• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

نارووال میں ن لیگ کے ورکرز کنونشن کے دوران وزیر داخلہ احسن اقبال پر وہاں موجود کسی شخص نے جوتا اچھال دیا۔ خبر کے مطابق احسن اقبال بچ گئے۔ ملزم کو پولیس نے پکڑا اور بعد میں وزیر داخلہ کے کہنے پر چھوڑ بھی دیا۔ اس واقعہ پر پی ٹی آئی کے ایم این اے علی محمد خان نے ایک ٹویٹ کیا جو قابل تحسین ہے۔ ایک ایسے ماحول میں جہاں سیاسی اختلاف کی بنیاد پر ایک دوسرے کو گالیاں دینے اور بُرا بھلا کہنے کا رواج زور پکڑ رہا ہے اور اس کام میں ن لیگ اور پی ٹی آئی خود پیش پیش ہیں، علی محمد خان کی طرف سے ایک ایسی بات کہی گئی جو نہ صرف قابل تقلید ہے بلکہ اس کی ہماری سیاست کو تہذیب کے دائرہ میں واپس لانے کے لیے اشد ضرورت ہے۔ اس واقعہ کے متعلق اپنے ٹویٹ میں پی ٹی آئی رہنما نے کہا:’’آج احسن اقبال کے ساتھ نارووال میں جوتا پھینکنے والے واقعہ کی شدید مذمت کرتا ہوں۔ ۔۔ سیاسی اختلاف اپنی جگہ لیکن کسی کو کسی کی بے عزتی کا کوئی حق نہیں۔ یہ کوئی مناسب روایت نہیں۔ نہ ہی ہمارا مذہب اور نہ ہی ہماری تہذیب اور کلچر اس کی اجازت دیتا ہے۔‘‘ کتنا اچھا ہو کہ سیاست میں اس شائستگی اور تہذیب کو پھیلانے کے لیے تمام رہنما اپنا اپنا کردار ادا کریں ورنہ تو یہاںکسی کی عزت محفوظ نہیں۔پاکستانی سیاست کی ایک اور حوصلہ افزا خبرا سپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق کے حوالے سے ملی۔ایک خبر کے مطابق اسپیکر قومی اسمبلی نے اسمبلی رولز میں تبدیلی کرتے ہوئے نہ صرف ارکان اسمبلی کو اسپیکر کے سامنے جھکنے سے منع کر دیا بلکہ کوئی بھی رپورٹ یا بل اسمبلی میں پیش کرنے سے پہلے beg کا لفظ ختم کر کے اُس کی جگہ ’’درخواست‘‘ کا لفظ استعمال کرنے کے احکامات بھی جاری کر دیے ہیں۔ اسپیکر کی طرف سے کہا گیا کہ جب کوئی رکن اسمبلی ایوان میں داخل ہوتا ہے تو اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ بیٹھنے سے قبل سپیکر کی سامنے جھکے جو ٹھیک روایت نہیں ہے ۔ Beg کے لفظ کے بارے میں سپیکر نے کہا یہ لفظ بھی انگریز دور سے چلا آ رہا ہے۔ ایاز صادق کا کہنا تھا کہ انگریز کی غلامی کا دور ختم ہو چکا اس لیے غلامی کے دور کی عکاسی کرنے والی روایات بھی ختم ہونی چاہیے۔ا سپیکر کے ان اقدامات پر اسمبلی اراکین نے اُن کو خراج تحسین پیش کیا۔ اسپیکر کی طرف سے اس قابل ستائش کام پر جہاں ایاز صادق مبارکبار کے مستحق ہیں وہیں اسپیکر سمیت اراکین اسمبلی سے میری درخواست ہے کہ وہ انگریزدور کی کئی اور غلامانہ اور غیر اسلامی روایات جن پر اب بھی سرکاری طور پر سختی سے عمل کیا جاتا ہے اُن کو ختم کیا جائے کیوں کہ بحیثیت ایک قانون ساز اور پالیسی ساز ادارہ مقننہ کی ذمہ داری پوری ریاست کے امور تک پھیلی ہوئی ہے۔ مثال کے طور پر سول سروس ہو یا فوج یا حکومت عدلیہ ،کوئی بھی سرکاری تقریب ہو کھانا کھانے کے لیے انگریز کے رواج کی یہاں تقلید کی جاتی ہے۔ کھانے کی میز پرکانٹے کو بائیں طرف اور چھری کو دائیں طرف رکھا جاتا ہے۔ اسلام ہمیں سیدھے ہاتھ سے کھانے کی تعلیم دیتا ہے اور الٹے ہاتھ سے کھانے سے منع کرتا ہے لیکن پاکستان کے قیام کو ستر برس ہو چکے لیکن سول و ملٹری اکیڈمیوں اور ایوان صدر اور حکومتی و سرکاری ظہرانوں میں آج بھی ہم کانٹے کو بائیں ہاتھ کی طرف ہی رکھتے ہیں۔ اسی طرح مرنے پر جب کسی کو سرکاری اعزاز کے ساتھ دفنایا جاتا ہے تو میت کو قبر میں اتارنے اور مٹی ڈالنے کے بعد باجابجایا جاتا ہے۔ جناح کیپ، شیروانی، کلہ وغیرہ جو ہمارا روایتی لباس ہے اُس کو انگریز نے گیٹ کیپرز، سرکاری دفاتر میں قاصد اور نائب قاصد وغیرہ کو پہنادیا اور افسران کے لیے انگریز کا لباس ہی لازمی رکھا۔ افسوس کہ یہ سلسلہ اب بھی پاکستان میںچل رہا ہے چاہے سول حکومت ہو، فوج یا عدلیہ۔ سرکار کے علاوہ بھی پرائیویٹ ہوٹلوں میں بھی انگریز کی انہی رواجوں کی تقلید کی جاتی ہے۔ امید ہے اسپیکر صاحب ایوان کے اندر کے ساتھ ساتھ ہر طرف پھیلی انگریز کی غلامی کی اُن نشانیوں کو ختم کرنے میں ضرور اپنا کردار ادا کریں گے جو ہمارے دینی اور معاشرتی اقدار اور روایات سے ٹکراتی ہیں۔ ویسے شیروانی، جناح کیپ، شلوار قمیض ہمارا قومی لباس ہے لیکن ہماری ذہنی غلامی کی حالت دیکھیں کہ حکمران ہوں، سیاستدان، وزیر مشیر، جج یا جنریل اکثر غیر ملکی دوروں اور سرکاری تقریبات میں وہی لباس پہننا پسند کرتے ہیں جو انگریز اُن کو پہنا کر دھایوں پہلے یہاں سے جا چکا ہے۔ یہ تو بھلا کرے ہمارے موجودہ وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کا جو بڑے فخر اور سادگی کے ساتھ اپنا قومی لباس پہن کر دنیا بھر کا دورہ کرتے ہیں جس سے اُن کی عزت اور احترام میں اضافہ ہوا۔ کتنا اچھا ہو ہمارے دوسرے سیاستدان، فوجی جرنیل، جج حضرات وغیرہ بھی بیرون ملک دوروں اور یہاں سرکاری تقریبات میں اپنا قومی لباس پہنیں۔

تازہ ترین