• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

دہشت گردی کی فنانسنگ میں معاونت کرنے والے ملکوں کی نگرانی کی فہرست(واچ لسٹ) میں پاکستان کوشامل کرانے کے لئے امریکہ نے برطانیہ ، فرانس اور جرمنی کی توثیق ومعاونت سے ایک قراردادا عالمی فنانشل ٹاسک فورس میںجمع کرائی ہے۔ یہ قرارداد نیو گریٹ گیم کے تحت امریکہ کے استعماری مقاصد کے حصول میں پیش رفت کرنے کے لئے ہے۔ ان مذموم مقاصد میں بھارت کو خوش کرنا، پاکستان کو غیر مستحکم کرنا، عالمی برادری میں پاکستان کی ساکھ خراب کرنا، برآمدات کے فروغ میں مشکلات پیدا کرنا، بیرونی قرضوں کے حصول کو مشکل بنانا، پاکستانی معیشت کو نقصان پہنچانا اور دہشت گردی کی جنگ میں ’’مزید اور کرو ‘‘ کے امریکی مطالبے کو تسلیم کرانے کے لئے الزام تراشیاں کرکے پاکستان پردباو بڑھانا شامل ہیں۔ ہم نے 15فروری2018کو وائس آف امریکہ کے پروگرام میں اس قراداد کے ضمن میں جو گفتگو کی تھی اس کے چند نکات یہ تھے ۔
1۔ یہ صورتحال اگر برقرار رہی توخود امریکہ کے لئے بھی نقصان دہ ہوگی۔ افغانستان میں امریکہ کی مشکلات بڑھیں گی البتہ اس سے افغانستان میں امریکی افواج کو لمبے عرصے تک رکھنے کا جوازمل جائے گا ۔
2۔ یہ قرارداد بھارت کو خوش کرنے کے لئے بھی ہے اس کے نتیجے میں پاکستان نے صدارتی آرڈنینس کے ذریعے حافظ سعید کے فلاحی اداروں کی رقوم اور اثاثے منجمد کرکے اپنے قبضے میں لے لئے ہیں حالانکہ ان پر پاکستان میں کوئی الزام نہیں تھا اور نہ ہی پاکستان سے باہر کوئی الزام ثابت ہوا تھا ۔ یہی نہیں ان اداروں کی سماجی خدمات کا دنیا بھر میں اعتراف کیا جاچکا ہے۔
3۔ پاکستان میں انتہا پسندی کو فروغ ملے گا۔ ممتاز امریکی دانشور نوم چومسکی نے کہا تھا کہ امریکہ پاکستان میں انتہا پسندی کو فروغ دیتا رہا ہے۔
4۔ افغانستان میں پوست کی کاشت دوبارہ شروع ہوگئی ہے۔اس سے ملنے والی رقوم دہشت گردی کی فنانسنگ میں استعمال ہورہی ہیں اور اسلحہ وڈالر افغانستان سے پاکستان میں بھی منتقل ہوتے رہے ہیں۔
5۔ پاکستان میں27لاکھ افغان مہاجرین موجود ہیں۔ ان میں سے کچھ دہشت گردوں کو پناہ بھی دیتے ہیں۔
6۔ امریکہ نے وعدہ کیا تھا کہ دہشت گردی کی جنگ
میں معاونت کے صلے میں پاکستان کو قرضوں کے بوجھ سے نجات مل جائے گی اور وہ ایک خوشحال ملک بن جائے گا لیکن ایسا کچھ نہیں ہوا۔7۔دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستانی معیشت کو 25ارب ڈالر سے زائد کا نقصان ہوچکا ہے اور70ہزار افراد بھی جاں بحق ہوچکے ہیں۔ اس زبردست قربانی کے بعد بھی پاکستان پر الزامات کی بارش ہورہی ہے چنانچہ اس جنگ میں عوام کا عزم کمزور ہوتا جارہا ہے۔
قارئین کو یاد ہوگا کہ امریکی صدر ٹرمپ نے22اگست2017کو پاکستان کے خلاف انتہائی معاندانہ بیان جاری کیاتھا۔ اس کے جواب میں پاکستان کی جانب سے امریکہ کے خلاف صرف لفظی گولہ باری کی جاتی رہی ۔ یہ امرافسوسناک ہے کہ وطن عزیز میں اس بیان کے سنگین مضمرات کا احاطہ کرنے کے بجائے حکمرانوں ، سیاستدانوں اور ریاستی اداروں وغیرہ کی توجہ پانا مالیکس، سیاسی ہنگامہ آرائی، طاقتور طبقوں کو ناجائز،مراعات دینے وغیرہ کی طرف مبذول رہی اور اداروں میں تناو کی کیفیت بڑھتی رہی چنانچہ افق پر منڈلاتے ہوئے خطرات کی طرف توجہ دی ہی نہیں گئی ۔ ہم بحرحال ان ہی کالموں میں ان خطرات کی نشاندہی کرتے رہے ہیں۔ ہم نے عرض کیا تھا :
(1)امریکہ کو خطے میں اپنے استعماری مقاصد کے حصول کے لئے اب بھی پاکستان کی مدد درکار ہے چنانچہ فی الحال وہ پاکستان پر اقتصادی پابندیاں نہیں لگائے گا البتہ پاکستان کے خلاف ایک نئی چارج شیٹ جاری کی جاسکتی ہے۔
(جنگ21ستمبر2017)
2 ۔ امریکہ یہ بات اچھی طرح سمجھتا ہے کہ پاکستان کی امداد بند کرنے کے علاوہ ایسے بہت سے اقدامات اٹھائے جاسکتے ہیں جن سے پاکستان کی معیشت بحران کا شکار ہوجائے۔
( جنگ 11جنوری2018)
یہ دونوں خدشات حقیقت کاروپ دھار چکے ہیں۔ اب ہم یہ عرض کریں گے کہ امریکہ نے فنانشل ایکشن ٹاسک فورس میں پاکستان کے خلاف تحریک جمع کرانےکے ساتھ جو الزامات عائد کئے ہیں اور اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ نے جو بیان جاری کیا ہے وہ دراصل پاکستان کے گرد گھیرا تنگ کرنے کے لئے ایک چارج شیٹ ے جسے مستقبل میں اس وقت استعمال کیا جائے گا جب دہشت گردی کی جنگ میں امریکہ کو پاکستان کی مدد کی ضرورت مزید کم ہوجائے گی۔ امریکہ جن امور کے ضمن میں آگے چل کرپاکستان کے خلاف کارروائی کرسکتا ہے ان میں مندرجہ ذیل شامل ہیں:
1۔ اینٹی منی لانڈرنگ کے قوانین اور ان پر عمل درآمد میں کمزوریاں اور خامیاں
2۔ انسداد دہشت گردی کے قوانین،پالیسیوں اور اقدامات میں کمزوریاں اور خامیاں
3۔ مختلف قوانین ، پالیسیوں اور ٹیکس ایمنسٹی اسکیموں کے ذریعے دہشت گردوں کی ممکنہ فنانسنگ
مندرجہ بالا امور کے ضمن میں ہم نے ’’ دہشت گردی میں مالی معاونت‘‘ کے عنوان سے دوبرس قبل اور اس کے بعد کے صرف چند مزید کالموں میں قومی سلامتی اور قومی مفادات کے تحفظ کے لئے جو گزارشات اور تجاویز پیش کی تھیں ان میں سے چند یہ ہیں۔
1۔ معیشت کو دستاویزی بنانا2۔ انکم ٹیکس آرڈنیس کی شق4۔ 111کو منسوخ کرنا3۔ کالے دھن کو سفید ہونے سے روکنا اور کسی بھی قسم کی ایمنسٹی اسکیم کا اجرا نہ کرنا( یہ ایک قومی المیہ ہے کہ نئی ٹیکس ایمنسٹی اسکیم لانے کی حمایت بڑھ رہی ہے) 4۔ ملکی پاماز پر ہاتھ ڈالنا5۔ غیر منقولہ جائدادوں کے ڈی سی ریٹ کو مارکیٹ کے نرخوں کے برابر لانا6۔ اسمگلنگ انڈر انوائسنگ اور اوور انوائسنگ کو کنڑول کرنا7۔ دہشت گردوں کی فنانسنگ کو ہر قیمت پر لازماً روکنا8۔ ناجائز دولت کو قانونی طریقوں سے ملک سے باہر منتقلی کو متعلقہ قوانین میں ترامیم کے ذریعے روکنا۔ ان میں سے کچھ امور اقتصادی دہشت گردی کے زمرے میں آتے ہیں۔ اس خطرے کو ذہن میں رکھنا ہوگا کہ اینٹی منی لانڈرنگ کی آڑ میں امریکہ، برطانیہ، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات سے پاکستان آنے والی ترسیلات کے حجم میں اچانک زبردست کمی کرائی جاسکتی ہے۔ پاکستان کے لئے موجودہ پالیسیوںکے تناظر میں اس جھٹکے کو سنبھالنا ممکن نہیں ہوگا۔ بینکاری اور ٹیکسوں کے شعبوں میں بنیادی نوعیت کی اصلاحات کرنا ہونگی۔
جنگ 14جنوری2016 ، 23فروری 8ستمبر 20,2017اکتوبر2017اور21ستمبر2017
11جنوری2018قومی سلامتی اور قومی مفادات کے تحفظ کے لئے مندرجہ بالا تجاویز کونیشنل ایکشن پلان کا لازماً حصہ بنانا ہوگا۔

تازہ ترین