• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مجھے سرکاری ملازمت سے ریٹائر ہوئے تیرہ برس دو ماہ ہوچکے۔ جب سے پنجاب میں افسران کے حوالے سے ایک چھوٹے سے بحران نے جنم لیا ہے مجھے اس حوالے سے انگنت فون کالز موصول ہوئی ہیں۔ حیرت ہے کہ حقائق جاننے اور ایک آزاد و مضبوط میڈیا کی موجودگی میں لوگوں کو ادھر ادھر سے پوچھنے کی ضرورت کیوں پڑتی ہے، پھر افسران کی موجودہ لاٹ یا تو میری ملازمت کے دوران بہت جونیئر تھی یا ابھی سروس میں ہی نہیں آئی تھی، چنانچہ میں ان میں سے کسی کو بھی ذاتی طور پر نہیں جانتا۔ الحمدللہ میں نے37برس نوکری کی، ایوب خان کے دور میں مقابلے کا امتحان پاس کرکے سروس میں آیا اور سروس میں آنے سے قبل گورنمنٹ کالج لاہور میں پڑھارہا تھا، اگر محکمہ تعلیم کے حالات دگرگوں نہ ہوتے تو شاید زندگی پڑھنے پڑھانے میں گزار دیتا لیکن لیکچرار شپ ترک کرنے کا صرف اتنا سا نقصان ہوا کہ پڑھانے سے گیا البتہ پڑھنا اور کتابیں عمر بھر میرے ساتھ رہیں اوربہترین رفیق ثابت ہوئیں۔ کرسی کو بےپناہ خوشامدی اور وقتی وفادار مل جاتے ہیں اور زندگی کے سفر میں اللہ پاک کچھ مخلص دوستوں کی محبتیں بھی دامن میں ڈال دیتے ہیں لیکن تجربہ شاہد ہے کہ کتاب سے زیادہ نہ کوئی وفادار دوست ہوتا ہے اور نہ ہی کوئی مخلص ساتھی۔ یہ بے زبان ہر حال میں کچھ سکھاتی، کچھ علم میں اضافہ کرتی اور کبھی کبھی ذہن کے گوشوں کو منور کردیتی ہے لیکن نہ کبھی شکایت کرتی ہے نہ مطلب براری کے بعد ساتھ چھوڑتی ہے۔ مجھے کتاب کی صرف ایک ہی ادا ناپسند ہے وہ یہ کہ کتاب چپکے سے اغوا ہوجاتی ہے، احتجاج نہیں کرتی اور عام طور پر واپسی کا راستہ بھول جاتی ہے۔ اس کتاب اور میرے اسکول کے اساتذہ نے نوعمری میں ایک بات میرے ذہن میں کوٹ کوٹ کر بھر دی تھی کہ اگر زندگی کا سکون، دل کی راحت، گہری نیند، بےفکری اور بڑھاپے کو پرمسرت، بے خوف اور ذہنی آسودگی سے گزارنا چاہتے ہو تو اس کا راز رزق حلال میں مضمر ہے۔ چاہتے ہو اولاد اللہ پاک کا انعام ثابت ہو تو اس کا راز رزق حلال میں پوشیدہ ہے۔ میں ہر انسان کی مانند کمزور انسان ہو ں لیکن اللہ کا کرم تھا کہ امتحانات اور آزمائشوں کی گھاٹیوں سے نظر اٹھائے بغیر آرام اور استقامت سے گزر گیا۔ یہ محض میرے رب کا فضل، میرے والدین کی دعائیں، خاندان کی حمایت، اساتذہ کی رہنمائی اور کچھ اولیاءکرام کی نظر تھی کہ عمر بھر رزق حلال کھایا، اگر حاکموں نے کبھی مشورہ مانگا تو نہایت خلوص اور ایمانداری سے مشورہ دیا جو اکثر ان کی ناپسندیدگی اور ناراضی کا باعث بنا۔ خدا گواہ ہے دربار داری سے ہمیشہ اجتناب کیا اور شاید یہی وجہ ہے کہ 37سال کی بےداغ سروس ،قومی اور بین الاقوامی تجربے اور ریسرچ ورک کے باوجود ریٹائرمنٹ کے بعد نہ کوئی سرکاری نوکری کی آفر ہوئی اور نہ کبھی توسیع کا خواب دیکھا۔ محترمہ بینظیر بھٹو سے لے کر جنرل ضیاء الحق اور جنرل مشرف کے زیر عتاب رہا لیکن آج تک کسی حکمران نے دامن پر انگلی نہ اٹھائی، ہمیشہ میری تحریریں اور قلم میرے لئے عتاب کا باعث بنتے رہے۔ نہ جانے کیا ہوا کہ بی بی کو مجھ سے زندگی بھر ملے بغیر آخری ایام میں تھوڑی سی ہمدردی سی ہوگئی تھی۔ ان کے قریبی ایک دو حضرات سے پتہ چلا کہ انہیں میرے ساتھ دوبار زیادتی کرنے کا معمولی افسوس تھا۔ ضیاء الحق صاحب نے اقتدار میں آتے ہی مجھے خوب رگڑا دیا اور زندگی کے آخری برسوں میں بےحد مہربان ہوکر اس کا خمیازہ ادا کردیا۔ جنرل رفاقت جنرل ضیاء کے قریبی اور سرکاری مشیر تھے۔ ضیاء الحق کی شہادت کے کئی برس بعد ایک بار ان کا فون آیا۔ کہنے لگےتم ہر وقت جنرل ضیاء الحق کی پالیسیوں پر تنقید کرتے ہو لیکن وہ شخص تمہیں اتنا پسند کرتا تھا کہ اس نے تمہیں اپنا انفارمیشن مشیر مقرر کرنے کا فیصلہ کرلیا تھا۔ تمہاری تقرری کی نوٹیفکیشن ایک دن تاخیر کا شکار ہوگئی کیونکہ اللہ پاک کو تمہیں زندہ رکھنا مقصود تھا۔ ایک دن پہلے میں نوٹیفکیشن جاری کردیتا تو جنرل صاحب کے ساتھ جہاز میں تمہیں ان کے ساتھ بہاولپور جانا تھا۔ میں ان کی بات سن کر حیرت زدہ رہ گیا اور سوچتا رہا کہ قدرت کے فیصلے بھی نرالے ہوتے ہیں اور موت کا ایک وقت مقرر ہے۔ نہ موت وقت مقررہ سے ایک منٹ پہلے آتی ہے نہ ایک منٹ تاخیر سے۔ پھر زندگی کے سفر میں ڈر کاہے کا۔ اطمینان سے، ایمانداری سے، بلاخوف زندگی گزارو اور ہر لمحہ اپنے آپ کو خدا کے سامنے جوابدہ محسوس کرو۔ دنیا کے حساب یہیں رہ جائیں گے اور خاک میں مل جائیں گے۔ خدا کے سامنے جوابدہی کا حساب سرخروئی کا باعث بنے گا۔ آج ساڑھے سات دہائیاں گزارنے کے بعد پیچھے مڑ کر دیکھتا ہوں تو یہ احساس تسکین کا باعث بنتا ہے کہ نہ رزق میں حرام کا دانہ شامل ہونے دیا نہ جان بوجھ کر کسی سے بے انصافی، زیادتی، اختیارات کا غلط استعمال اور انتقام لینے کا سوچا، کوشش کی جہاں تک ممکن ہو اور جائز ہو لوگوں کی مدد کی جا ئے۔ ظاہر ہے کہ بہت سے لوگ ناراض بھی ہیں اور ناخوش بھی لیکن میرا حاصل زندگی کیا ہے، قلبی سکون اور اللہ پاک کی نعمتوں کا ہر لمحہ شکر۔ بیماریاں اور تکالیف آزمائشیں ہیں اور نبیوں کے علاوہ اللہ کے برگزیدہ بندوں کو بھی ان سے گزرنا پڑا لیکن سچ یہ ہے کہ قلبی سکون، ذہنی آسودگی ا ور باطن کی سفلی جذبات سے پاکیزگی اللہ پاک کی اتنی بڑی نعمتیں ہیں کہ ان کے سامنے قارون کے خزانے اور سلطنتوں کی بادشاہتیں بھی ہیچ ہیں۔ معاف کیجئے بات چلی تھی کہیں اور سے اور میرا راہوار قلم مجھے کہیں اور لے گیا۔ کیا آپ اپنی نگاہوں کے سامنے نہیں دیکھ رہے کہ اللہ پاک کی پکڑ کتنی سخت ہوتی ہے اور اعمال بد کبھی نہ کبھی پکڑ میں آجاتے ہیں۔ انسان ہزار حیلے ،طریقے، احتیاطیں کرے لیکن کبھی نہ کبھی دراز ہوتی رسی کھینچ لی جاتی ہے اور انسان وہاں گرتا ہے جہاں کوئی پیچ و خم بھی نہیں تھا۔ میری زندگی کا تجربہ شہادت دیتا ہے کہ معصوم کا خون ضرور بولتا ہے، قوم کا لوٹا ہوا خزانہ ضرور حساب مانگتا ہے، اولاد آدم کی تذلیل ضرور تذلیل کا باعث بنتی ہے، حرام کی کمائی کئی نسلوں کو ’’حرام زادہ‘‘ بناجاتی ہے، بیوہ اور یتیم کا مارا ہوا حق اسی دنیا میں جہنم رسید کردیتا ہے۔ رہے حاکمان وقت تو میں نے اکثر حکمرانوں کو صرف اس لئے بے عزت ہوتے دیکھا کہ وہ ماتحتوں کو استعمال کرکے ٹشو پیپرز کی طرح پھینک دیتے تھے۔ وہ جاہ اور مطلب پرست تھے، ان کی نگاہوں میں انسانیت کیلئے مروت عنقا تھی اور ان کا خلوص صرف دولت سازی اور جاہ پرستی تک محدود تھا باقی سب ڈرامہ، ووٹ لینے کیلئے عوام کی نگاہوں میں دھول جھونکنا،کتابیں فرعون بادشاہ سے لے کر اکیسویں صدی کی بادشاہتوں کے انجام سے بھری پڑی ہیں لیکن اقتدار کا نشہ سبق سیکھنے کی توفیق نہیں دیتا۔
پنجاب کے افسرانہ بحران کے بارےکیا کہوں۔ میں تو پڑھ کر دنگ رہ جاتا ہوں کہ چند ہزار انگریزوں نے کروڑوں ہندوستانیوں پر سوسال سے زیادہ حکومت کی اور برصغیر کو اپنی غلامی کے شکنجے میں کسے رکھا۔ بہترین تحقیق کا حاصل یہ ہے کہ یہ کرامت انگریز کی وضح کردہ بیوروکریسی اور نظم و نسق کی تھی۔ اسی لئے بیوروکریسی کو انگریز اسٹیل فریم ورک کہتا تھا۔ انگریز کے دور میں ریاستی رٹ مضبوط، خاص حد تک قانون کی حکمرانی،
بیوروکریسی نیوٹرل اور بہت حد تک ایماندار تھی۔ قابل ترین ذہن مقابلے کے ذریعے منتخب کئے جاتے تھے اور ملازمین کو حکومتی سرپرستی اور سیکورٹی حاصل تھی۔ یہی انگریز کی کامیابی کا راز تھا۔ قائد اعظم نے قیام پاکستان کے بعد بیوروکریسی پر واضح کردیا تھا کہ وہ حکومتی ملازمین نہیں بلکہ ریاست کے ملازمین ہیں اور حکمرانوں کی پسند و ناپسند سے بالاتر انصاف اور قانون کے مطابق اپنے فرائض سرانجام دیں۔گزشتہ ساٹھ پینسٹھ سال میں حکمرانوں نے بیوروکریسی کو اپنے مفادات کے لئے استعمال کرنا شروع کیا تو یہ ادارہ دن بدن کمزور اور کرپٹ ہوتا چلا گیا۔ حکمران افسران کو نہ صرف انتخابات جیتنے کے لئے بلکہ مخالفین کو بھی دبانے کے لئے فراخدلی سے استعمال کرتے رہے۔ بھٹو حکومت نے سرکاری افسران کے سروں سے سیکورٹی کی چھت اڑا کر انہیں حکمرانوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا جس سے افسران میںدھڑے بندی کا رجحان پیدا ہوا اور کچھ افسران حکمرانوں کی آنکھ کا تارہ اور ہاتھوں کی چھڑی بن گئے۔ فوجی حکمرانوں کا تصور محض یہ تھا کہ بیوروکریسی حکمرانوں کے ہاتھوں میں بھرا ہوا پستول ہوتی ہے جسے جہاں چاہیں چلایا جاسکتا ہے۔ گزشتہ تین دہائیوں سے بیوروکریسی دھڑوں میں تقسیم ہوچکی ہے۔ کچھ حکمرانوں کے درباری، خوشامدی اور ذاتی وفادار بن چکے ہیں اور کچھ مایوس ہو کر حوصلے ہار چکے ہیں۔ کرپشن کے سمندر بہہ رہے ہیں، قوم کو ہر طرح لوٹا جارہا ہے، جتنے قرضے حکومتوں نے لئے ہیں ان سے پاکستان کو مسائل فری خوشحال ملک بنایا جاسکتا تھا لیکن نہ جانے وہ کہاں گئے البتہ قوم قرضوں کے بوجھ تلے دبتی چلی گئی۔ اس دربارداری، بے انصافی، اقرباپروری اور کرپشن نے بیوروکریسی کا ادارہ تباہ کردیا ہے۔ نتیجہ مسائل کے انبار، عوام کی تکالیف میں بےحد اضافے، جرائم میں ناقابل تصور اضافے اور نالائق، سفارشی اور بداعتماد بیوروکریسی، معاشرہ لاقانونیت میں دب رہا ہے۔ طویل حکمرانی کے باوجود افسران کے وعدہ معاف گواہ بننے کا خوف اور افسران میں ہر قیمت پر شاندار پوسٹنگ حاصل کرنے کے مقابلے نے ادارے کو کمزور کردیا ہے۔
نوکر شاہی کے ادارے کی تباہی کا ذکر کرتا ہوں تو اس خیال کے آتے ہی دل مایوسی میں ڈوبنے لگتا ہے کہ آخر ہمارے خود غرض، مغرور اور بےبصیرت حکمرانوں کے ہاتھوں کون سا قومی ادارہ تباہی سے بچا ہے؟ ایک بھی نہیں۔ ہم کئی دہائیوں سے تنزل کا سفر کیوںطے کررہے ہیں، ذرا اپنے دلوں کو ٹٹولئے اور اس سوال کا جواب تلاش کیجئے، مجھے تو جواب معلوم ہے لیکن مجھے آپ کا جواب چاہئے۔

تازہ ترین