• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

7عشروں کے بعد بالآخر قیام پاکستان کے مطلوب نتائج حاصل کرنے اور 21کروڑ پاکستانیوں کے بنیادی حقوق کی بازیابی (بمطابق آئین)کی کامیابی کا وقت آہی گیا۔ مارسر گنج خزانے پر بیٹھے سانپ کی تڑپ اور ریاستی نظام کے مقابل اپنے تباہ کن کنٹرول کی ڈھیلی پڑتی گرفت سے اسٹیٹس کو کا اعتماد و اطمینان کم ہوتا خطرے ، خدشے اور بوکھلاہٹ میں تبدیل ہو رہا ہے۔ ’’آئین کے مکمل اور قانون کے یکساں اطلاق‘‘ کی جانب ابتدائی سفر میں ہی عوام دشمن نظام بدتشکیل دینے والوں اور ان کے ناجائز اور غیر معمولی بینی فشریز کی چیخ و پکار عبرتناک نہیں؟پھر اتنی سبق آموز کہ سب پڑھ سکیں، سمجھ لیں اور اپنے رویے نئے تقاضوں کے مطابق تبدیل کر لیں تو اس کا مطلب ہو گا کہ قوم صراط مستقیم پر چل پڑی۔عندیے فقط اشارے نہیں ۔ نوشتہ دیوار بہت واضح ہے۔
جو مطلوب ہے کیا اس کا آغاز نہیں ہو گیا؟ ہو گیا عدلیہ کے اعتماد اور سکت میں اضافہ، احتساب کا بے رحمانہ عمل بمطابق آئین و قانون، قانون شکنوں کی سرکوبی، گورننس کی کڑی مانیٹرنگ، تنقید کے ساتھ میڈیا اور اپوزیشن کا مطلوب تعاون بھی، سوئے اور بھٹکے ادارے انگڑایاں لیتے، اپنے آئینی کردار کی طرف لوٹتے معلوم دے رہے ہیں، جنہوں نے اپنے قانونی کردار کو حکمرانوں کی اغراض کے لئے لپیٹ دیا تھا، وہ اب آئین و قانون کو آئینی فقط مدت پوری کرنے اور انتخاب کے انعقاد (ان میں بھی بے ایمانی) تک محدود نہ رکھ سکیں گے، صاف نظر آ رہا ہے کہ اسٹیٹس کو کے پیروکاروں کو ادھورے آئین دوہرے قانون اور مرضی کی گورننس میں امان ملتی نظر نہیں آ رہی ۔ نہ یہدھندہ اب چلے گا ۔
بدعنوانی، رشوت، گھپلے ، کک بیکس ہزاروں سے لاکھوں ، لاکھوں سے کروڑوں اور کروڑوں سے اربوں میں تبدیل ہو گئے اور یہ اربوں اب ہزاروں میں ہیں۔بے نقاب اس کا لے سرمایے کے قانونی جواز پر قانون کی عدالتوں میں سوالات کی بوچھاڑ ہو چکی۔ اب بھی عدلیہ اور میڈیا میں جاری ہے لیکن جواب ندارد۔ مقدس ایوان میں جو گھڑاگھڑایا مفصل جواب قوم کو دیا گیا تھا وہ بھی وکیل صاحب نے دوران سماعت عدالت میں ’’سیاسی‘‘ قرار دیدیا ۔ یعنی جس طرح ہماری سیاست بے اعتبار ہے اسے بھی ایسے ہی سمجھا جائے، ایسے میں ایوان کا تقدس مجروح نہیںہوا؟بھلا قائد کے ہاتھوں زخمی پارلیمان مقدس کیسے ہو گی؟ قائد ایوان ہی اسے مجروح کر ے تو وہ یہ اعتماد پکڑتی سرگرم عدلیہ کے مقابل کیسے زیادہ مقدم ہو گی؟جلسہ ہائے عام میں اس جواب کی کتنی آئینی اور قانونی حیثیت ہے کہ ’’اصل عدلیہ 5ججز کی نہیں ووٹر کی ہے‘‘۔
اور یہ جو اربوں کھربوں کی لوٹ مار پر نیب اپنے آئینی کردار کے مطابق فعال اور سرگرم ہوئی ہے ، قوم و ملک اور جمہوریت کو یہ ہی مطلوب ہے یا سیف الرحمن ماڈل کا نیب؟ جسے آزاد اخبارات کا گلا گھوٹنے کا ٹھیکہ بھی دیا گیا تھا۔
قارئین گرامی! آج آئین و قانون کے طلوع ہوتے خورشید کی ابتدائی اور دھیمی کرنوں کی روشنی سے ہی اسٹیٹس کو کا وہ گند نظر آنے لگا ہے جسے سیاسی مجمعوں میں اچھال اچھال کر اس کے پجاری ایسا تعفن پیدا کر رہے ہیں کہ شاید عدل و انصاف اور احتساب کے ذرائع گھبرا کر اپنی سرگرمی ، جاری آئینی کردار اور طویل مجرمانہ خاموشی و بے بسی و غفلت کے ادا ہوتے کفارے کو ختم یا کم از کم،کم تر کر دیں۔ لیکن اسٹیٹس کو جس دیدہ دلیری اور تکبر سے اپنا اصل دکھا رہا ہے، اس میں اس کی گنجائش کم ہوتے ہوتے ختم ہوتی جا رہی ہے ۔ لگتا نہیں کہ عبرت کے سامان کے سوا کچھ بچے گا۔
مظلومین پاکستان! دیکھود یکھو کیا کیا مطلوب تھا؟اور کیا کیا ہو رہا ہے۔ عدلیہ با اعتماد اور فعال ، میڈیا کی آنکھ عقابی، فوج دیرینہ اور نئے مشکل فرائض کی ادائیگی میں کمال کی سکت کے ساتھ اپنی ہی راہ پر، لفافے بے اثر، احتسابی عمل جاری، ساز باز بابائوں میں کھلبلی ، مورثی سیاست کی وارث فقط سماجی پسماندگی، وہ بھی صرف وسطی پنجاب کی قانون کی عدالت میں کرپشن پر کارروائی سے بلند ہوتی عبرتناک چیخ و پکار۔
دیکھو دیکھو!یہ کیا ہے، وہ جو بغیر کسی جنگ و جہد اور شکست و فتح والے فن خوشامد کے شاہکاروں اور وفا شعاروں کو طاقتور نجات دہندگان نے ہماری سلطنت کا سلطان بنایا تھا وہ فقط دولت دیوتا ہی بنے اور اب اپنے گھڑے ارب پتی باوفابابائوں کے سلطانی گواہ بننے کے خوف میں مبتلا ہیں۔ اللہ تیری شان،لیکن سماجی پسماندگی کے دلدل میں یہ اب بھی شیر ہیں۔سو، احتسابی عمل کو ریورس کرنے کے لئے محتسبوں کو یہ آوازیں تو سننی پڑیں گی ۔ دیکھو دیکھو کون آیا۔شیر آیا شیر آیا۔
ذرا غور فرمائیں! کون جانتا تھا کہ آئین و قانون کی طاقت سے ہمارے جج صاحبان اتنے بااختیار ہو جائیں گے کہ اسٹیٹس کو کے بذریعہ ووٹ بنے گئے وزراء اعظم ان کی عدالتوں میں حاضر ہو کر اقتدار کھوئیں گے اور ان سے ان کے خلاف آئین وقانون و حلف کا حساب لیا جائے گا۔ جب یہ اپنے اپنے اعلیٰ ترین منصب سے بمطابق قانون علیحدہ کئے گئے تو پارلیمان قائم رہی، انہی کی جماعتوں کی حکومت اور سیاسی جمہوری عمل برقرار ہے تو نفاذ قانون اور آئین کی عملداری سےاستحکام تو پیدا ہو گیا۔یہ ان کا اپنا جماعتی اور نئے وزیر اعظم کی سکت اور ذہنیت کا معاملہ تھا اور ہے کہ نیا وزیر اعظم خود کو آئینی وزیر اعظم جانے یا فقط خاندان کا ملازم، اقتدار کا خلاءنہ کسی روایتی نجات دہندہ سے پر ہوا نہ کسی سازش سے۔پس منظر میں کوئی چھانگا مانگا نہ سوات۔ اکثریتی جماعت ہی مقتدر ٹھہری تو پھر کیسی سازش کیسا انتقام اور کیسا بغض، سب کچھ آئینی اور قانونی ہے۔ آئین کی مکمل بالادستی ابھی نہ سہی راہ تو ادھر ہی کی ہے عدلیہ کے بعد جس طرح نیب سرگرم اور فعال ہوا ہے۔ دونوں سپریم کورٹ اور نیب کو سلام۔
بلاشبہ آج آئین متفقہ ہے، جمہوری اور اسلامی بھی، بگڑا حلیہ درست ہوا اور بڑی عرق ریزی کے بعد۔ کیاحکومت اور کیا اپوزیشن، قومی اور علاقائی پارلیمانی قوتیں آئین پر حتمی نظر ثانی کے بعد اس سے متفق اور اس پر متحدہیں تو اس کی بالادستی پھر کیوں نہ ہو۔ لیکن احتسابی عمل سے خوفزدہ اسٹیٹس کو غیر معمولی دیدہ دلیری ہٹ دھرمی اور خود غرضی سے ، خود ہی اپنی اور خاندان کی پرستش کرتا آئین و قانون کی راہ میں ڈریگن (بلا) بن کر آئینی عمل میں رکاوٹ بنتا ہے تو ریاست ، قوم اور آئین کے مقابل اس کی طاقت اتنی نہیں ہو سکتی کہ وہ ہر حالت میں اپنی ہی ناقابل قبول حالت کو منوا لے۔ زمانہ بدل گیا۔ اب نہ ڈوگر عدلیہ نہ قیومی اور نہ ہی سیف الرحمن ماڈل نیب ۔ وما علینا الالبلاغ۔

تازہ ترین