ہم تباہ و برباد ہوگئے۔ اخلاقی طور پر کنگال ہوگئے۔ مالی بدحالی کا شکار ہوگئے۔ ہمارے رہنما رہبر سے رہزن بن گئے۔ منصف مصلحتوں، ذاتی رنجشوں، انا کے گرداب سے دو چار ہوگئے۔ امید مایوسی میں بدل گئی۔ روشنی کی کرنیں مدھم پڑ گئیں، ہر سُو اندھیرا ہی اندھیرا ہے، تباہی ہے، مگر کوئی سمجھنے کو تیار نہیں۔ وہ وقت قریب ہے جب تخت و تاج اُچھالے جائیں گے، ہر طرف افراتفری ہوگی، کوئی کسی کا ہمدرد ہوگا نہ خیر خواہ۔ حالات کی سنگینی اپنی انتہاکو چُھو رہی ہے۔ یہ سالوں ، مہینوں، دنوں نہیں اب لمحوں کا کھیل ہے جو اپنے انجام کو پہنچنے جا رہا ہے۔ دشمن کی سب چالیں کامیاب ہوگئیں مگر ہمیں ہوش نہ آیا، ہماری اقتصادی ناکہ بندی کاایسا شکنجہ کس دیا گیاکہ سانس لینا بھی دشوار ہوگیا۔ اب کسی شریف کا بیانیہ بکے گا نہ عمران کی ہٹ دھرمی کسی کام آئے گی۔ زرداری کی چالیںبادی النظر میں ہر سُو پھیلی نظر آئیں گی مگر سب خواب ادھورے رہ جائیں گے ۔پھر یہ سیاستدان ہوں گے اور عدالتی نظام ہوگا۔
سیاست سے نفرت کی ایسی فضا ہوگی کہ توبہ استغفار۔ یہ کیسا نظام چل رہا ہے یہ کیسا عروج و زوال ہے کہ کل کے شاہ آج کے گدا بنے گلی گلی پھر رہے ہیں۔ یہ اللہ کی لاٹھی چل رہی ہے جو بڑی بے آواز ہے، یہ پیغام ہے ہوش والوں کے لئے جو لاالہ الا اللہ کے نام پر بننے والے پاکستان کی خاطر راتوں کو اٹھ اٹھ کرروتے ہیں مگر کوئی راہ سجھائی نہیں دیتی۔ یہ کیسا دور چل رہا ہے کہ ہماری دعائیں بھی بے اثر ہو گئیں اور آوازیں دیواروں سے ٹکرا کر واپس آنے لگیں، ہم فضائوں میں مدھر سُر بکھیرنے نکلے تھے مگر بے سروپا شور شرابے کے بوجھ تلے دبتے چلے گئے، کوئی بھی یہ سمجھنے کو تیار نہیں کہ جو بو رہے ہیں آخر کار وہی کاٹنا پڑے گا۔ پارلیمنٹ ہو یا کوئی قومی ادارہ ، کوئی بھی غلط فیصلہ ہمیں عشروں پیچھے دھکیل سکتا ہے۔ سب تلواریں نیام سے نکالے اپنے احترام کی فکر سے دوچار اور آئین کی پاسداری کے دعوے دار ہیں مگر ماضی کچھ اور ہی کہانی سناتا ہے۔ ہم ریزہ ریزہ بکھر کر ہوائوں میں تحلیل، بے وزن اور بے رنگ و بو ہو رہے ہیں۔ہم رہنمائوں کی بجائے سیاسی کار پردازوں کے ہتھے چڑھ چکے ہیں۔ عدالتی فیصلوں پر ایک طرف جشن منائے جارہے ہیں تو دوسری طرف صف ماتم بچھی ہے۔ پارٹی صدارت سے بھی نواز شریف کی نااہلی کے بعد تصادم، ٹکرائو اور محاذ آرائی کی جو گہری آلودہ فضا بنی ہے اگر وہ اپنے لوازمات کے ساتھ موجود رہی تو اس کی سڑاند پورے معاشرے کو متعفن کردے گی۔ دوسری طرف اپنے ’’ریمارکس‘‘ پر وضاحتیں پیش کرنے کو سیانے مسلم لیگ ن کی فتح قرار دے رہے ہیں۔ یاد رکھئے کوئی بھی ادارہ اپنے قدموں پر اسی وقت مضبوطی سے کھڑا رہ سکتا ہے جب وہ آئین کے مطابق اپنے دائرہ کار کے اندر فرائض کی انجام دہی یقینی بنائے، چادر سے باہر پائوں پھیلانا ’’آبیل مجھے مار‘‘ کا عملی مظاہرہ ہوگا۔ جو ماحول بن رہا ہے اس میں ذاتی رنجش اور مخاصمت کی جھلک عیاں ہے اب تو پنجاب کی افسر شاہی کے جمبو جیٹ نے بھی میدان جنگ پر لینڈ کردیا ہے۔ بدترین محاذ آرائی کا جو خاکہ دکھائی دے رہا ہے اس میں سب اداروں کی ساکھ دائو پر لگی ہے۔ قومی اداروں کی عزت و ساکھ بچائے رکھنا دیوانوں کا کام نہیں یہ فہم و فہراست کے ساتھ کھلے دل کا کھیل ہے۔
حالات کی سنگینی میںہمارے رہنمائوں کی سنجیدگی کا اندازہ لگائیں کہ شعروشاعری، لطائف، جگت بازی کے دور چل رہے ہیں اور ہم عوام کو بھیڑ بکریوں کے ریوڑ کی طرح وہ جس طرف چاہتے ہیںہانکے جارہے ہیں۔ انتہائی قابل صداحترام منصفِ اعلیٰ عرض کرتے ہیں ؎
کُج شہر دے لوک وی ظالم سن
کُج سانوں مرن دا شوق وی سی
جواب آں غزل بہ زبان شریف لطیفہ عرض ہے
’’ایک گھوڑ ریس کے دوران ایک شخص سگریٹ کے کش پر کش لگائے پریشان کھڑا تھا۔ کسی نے پوچھا تم پریشان کیوں ہو، کیا تمہارا بھی کوئی گھوڑا ریس میں دوڑ رہا ہے تو اس شخص نے کہا جی ہاں! سوال کرنے والے نے پوچھا کونسا؟ پریشان شخص بولا،وہ گھوڑا جس نے سب گھوڑوں کو آگے لگا رکھاہے، یعنی سب سے پیچھے والا‘‘۔
جی ہاں میاں صاحب آپ نے بالکل ٹھیک فرمایا گزشتہ تقریباً پانچ سال میں آپ نے سب کو آگے لگائے رکھا۔ آپ آج اینگری مین کی طرح ’’مائی نیم از نواز شریف، آئی ایم ناٹ نااہل‘‘ پکار رہے ہیں۔ آپ سے صرف یہ پوچھنا ہے کہ جب آپ اہل تھے توکون سی اہلیت والے کام آپ نے سر انجام دیئے۔ وزارت خارجہ آپ کے پاس تھی کس ملک کے ساتھ آپ نے تعلقات کو استحکام بخشا۔ پاکستان کے دشمنوں نے آج ہمارے خلاف ایکا کرلیا ہے ہمارے قریبی دوست بھی اب ہمارے ازلی دشمن بھارت کی جھولی بھر رہے ہیں۔ میاں صاحب! آپ چار سال تک مودی کے سامنے ہاتھ باندھے خاموش کھڑے رہے۔ وہ ہندو بنیا پاکستان کے ساتھ کیا چال چل گیا کسی کو پتہ بھی نہیں چلا۔ عرب ممالک میں 14 سو سال بعد بتوں کی پرستش شروع ہوگئی۔ ایران کی بندرگاہیں لیز پر لے گیا۔ افغانستان میں پاکستان کے خلاف امریکہ کی اشیر باد سے پنجے گاڑ گیا۔ بنگلہ دیش میں پاکستان کے خلاف نفرت کی آگ بھر دی۔ امریکہ اور اسرائیل سے اسلام اور پاکستان دشمنی کے نام پر پیسے بھی لے گیا اور ہتھیار بھی، آج ہم دنیا بھر میں تنہا کھڑے ہیں۔ کہاں گئے وہ آپ کے عرب ممالک کے امن مشن، کیا ان کے نتائج یہی آنے تھے جو آج ہم دیکھ رہے ہیں۔ جہاں ملکی مفادات کی بجائے ذاتی کاروباری مفادات حکمرانوں کا شیوہ ہوں وہاں ایسا ہی ہوتا ہے۔ نتیجہ جن پر تکیہ کیا تھا وہ پتے بھی اب پیرس کی گلیوں میں ہوا دینے لگے ہیں۔ امریکہ کی تحریک پر ، برطانیہ کی اشیر باد سے فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) کے اجلاس میں پاکستان کا نام گرے لسٹ میں ڈالنے کی جو تحریک پیش کی گئی اور جس کے فیصلے کو دانستہ چھپانے کی کوشش کی جارہی ہے، اس میں ہمارے حلیف عرب دوست ملک جس کی عقیدت میں ہم ساری دنیا کی ناراضی کے باوجود فوجیں بھیجے جارہے ہیں ، اس نے بھی ہمارا ساتھ چھوڑ دیا۔ 36 ممالک میں سے ایک ترکی نے ہمارا ساتھ دیا اس پر بھی ہمارے وزیرخارجہ اور وزیرداخلہ بغلیں بجارہے ہیں۔ اب بھی عوام کو دھوکہ دیا جارہا ہے اپنی نا اہلی کو اہلیت میں بدلنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ ہنوز دلی دور است۔ اب حالات پلٹنے والے نہیں۔ تباہی سامنے کھڑی ہے۔ نیب دفاتر کے باہر رینجرز کی تعیناتی آنے والے وقت کا پیغام دے رہی ہے۔ سپریم کورٹ کے باہر بھی تماشا لگنے کا اندیشہ موجودہے۔ معزز جج صاحبان کے اختیارات کا سوال پارلیمنٹ میں اٹھے گا۔ مزاحمت ، ٹکرائو وکشیدگی کا ایسا ماحول ہوگا کہ وکلا ء بھی سڑکوں پر ہوں گے اور لیگی کارکن بھی۔ عدلیہ بحالی کے دعوے دار عدل بحالی کے نام پر ٹکرائو کی ایسی صورت حال پیدا کریں گے کہ ہر کوئی کانوں کو ہاتھ لگائے گا۔ ڈر ہے کہ سب کا ’’بولو رام‘‘ نہ ہو جائے۔ اب بھی وقت ہے سنبھل جائیں، راز داں کہتے ہیں اس بار عدلیہ کی بجائے نیب ن لیگ کا براہ راست نشانہ ہوگی۔ اگر بدقسمتی دامن گیر رہی اور ہم نے اب بھی آنکھ نہ کھولی اور وطن پرستی کے بجائے زر پرستی میں ہی الجھے رہے تو شاید ہمیں شاعرہ عرشی کی طرح یہی کہنا پڑے کہ
راہبر کی نہیں اب کوئی ضرورت عرشی
راہزن مل جو گیا راہ دکھانے کے لئے
اور راہزن کبھی سیدھی راہ نہیں دکھاتا پھر ہم یونہی اندھیروں میں ٹامک ٹوئیاں مارتے بھٹکتے رہیں گے۔