• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان میں تیزی سے ایسے حالات پیدا ہو رہے ہیں ، جو ملک کو انتشار اور بے یقینی کی طرف دھکیل سکتے ہیں ۔ یہ حالات اس وقت پیدا ہو رہے ہیں ، جب آئندہ عام انتخابات کے انعقاد میں صرف چند ماہ رہ گئے ہیں ۔ ان سے پرامن جمہوری انتقال اقتدار کا عمل بھی متاثر ہو سکتا ہے ۔ ایک تشویش ناک خبر یہ آئی ہے کہ اقوام متحدہ کی قائم کردہ ’’ فنانشل ایکشن ٹاسک فورس ‘‘ ( ایف اے ٹی ایف ) کے اجلاس میں پاکستان کو آئندہ جون تک ایسے ممالک کی واچ لسٹ میں شامل کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے ، جو عالمی مالیاتی نظام کیلئے ’’ رسک ‘‘ یعنی خطرہ ہے ۔ دوسری تشویش ناک خبر یہ ہے کہ پاکستان کے سب سے بڑے صوبہ پنجاب کی بیورو کریسی نے قومی احتساب بیورو ( نیب ) کے خلاف احتجاج شروع کر رکھا ہے ۔ اس صورت حال کو اداروں کے مابین تصادم سے تعبیر کیا جا سکتا ہے ۔ ایک اور تشویش ناک بات یہ ہے کہ سابق وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف کے خلاف سپریم کورٹ کے فیصلوں پر پاکستان مسلم لیگ (ن) عدلیہ کے خلاف محاذ آرائی کی پالیسی پر عمل پیراہو چکی ہے ۔ اس سے زیادہ تشویش ناک یہ ہے کہ تیزی سے بدلتی ہوئی عالمی اور علاقائی صورت حال میں ہماری طرف سے اہم قومی معاملات پر اداروں کے مابین عدم اتفاق کا تاثر بیرونی دنیا میں پھیل رہا ہے ۔
وفاقی حکومت کی طرف سے اگرچہ یہ کہا جا رہا ہے کہ پاکستان کا نام ’’ ایف اے ٹی ایف کی واچ لسٹ میں شامل ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑتا ، وزیر اعظم کے مشیر مفتاح اسماعیل کے بقول پاکستان کی معیشت بہت ترقی کر چکی ہے لیکن پاکستانی قوم کو یہ نہیں بتایا جا رہا کہ جون میں اگر واچ لسٹ میں نام شامل کیا جائیگا تو پاکستان کو اس واچ لسٹ سے نکلنے کیلئے ایک ایکشن پلان بھی دیا گیا ہے ۔ ایکشن پلان دینے کی صورت میں یہ واچ لسٹ ’’ گرے لسٹ ‘‘ کہلائے گی اور اگر ایکشن پلان پر اتفاق نہ ہو سکا تو پاکستان کو ’’ بلیک لسٹ ‘‘ کیا جا سکتا ہے ۔ ایکشن پلان دیا گیا تو پاکستان کو منی لانڈرنگ اور دہشت گردوں کو مالی امداد روکنے کیلئے مزید اقدامات کرنا ہوں گے ۔ ایف اے ٹی ایف کی واچ لسٹ میں شامل ہونے سے زیادہ تشویش ناک بات یہ ہے کہ چین اور سعودی عرب جیسے دوستوں نے بھی پاکستان کا ساتھ نہیں دیا ۔ ٹاسک فورس کے پہلے اجلاس میں جب پاکستان کو واچ لسٹ پر ڈالنے کی تحریک آئی تو سعودی عرب ، چین اور ترکی نے اس کی مخالفت کی لیکن جب امریکہ نے اس پر دوبارہ ووٹنگ کرائی تو صرف ترکی نے پاکستان کا ساتھ دیا ۔ حالانکہ چین بھی اس بات سے واقف ہے کہ امریکہ پاکستان کے خلاف جو کچھ کر رہا ہے ، وہ چین کی طرف پاکستان کے بڑھتے ہوئے جھکاؤ کی وجہ سے کر رہا ہے ۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ پاکستان نے ایف اے ٹی ایف میں خلیجی ممالک کی حمایت کرنے کیلئے پاکستانی بھیجنے کا بہت مشکل فیصلہ کیا ۔ اسکے باوجود مقصد حاصل نہ ہو سکا ۔ کیا اسے موجودہ حکومت کی خارجہ پالیسی کی ناکافی سے تعبیر نہیں کیا جا سکتا ؟ دوسری طرف یہ معاملہ داخلہ پالیسی کی ناکامی کو بھی اجاگر کرتا ہے کیونکہ 2015ء میں اعلان کردہ 20 نکاتی نیشنل ایکشن پلان میں منی لانڈرنگ اور دہشت گردوں کو مالی معاونت روکنے کے نکات بھی شامل تھے ۔ اگر اس پلان پر عمل ہوجاتا تو آج ایف اے ٹی ایف میں ہماری پوزیشن مختلف ہوتی ۔ ہو سکتا ہے کہ واچ لسٹ میں پاکستان کا نام شامل ہونے سے ہمیں معاشی طور پر کوئی فرق نہ پڑے لیکن پاکستان کو تنہا کرنے کی پاکستان دشمن قوتوں کو تقویت ضرور ملے گی ۔ موجودہ حکومت کی خارجہ اور داخلہ پالیسیوں میں ناکامی کے اور بھی کئی خطرناک اثرات مرتب ہو سکتے ہیں ۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ پنجاب ہی پاکستا ن ہے کیونکہ یہ صوبہ اکثریتی آبادی پر مشتمل ہے ۔ یہاں کی بیورو کریسی کے نیب کے خلاف احتجاج کو سابق صدر آصف علی زرداری نے بغاوت سے تعبیر کیا ہے اور کہا ہے کہ ایک سازش کے تحت نیب کے خلاف بیورو کریسی کی بغاوت کرائی جا رہی ہے ۔ پوری قوم کیلئے یہ بات بہت ہی تشویش ناک ہے ۔ سندھ میں جب ایف آئی اے اور نیب جیسے وفاقی ادارے کارروائیاں کر رہے تھے اور اس پر سندھ حکومت کے لوگ احتجاج کر رہے تھے تو مسلم لیگ (ن) کی قیادت ان کارروائیوں کو جائز اور سندھ حکومت کے احتجاج کو بلا جواز قرار دے رہی تھی لیکن اب پنجاب میں صورت حال مختلف ہے ۔ دنیا یہ بات تسلیم کرنے کو تیار نہیں ہے کہ پنجاب میں یہ صرف بیورو کریسی کا اپنا احتجاج ہے اور اس سے پنجاب حکومت کا کوئی تعلق نہیں ہے ۔ بیورو کریسی اگر تالا بندی اور ہڑتال جیسے اقدام کرتی ہے تو نہ صرف پنجاب بلکہ پورا ملک مفلوج ہو جائیگا اور اگر نیب اس احتجاج پر کارروائیاں روک لیتا ہے تو کرپشن کیخلاف بنایا گیا پورا نظام مفلوج ہو جائے گا ۔ کوئی اندازہ لگا سکتا ہے کہ اس تصادم کا نتیجہ کیا نکل سکتا ہے ۔ پنجاب حکومت اور وفاقی حکومت کو ان بیوروکریٹس کیخلاف ایکشن لینا چاہئے اور فوری طور پر سب کو OSD بنانا چاہئے۔
ہم اس بحث میں نہیں پڑ رہے کہ موجودہ عدلیہ جو فیصلے کر رہی ہے ، وہ ماضی کی عدلیہ سے کس حد تک مختلف ، انصاف پر مبنی اور آئین و قانون کے مطابق ہیں ۔ تشویش ناک امر یہ ہے کہ پاکستان مسلم لیگ (ن) عدلیہ کے ساتھ کھلی محاذ آرائی کی پالیسی پر گامزن ہو چکی ہے ۔ سابق وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلوں کے بعد ملکی سیاست سے باہر ہوگئے ہیں ان کے خلاف نیب میں ریفرنسز ہیں ۔ جن کے فیصلے آنا باقی ہیں ۔ پاکستان پیپلز پارٹی اور دیگر سیاسی جماعتوں کی قیادت مسلم لیگ (ن) کو متنبہ کر رہی ہیں کہ اداروں کے تصادم سے جمہوریت کو نقصان ہو سکتا ہے لیکن مسلم لیگ (ن) اس معاملے میں مسلسل آگے بڑھ رہی ہے ۔ اگر یہ صورت حال رہی تو اس کے منطقی انجام سے بھی لوگ خوف زدہ ہو رہے ہیں ۔ بہت سے قومی معاملات ایسے ہیں ، جن میں اداروں کے مابین عدم اتفاق کا تاثرملک کے اندر اور بیرونی دنیا میں پھیل رہا ہے ۔ سعودی عرب میں فوج بھیجنے کے فیصلے پر پارلیمنٹ میں بعد ازاں جو مباحثہ ہوا ، وہ اس کی ایک مثال ہے ۔ اس لئے وفاقی حکومت کو چاہئے تھا کہ وہ پہلے ہی پارلیمنٹ یا پارلیمانی جماعتوں کے قائدین کو اعتماد میں لیتی ۔ پاکستانی فوج سعودی عرب بھیجنے کا معاملہ پہلے بھی زیر بحث لایا جا چکا ہے ۔ اب بھی اسے زیر بحث لایا جا سکتا تھا ۔ اس طرح کے دیگر بھی بہت سے معاملات ہیں ، جن کا یہاں تذکرہ مناسب نہیں ہو گا لیکن دنیا بہت نظر رکھتی ہے ۔
اچھی بات یہ ہے کہ سینیٹ کے انتخابات بروقت ہو رہے ہیں ۔ کچھ عرصہ قبل یہ خدشہ ظاہر کیا جا رہا تھا کہ سینیٹ کے انتخابات نہیں ہو سکیں گے لیکن اب یہ خدشہ نہیں رہا لیکن آئندہ عام انتخابات سے قبل خارجی محاذ پر مسلسل ناکامیوں کے سلسلے اور داخلی سطح پر تصادم کی صورت حال کا خاتمہ ہونا چاہئے ۔ جس طرح کے حالات پیدا ہو رہے ہیں ، انہیں کسی طرح بھی جمہوری عمل کے تسلسل کیلئے سازگار قرار نہیں دیا جا سکتا۔

تازہ ترین