• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان کی 2 ارب ڈالرز کی امداد معطل کرنے کے بعد ٹرمپ انتظامیہ پاکستان کا نام دہشت گردوں کو مالی معاونت کرنے والے ملکوں کی واچ لسٹ میں شامل کروانے کیلئے سرگرم ہوگئی تھی اور گزشتہ ہفتے فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (FATF) کے 18 سے 23 فروری تک پیرس میں ہونے والے اجلاس میں امریکہ نے برطانیہ، جرمنی اور فرانس کی حمایت سے پاکستان کے خلاف تحریک پیش کی۔ امید کی جارہی تھی کہ پاکستان کو گرے لسٹ میں شامل کرلیا جائے گا لیکن وزیر خارجہ خواجہ آصف اور مشیر خزانہ مفتاح اسماعیل کی رکن ممالک سے سفارتی حمایت کے نتیجے میں پاکستان کا نام تین ماہ کیلئے FATF واچ لسٹ میں شامل کرنے کو موخر کردیا گیا۔ اس ضمن میں FATF کے ایشیا پیسفک گروپ کو ہدایت دی گئی ہے کہ وہ جون 2018ء تک پاکستان کی گلوبل ٹیررسٹ فنانسنگ کے خلاف لئے گئے اقدامات کو سامنے رکھتے ہوئے ایک نئی رپورٹ پیش کرے۔ صدر پاکستان نے پہلے ہی ٹیررسٹ فنانسنگ روکنے کیلئے اینٹی ٹیررازم ایکٹ 1997میں ترامیم کی ہیںجو یقیناً ہمارے موقف کو سپورٹ کرے گی۔
FATF ایک انٹرنیشنل ادارہ ہے جو دنیا میں ٹیررسٹ فنانسنگ اور منی لانڈرنگ کی روک تھام کے اقدامات کرتا ہے۔ اس ادارے نے گرے اور بلیک لسٹ مرتب کی ہیں جن میں دہشت گردی اور منی لانڈرنگ کے خلاف کمزور ریکارڈ رکھنے والے ممالک کے نام شامل ہیں۔ 2017ء کی واچ لسٹ میں لیبیا، میانمار، صومالیہ، شام، ترکی، وینزویلا اور یمن شامل ہیں۔ پاکستان 2012ء سے 2015ء تک FATF واچ لسٹ میں شامل تھا لیکن بعد میں پاکستان کا نام اس لسٹ سے نکال دیا گیا تاہم FATF نے حکومت پاکستان کو خبردار کیا تھا کہ عسکریت پسندوں کی فنڈنگ پر پاکستان کا نام دوبارہ اس لسٹ میں ڈالا جاسکتا ہے۔ اس کے علاوہ امریکی سیکریٹری آف اسٹیٹ نے مذہبی آزادی کی خلاف ورزی کرنے پر 22 دسمبر 2017ء کو ایک اسپیشل واچ لسٹ بھی شائع کی ہے جس میں چین، ایران، شمالی کوریا، سوڈان، سعودی عرب، تاجکستان، ترکمانستان اور ازبکستان کے ساتھ پاکستان کے نام شامل ہیں۔
امریکی اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کی ترجمان اور معروف ٹی وی جرنلسٹ Heather Nauertنے کہا ہے کہ اس معاملے میں بین الاقوامی کمیونٹی کو پاکستان پر کچھ تحفظات ہیں کہ پاکستان نے اینٹی منی لانڈرنگ اور کائونٹر ٹیررازم قوانین پر موثر طریقے سے عملدرآمد نہیں کیا۔ امریکی میڈیا کے مطابق ٹرمپ حکومت نے پاکستان کو ایک درجن سے زائد بڑے دہشت گردوں کے خلاف ایکشن لینے کیلئے لسٹ فراہم کی ہے مگر ان دہشت گردوں کی پناہ گاہوں کے بارے میں معلومات فراہم نہیں کیں۔ امریکہ نے پاکستان کے اقوام متحدہ کی پابندیوں کے مطابق فلاحی انسانیت فائونڈیشن اور جماعت الدعوۃ کو بلیک لسٹ کرنے کا خیر مقدم کیا ہے لیکن اس کے باوجود امریکہ پاکستان کا واچ لسٹ میں نام شامل کرنے کی تحریک کو موخر کرنے پر تیار نہیں تھا۔
بھارت کے کہنے پر پیش کی جانے والی تحریک کا اصل مقصد حافظ سعید ہیں جن کی جماعت الدعوۃ پر ممبئی بم حملوں کے ماسٹر مائند ہونے کا الزام لگایا جاتا ہے حالانکہ حافظ سعید ممبئی بم حملوں میں ملوث ہونے کو مسترد کررہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اُن کی فلاحی تنظیم کا دہشت گردی سے کوئی تعلق نہیں۔ واچ لسٹ میں پاکستان کا نام شامل کرنے کا مقصد پاکستان کو مذہبی انتہا پسندوں کے رابطوں سے علیحدگی کیلئے دبائو ڈالنا ہے۔ FATFاجلاس میں 37 ممالک حصہ لیں گے جس میں دہشت گردی کی روک تھام کیلئے پاکستان کی طرف سے اٹھائے گئے اقدامات کا جائزہ لیا جائے گا۔ FATF ممبر ممالک میں چین، روس اور ترکی دہشت گردی کے خلاف پاکستان کی طرف سے کئے گئے اقدامات سے مطمئن ہیں۔ برطانیہ کی طرف سے پاکستان کے خلاف امریکی سفارشات کی حمایت پر اوورسیز کمیونٹی میں خاصی بے چینی پائی جاتی ہے۔ برطانیہ کے لارڈ نذیر نے برطانوی وزیر خارجہ مورس جانسن کو اپنے خط میں کہا ہے کہ برطانیہ کی جانب سے پاکستان کو گرے لسٹ میں ڈالنے کی حمایت سے دونوں ممالک کے تاریخی تعلقات پر گہرا اثر پڑے گا اور جنوبی ایشیا میں پاکستان اور بھارت کے ساتھ تعلقات کا توازن متاثر ہوگا۔
پاکستان کا نام واچ لسٹ میں شامل ہونے سے ملکی معیشت کو بڑا دھچکا لگ سکتا تھا کیونکہ اس سے غیر ملکی سرمایہ کار کمپنیوں کو پاکستان میں کاروبار کرنا مشکل ہوجاتا۔ واچ لسٹ میں پاکستان کا نام شامل ہونے کے خدشات اور افواہوں کی وجہ سے اجلاس سے ایک دن پہلے پاکستان اسٹاک ایکسچینج میں 700 پوائنٹس کی کمی آئی تھی اور واچ لسٹ میں پاکستان کا نام موخر ہونے کی وجہ سے 21 فروری کو انڈیکس میں 344پوائنٹس کا اضافہ دیکھنے میں آیا۔
لندن میں کرک لینڈ اینڈ الیز نامی لاء فرم کے نمائندے مائیک کیسی کا کہنا ہے کہ دہشت گردوں کی مالی معاونت کرنے والے ممالک کی فہرست میں پاکستان کا نام دوبارہ شامل کئے جانے کی صورت میں اس کا رسک پروفائل بڑھ جاتا، پاکستانی بینکوں کے ذریعے رقوم کے تبادلے مشکل ہوجاتے اور بیرونی سرمایہ کار بزنس سے متعلق قانونی خدشات کے پیش نظر پاکستان کے ساتھ کاروبار سے گریز کرتے۔ اس کے علاوہ عالمی مالی اداروں سے فنانسنگ مشکل اور مہنگی ہوجاتی۔ غیر ملکی زرمبادلہ کے ذخائر میں کمی سے پاکستان کے خسارے میں اضافہ اور معیشت دبائو کا شکار ہوسکتی تھی جس کی وجہ سے عالمی ریٹنگ ادارے پاکستان کی کریڈٹ ریٹنگ میں کمی کرسکتے تھے ۔
آج کل عالمی ریگولیٹرز بینکوں کو منی لانڈرنگ کے قوانین پر عملدرآمد نہ کرنے کی وجہ سے کروڑوں ڈالر جرمانہ کررہے ہیں۔ گزشتہ برس پاکستان کے ایک بڑے مالی ادارے حبیب بینک کو نیویارک میں بینکنگ سیکٹر کی نگرانی کرنے والے امریکی ادارے نے 225 ملین ڈالر کا جرمانہ عائد کیا تھا۔ اس جرمانے کی وجہ حبیب بینک کا منی لانڈرنگ کے ضوابط کے منافی اور دہشت گردوں کی مالی معاونت کرنے کی سرگرمیاں خیال کی گئی تھیں۔ اس جرمانے کے بعد حبیب بینک امریکہ میں اپنا آپریشن بند کرنے پر مجبور ہو گیا تھا۔ اسٹینڈرڈ چارٹرڈ بینک، سٹی بینک اور بارکلے بینک جو زیادہ تر کارپوریٹ صارفین کے ساتھ کاروبارہ کرتے ہیں،نے عالمی ریگولیٹرز کی جانب سے شدید دبائو کی وجہ سے حالیہ برسوں میں ہائی رسک ممالک میں اپنے آپریشن محدود کردیئے ہیں۔ ہانگ کانگ میں مشاورتی کمپنی کوئنلان ایسوسی ایٹس کے مطابق امریکی واچ ڈاگز نے اینٹی منی لانڈرنگ کے قواعد و ضوابط پر عملدرآمد نہ کرنے پر گزشتہ 8 سالوں میں 16 ارب ڈالر کے جرمانے عائد کئے ہیں۔ پاکستان میں کام کرنے والے عالمی بینکوں نے اس موقع پر کہا ہے کہ ان کے بینک منی لانڈرنگ کے قانون و ضوابط پر پوری طرح عمل کررہے ہیں اور حالات کا بہت قریب سےجائزہ لے رہے ہیں۔
بھارت اور امریکہ پہلے دن سے سی پیک منصوبوں میں عالمی سرمایہ کاری سے خوش نہیں اور ان کی ہمیشہ سے یہ کوشش رہی ہے کہ خطے میں چین اور پاکستان علاقائی برتری حاصل نہ کرسکیں۔ واچ لسٹ میں پاکستان کا نام ڈالنے کا مقصد پاکستان پر دبائو ڈالنا تھا تاکہ سرمایہ کاروں کی حوصلہ شکنی ہو۔ میرے خیال میں ٹیررسٹ فنانسنگ گرے لسٹ میں پاکستان کا نام شامل کرنا بھارت اور امریکہ کا ایک سیاسی انتقام تھا جو فی الحال ٹل گیا ہے۔ حکومت کو چاہئے کہ وہ نئی جائزہ رپورٹ بننے سے پہلے ترجیحی بنیادوں پر FATF رکن ممالک کے پاکستان کے ٹیررسٹ فنانسنگ کی روک تھام کیلئے لئے گئے اقدامات کو موثر طریقے سے اجاگر کرے اور ان اداروں جو ٹیررسٹ فنانسنگ کے سلسلے میں عالمی سطح پر بلیک لسٹ کئے گئے ہیں،کے بینک اکائونٹس اور آپریشنز بند کرے، نہیں تو تین مہینے بعد پاکستان کا نام گرے لسٹ میں شامل کیا جاسکتا ہے جس کا ہماری معیشت متحمل نہیں ہوسکتی۔

تازہ ترین