• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سپریم کورٹ کی طرف سے سابق وزیر اعظم نواز شریف کو دوسری پوزیشن(یعنی مسلم لیگ کی صدارت) سے بھی نااہل قرار دینے کے فیصلہ نے پہلی بار مسلم لیگی قیادت اور اس کے حامیوں کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔اس کے بعد کیا کیا ہوگا، یہ اللہ ہی جانتا ہے، ابھی تک تو یہ تاثر دیا جارہا ہے کہ وزیر اعلیٰ میاں شہباز شریف 4مارچ کے بعد مسلم لیگ (ن) کے اگلے صدر بن سکتے ہیں،یا اس سے پہلے پنجاب میں ایک افسر کی گرفتاری کے بعد ڈی ایم جی آفیسروں کی تقسیم اور کچھ کی طرف سے احتجاج کا ردعمل کیا ہوتا ہے۔ کیا سروسز ایکٹ سرکاری آفیسروں کو ایسا کچھ کرنے کی اجازت دیتا ہے، اگر اس کی سروسز رولز اور ضابطہ میں کوئی گنجائش نہیں ہے تو پھر صوبے کے چیف ایگزیکٹوز کے طور پر وزیر اعلیٰ شہباز شریف کے لئے مشکلات کم ہونے کی بجائے بڑھ سکتی ہیں، دوسری طرف اس سے نیب کی طرف سے کئی نئے حقائق بھی سامنے لائے جاسکتے ہیں، ہم نے پچھلے کالم میں ہی تجویز کیا تھا کہ ملکی حالات کا احساس کرتے ہوئے مصلحت یا مصالحت کی سوچ اپنانے کی ضرورت ہے۔
اس بارے میں ابھی بھی سوچ بچار کی ضرورت ہے۔ اس وقت جو حالات دنوں میں نہیں، گھنٹوں میں تبدیل ہورہے ہیں، اس میں جمہوریت کی گاڑی کسی دھند میں پھنستی نظر آرہی ہے۔ دوسری طرف اداروں کے وقار کو برقرار رکھنے پر کوئی سمجھوتہ نہ کرنا ہی ملکی مفاد اور حالات کی ضرورت ہے۔اس صورت ہی میں ملک میں معاشی سرگرمیوں پر مثبت اثرات مرتب ہوسکتے ہیں اور بیرون ملک پاکستانیوں کی ملکی حالات کے حوالے سے پریشانیاں کم ہوسکتی ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ ایک خدشہ پیدا ہورہا ہے کہ اگر مسلم لیگ(ن) کے معاملات میں بہتری نہ آئی، اس سے سب سے زیادہ مشکلات میاں شہباز شریف کے لئے پیدا ہوسکتی ہیں، جو ان کے مسلم لیگ(ن) کا اگلا صدر بننے سے پہلے اور یقینی طور پر بعد میں بڑھتی نظر آرہی ہیں، اس لئے روز بدلتے ہوئے موجودہ حالات کے حوالے سے بال شہباز شریف کے کورٹ میں ہے۔یہ بات تو طے ہے کہ میاں نواز شریف سے کسی بھی طرح کے علیحدہ ہونے کے کچھ بھی آثار نہیں ہیں۔ دونوں بھائیوں کے طرز عمل میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ انتظامی طور پر اچھا ہونا ہی کافی نہیں ہے، سیاسی طور پر ہر کسی کو برداشت کرنا بھی ایک آرٹ ہے، اس لئے آنے والے چند ہفتے مسلم لیگ(ن) کی سیاست اور شریف خاندان کے سیاسی مستقبل کے حوالے سے خاصے اہم ہیں۔ یہ بات کہ میاں نواز شریف ا ب بھی عوام میں مقبول ہیں، اس بارے میں بھی جلد ہی حقائق واضح ہوجائیں گے۔ اس وقت ملکی حالات اللہ کرے مزید خراب نہ ہوں اور معاملات بہتری کی طرف چلے جائیں۔ اس کے لئے طاقتور ا ور کمزور سب کو ملکی مفاد اور استحکام کے لئے سوچنا چاہئے۔
سب کو یہ خیال کرنا ہوگا کہ آنے والے کئی سال ملکی معیشت کے لئے ساز گار نظر نہیں آرہے، اس بارے میں عالمی بنک کے کنٹری ہیڈ نے چند روز قبل اشارہ بھی دیا ہے، اس لئے کسی طرح ملکی معیشت کی بہتری ہی کو ترجیح دی جائے۔ اس سے ہی جمہوریت کے استحکام میں مدد مل سکتی ہے۔ جمہوریت سے کروڑوں عوام کا پیٹ ہی بھرا جاسکتا۔ اس لئے پہلی ترجیح معاشی حالات کی بہتری ہونی چاہئے گھر میں روٹی ہو تو سب چیزیں صحیح سمت میں چل سکتی ہیں یا چلائی جاسکتی ہیں۔ یہ سب چیلنج آنے والے دنوں میں سب کی ضرورت بننے والے ہیں۔

تازہ ترین