• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جوتا کلب کے نئے ممبر احسن اقبال نے اسلام آباد میں ماڈل جیل کا سنگ بنیاد رکھ دیا ہے جبکہ خواجہ آصف کے ساتھ سیالکوٹ میں چند نوجوانوں نے ’’والہانہ‘‘ عقیدت کا اظہار کیا ہے۔ جیل سے یاد آیا کہ آج کل اڈیالہ جیل میں صفائیاں جاری ہیں، کچھ خاص کمرے تیار ہو رہے ہیں، یہ خاص کمرے ان ’’سپیشل لوگوں‘‘ کے لئے ہیں جنہوں نے بڑے دل کے ساتھ ملک و قوم کو لوٹا، اس سلسلے میں انہوں نے کھلے دل کا مظاہرہ کیا تھا۔
پاکستان پر اللہ کا خاص کرم ہوا ہے کہ یہاں لٹیروں کے گرد گھیرا تنگ ہو رہا ہے، لگتا ہے قوم کی دعائیں رنگ لائی ہیں، ایک عرصے سے عام پاکستانی یہ چاہتے تھے کہ ان کے ملک کو لوٹنے والوں کا حساب ہو۔ اسی لئے تو پوری قوم بابے رحمتے کے ساتھ کھڑی ہے، سارا پاکستان اپنے بابے کے ساتھ ہے۔ گزشتہ روز بھی بابا رحمتا، آمدن سے زائد اثاثے رکھنے والے بیورو کریٹ سے رولز پوچھتا رہا، حالیہ دور میں گورکھ دھندے کے وارث بیورو کریٹ کو عدالت میں قانون کی کتاب بھی دی گئی، اُسے کہا گیا کہ ’’رولز تو دکھا دو، جو کچھ کرتے رہے ہو، وہ قانون کی کتاب سے دکھائو۔‘‘ یہ وہی بیورو کریٹ ہے جو اکثر وفاقی وزراء اور ایم این ایز کو بے عزت کرتا رہا مگر اس دوران عوامی نمائندوں کی توہین نہیں ہوتی تھی۔ وقت کتنی تیزی سے بدلتا ہے جو شخص کل تک لوگوں کو بے عزت کرتا تھا، گزشتہ روز عدالت میں بابے رحمتے نے اس کی سرزنش کی، اسے کہا ’’کھڑے ہو جائو، اپنا نام بتائو، کون ہو تم‘‘ زبانی احکامات پر عمل کرنے والا ڈر کر، بہت سہم کر بول رہا تھا ’’میرا نام فواد حسن فواد ہے‘‘۔
خواتین و حضرات! یہ وہی فواد حسن فواد ہے جس کے بارے میں مقبول ترین سیاسی ترجمان فواد چوہدری کہتے ہیں کہ ’’شاہد خاقان عباسی تو کاغذی وزیراعظم ہیں، اصلی وزیر اعظم فواد حسن فواد ہیں اور وہ جاتی امرا سے ہدایات لیتے ہیں۔‘‘ فواد چوہدری نے نام کا لحاظ کئے بغیر فواد حسن فواد کو بیورو کریسی کے مافیا کا گاڈ فادر قرار دیا ہے۔ ہماری پی ٹی آئی ترجمان سے گزارش ہے کہ ہمیں اس ہدایت کار کا نام بھی بتا دیں جو فواد حسن فواد کو ہدایات دیتا ہے چونکہ فلم کی کامیابی یا ناکامی کا دار و مدار ہدایت کار پر ہوتا ہے۔
احد چیمہ کی گرفتاری تو آپ کے علم میں ہو گی۔ اس گرفتاری کے ساتھ ہی پتہ نہیں کس کس کے پیٹ میں مروڑ اٹھے، ایسا لگ رہا تھا کہ ایک گرفتاری سے صرف اہلیانِ جاتی امرا ہی نہیں پوری سلطنت پریشان ہو گئی ہے۔ حکومتی سطح پر کوشش کی گئی کہ بیورو کریٹس ہڑتال کر دیں، فواد حسن فواد کی تمام تر جادوگری کے باوجود صرف تیس افسران اس کا حصہ بننے کو تیار ہوئے، اب ان افسران کے بارے میں کہیں نہ کہیں تحقیقات ہو رہی ہیں، ان کے بارے میں ایک درخواست لاہور ہائیکورٹ میں ہے۔ آپ کو حیرت ہو گی کہ جب بیورو کریٹس کو حکومتی سطح پر کہا جا رہا تھا کہ ہڑتال کر دو تو عین اسی وقت پاکستان سے محبت کرنے والے کئی سابق ملٹری و سول افسران نے یہ یقین دہانی کروائی کہ ’’ہم کام کریں گے، ہم کام کا معاوضہ بھی نہیں لیں گے، ہم پاکستان کے لئے خدمات انجام دیں گے، بس ہماری دلی خواہش ہے کہ ہمارے ملک سے کرپشن کا راج ختم ہو جائے۔ ‘‘ لگے ہاتھوں آپ کو یہ بھی بتاتا چلوں کہ جب انتظامیہ کو نیب کے خلاف اکسایا جا رہا تھا تو اس دوران نیب نے وزارت داخلہ سے مدد مانگی، گزارش کی کہ نیب کے دفاتر کی حفاظت کے لئے رینجرز کی تعیناتی چاہئے، انکار ہوا تو پھر نیب نے کہیں اور گزارش کر دی پھر رینجرز کی تعیناتی ہو گئی۔ جب ہڑتالوں کا سوچنے والے بیورو کریٹس کو یہ پتہ چلا کہ ایوبی دور کے قوانین کے تحت ایسے بیورو کریٹس کو نہ صرف برطرف کیا جا سکتا ہے بلکہ انہیں برطرف کر کے تین سال سے لے کر عمرقید تک کی سزا ہو سکتی ہے تو بس پھر اس کے بعد ساری ’’پھوک‘‘ (ہوا) نکل گئی۔ اب چور لٹیرے ہر طرف سے پریشان ہیں، پریشانی کا لامتناہی سلسلہ رکنے ہی نہیں پا رہا۔ چیخ و پکار بھی کام نہیں آرہی، ن لیگ کا جو بیانیہ مقبول ہو رہا ہے اس کا ایک مظاہرہ وزیر داخلہ احسن اقبال اپنے حلقے میں دیکھ چکے ہیں، مقبولیت کی دوسری تصویر خواجہ آصف نے دیکھی ہے۔
اکیس فروری کے عدالتی حکم نامے کے بعد ان چہروں پر خزاں طاری ہے جو عدلیہ کی مسلسل توہین کر رہے ہیں۔ احد چیمہ کی گرفتاری کے بعد بیورو کریٹس کا اجلاس بھی ویسا ہی ثابت ہوا جیسا قومی اسمبلی کا حالیہ اجلاس تھا۔ وہ اجلاس بھی ترامیم کے بغیر ہی اس طرح ختم کرنا پڑا جیسے بغیر چھت کے سکولوں میں بادل آنے پر چھٹی کر دی جاتی ہے۔ عدالت کی توہین کرنے والوں کا ایک اور خواب بھی بکھرتا جا رہا ہے مگر وہ بضد ہیں کہ ان کا خواب پورا ہو، وہ چاہتے ہیں فسادات ہوں، ہنگامے ہوں، افراتفری ہو تاکہ ان کا خائن لیڈر کرپشن کی سزا سے بچ جائے۔ لیڈر کی بھی کوشش ہے کہ بھلے توہین عدالت میں سزا ہو جائے، ملک دشمنی میں سزا ہو جائے مگر کرپشن میں سزا نہ ہو۔ اسی لئے تو 28جولائی سے شروع ہونے والی ’’اقامہ گردان‘‘ آج تک جاری ہے۔ میں اس پر تو کوئی تبصرہ نہیں کروں گا کہ ’’نواز شریف ایک نشہ ہے‘‘ کیونکہ نشہ حرام ہے۔ البتہ مجھے عدلیہ کے خلاف مہم پر حیرت کے ساتھ افسوس بھی ہے۔ مریم نواز اپنی سیاسی زندگی کے افتتاحی اور اختتامی دنوں میں عدلیہ پر حملے کر رہی ہیں، انہوں نے جو کچھ سرگودھا میں کہا اسے قوم کی ہمدردی حاصل نہیں۔ شیخ رشید کے بقول جاتی امرا کی حسینہ واجد فرماتی ہیں ’’منصف بنو، مدعی یا حکمران نہیں، نواز شریف پارٹی صدر رہیں گے، اگلے وزیر اعظم بھی ہوں گے، عوام حاکم، منصف نہیں، حساب کرو، انتقام مت لو، سیاسی لڑائی میں اداروں کو نہ گھسیٹو، اپنا اپنا کام کرو، خطرناک لڑائی مت لڑو، عدل اور پاکستان کا نقصان ہو گا، اثاثوں کا نہ پوچھو کرپشن دکھائو، پاناما کا پانچ رکنی سکواڈ نواز شریف کے خلاف ہر وقت تیار رہتا ہے۔ شاباش منصفو، واہ کیسا انصاف کیا؟‘‘ واہ مریم نواز، کیا اندازِ گفتگو ہے، اس پر جاہلوں کا ہجوم تو خوش ہو سکتا ہے، مہذب لوگ افسوس ہی کر سکتے ہیں۔ آپ کی زندگی کے حوالے سے ڈاکٹر یاسمین راشد بتاتی ہیں کہ کس طرح آپ نے امتحانات دیئے، کیسے کیسے آپ کے داخلے ہوئے اپنا ماضی کسی روز آئینے میں دیکھ لیں۔
خواتین و حضرات! ایک لمحے کے لئے رکیے اور ذرا سوچیے کہ اگر ہم اپنے اداروں کا احترام نہیں کریں گے تو کون کرے گا، اگر ہم کرپشن کی نفی نہیں کریں گے تو کون کرے گا، یاد رکھو یہ اداروں کی توہین نہیں، یہ پاکستان کی توہین ہے کہ ایک جماعت کے لوگ عدلیہ پر حرف زنی کرتے ہیں مگر ایسے لوگ کبھی بھی کامیاب نہیں ہوں گے کیونکہ پوری قوم عدالت کے ساتھ ہے، اپنے اداروں کے ساتھ ہے جو لوگ بابے رحمتے کا مذاق اڑانے کی کوشش کرتے ہیں انہیں یاد رکھنا چاہئے کہ ان کے ملک پر بابے رحمتے کی صورت میں رحمت برس رہی ہے، اگر یہ رحمت نہ ہوتی تو ابھی تک لوٹ مار کا کھیل جاری رہتا، ظالمانہ نظام کے بچہ سقہ راج کر رہے ہوتے، بس ظلم کا راج ختم ہونے والا ہے، ظلم کا چراغ رحمت کی بارش کے سامنے ٹمٹمانے کی کوشش کر رہا ہے مگر یہ چراغ بجھ جائے گا، پاکستان کو لوٹنے والا کوئی نہیں بچے گا۔ چوروں کی نئی دلیل دیکھئے کہ اثاثوں کا نہ پوچھو، کرپشن بتائو۔ یاد رکھو حضرت عمر فاروقؓ کو صرف ایک اضافی چادر کا حساب دینا پڑا تھا، اثاثوں کا حساب دینا پڑتا ہے، بار ثبوت فراہم کرنا پڑتا ہے اور اثاثے ایسے ہی تو نہیں بن جاتے، جیسے 2011ء میں مریم نواز کے پاس کچھ نہیں تھا مگر 2017ءمیں ان کے اثاثے ایک ارب کے لگ بھگ پہنچ گئے۔ 2011ء اور 2017ء کا فرق خود مریم نواز نے بیان کیا، قوم ان سے پوچھتی ہے یہ اثاثے کیسے بن گئے۔ بقول غالب
یہ مسائل تصوف، یہ ترا بیان غالبؔ
تجھے ہم ولی سمجھتے، جو نہ بادہ خوار ہوتا

تازہ ترین