کا ہے۔ جہاں اسلام اور پاکستان کو بدنام کرنے کی بات ہو، میڈیا سول سوسائٹی اور انسانی حقوق کے عَلم برداروں کا ایک طبقہ برساتی مینڈکوں کی طرح ٹریں ٹریں کرنے لگتا ہے مگر اس شرمناک واقعہ پریہ تمام برساتی مینڈک خاموش بیٹھے ہیں۔
تازہ ترین