• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

وطن عزیز میں پھر سخت احتساب کا دور دورہ ہے، کڑا احتساب ہو رہا ہے، بےلاگ ہو رہا ہے اور اندھا دھند ہو رہا ہے۔ احتساب اس لئے بھی ہو رہا ہے کہ ملک سے کرپشن کا خاتمہ کرنا ہے، احتساب اس لئے ہو رہا ہے کہ کرپٹ لوگ اپنے انجام کو پہنچ جائیں، احتساب اس لئے ہو رہا ہے کہ سیاسی نظام ملکی خزانہ لوٹنے والوں سے پاک ہو جائے۔
ذرا تاریخ اٹھا کر دیکھیں تو ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ملکوں نے آگے بڑھنے اور دنیا میں مقام بنانےکیلئے محنت و عزم کو شعار بنانے کے ساتھ ایمانداری، اصول پسندی اور جامع نظام کو بنیاد بنایا ہے، امریکہ اور برطانیہ کی ہوشربا ترقی کی مثالوں کی بجائے اپنے اردگرد ممالک جیسے چین، جاپان، ملائیشیا، انڈونیشیا اور ترکی سمیت ہمسایہ ایران کو ہی دیکھ لیں کہ ترقی کیلئے جامع حکمت عملی، عوام کا مفاد، انصاف اور مسلسل احتساب کا نظام بنیادی اجزا اور ترجیحات کا حصہ ہیں۔ پاکستان شاید ان چند ترقی پذیر ملکوں میں سے ایک ہے جہاں احتساب کا محکمہ ہر چند سال بعد اچانک خوفناک انگڑائی لیتا ہے، آنکھیں کھولتا اور ہاتھ پائوں مار کر پہلے اپنے وجود کا احساس دلاتا ہے اور پھر دوسروں کو اپنے موجودگی محسوس کراتا ہے، طالع آزما پرویز مشرف کے دور آمریت کے آغاز پر ہی احتساب کیلئے نیب کے نام سے الگ ادارہ بنایا گیا جس کا کام محض سیاسی نظام کی صفائی اور صرف سیاستدانوں سے لوٹی دولت برآمد کرانا تھا، یوں غیر اعلانیہ طور پر اداروں، محکموں اور ان کے کرتا دھرتا نیک اور فرض شناس قرار پاگئے۔9 سال احتساب کا خوب چرچا رہا، پکڑ دھکڑ اور جیل یاترا کی کہانیاں بھی سامنے آتی رہیں لیکن قومی دولت واپس آنے بارے قوم کو کوئی خوش خبری نہ مل سکی۔ وقت آمریت کی دہلیز پار کر کے جمہوریت کے گھر داخل ہوا تو آمر کا تحفہ پھر دیوار پر سجا پایا، احتساب کی تصویر ہٹانا یا اسکو بہتر بنانا تو بس میں تھا نہیں لہٰذا جمہوریت پسنداپنے پرانے حساب چکانے اور فائلوں کےپیٹ بھرنے کیلئے اپنے بھائی بندوں کی سرکوبی میں لگ گئے۔ ادارے کے سربراہ کیلئے نظر انتخاب کبھی ریٹائرڈ فوجی، کبھی سابق بیورو کریٹ اور کبھی معزز جج صاحب ٹھہرے تاہم منتخب نمائندوں کی نظر میں طاقتور محکمے کی سربراہی کیلئے کوئی سابق یا حاضر سروس سیاستدان نہیں جچا۔ جو ایمانداری، غیرجانبداری اور اصول پسندی کے تقاضوں کو پورا کرسکتا۔ پھر یہی ہونا تھا کہ کل ایک مقبول سیاسی جماعت کے احتساب کی باری تھی، آج ایک دوسری مقبول جماعت بھگت رہی ہےاور کل کسی تیسری مقبول ہونیوالی سیاسی جماعت اور اسکی قیادت کی باری آئے گی، بس کوئی نہیں بچے گا۔
جیسے میں نےنشاندہی کی کہ آج کل بھی زور شور سے احتساب کا چرچا ہورہا ہے، اقتدار سے بےدخل کئے گئے منتخب وزیراعظم اور اس کا خاندان قومی خزانہ لوٹنے کے الزام پر سپریم کورٹ، ہائی کورٹ اور نیب کورٹ میں پیشیاں بھگت رہا ہے، یہ کام اس قدر جلدی میں ہو رہا ہے کہ گزشتہ ادوار میں اعلیٰ عدلیہ اور احتساب کے محکمے کےپاس ’’کرپٹ عناصر‘‘ کی فائلیں کہیں کھو چکی ہیں یا نئی فائلوں کےبوجھ تلے دب چکی ہیں، سابق صدر، سابق وزراء اعظم ، وزرا اعلیٰ، وفاقی و صوبائی وزراء سمیت درجنوں مشیروں اور منتخب ارکان اسمبلی کےخلاف کیسزکی سماعت کی باری دوبارہ ابھی تک اس لئے نہیں آئی ،ایک اور وزیراعظم کو اپنے کردہ ناکردہ جرائم میں احتساب کے جال میں پھانس لیا گیا ہے، ذرا اس سے فارغ ہو جائیں پھر پچھلوں کی فکر تازہ ہوگی۔
یہ بات بھی عین حقیقت ہے کہ سارے سیاستدان نہ معصوم ہیں نہ دودھ کےدھلے لیکن دیکھا جائے تو پچھلے ادوار میں محکمہ احتساب کا سربراہ جب بیوروکریسی سے تھا تواس نے اپنے پیٹی بھائیوں پر آنکھیں بند رکھیں، کئی اہم بیوروکریٹس پر الزامات سامنے آئے کسی ایک پر بھی کیس نہ بنا، تاہم سیاستدانوں کی خوب خبر لی گئی، جوڈیشری سے سربراہ ہوا تو اپنوں کے سوا سب کو کٹہرےمیں لاکھڑا کیا، شاید محض اتفاق ہے کہ اب کی بار بھی سیاستدانوں کے علاوہ بیوروکریٹس اور سابق جنرلز کے احتساب کی کارروائیاں فا ئلوں سےباہرنکل رہی ہیں۔ حیران کن پہلو ایک یہ بھی ہےکہ کراچی کےایک جج کے رشوت لے کر ایک مشہور کیس کے مرکزی ملزم کو رہاکرنے کے واقعہ پر سوموٹو ہوا نہ احتساب کےمحکمے کے لئے قابل توجہ ثابت ہوا۔ ہمیں سمجھنا چاہئے کہ پہلے یہ توطے ہو جائے کہ پارلیمنٹ سپریم ہے یا آئین؟ پارلیمنٹ خودمختار، آزاد اور طاقتور ہے یا عدلیہ یا کوئی اور؟ ایگزیکٹو آزادی سےخود کام کرے یا پوچھ کر، اجازت لے کر؟ پہلے عدالتوں میں پڑے لاکھوں کیسز نمٹائے جائیں یا سوموٹو اور توہین عدالت کے تازہ ترین سنگین کیسز کے فیصلے سنائے جائیں؟ پہلے یہ طے تو ہو جائے کہ عنان حکومت کس کے پاس ہوگی اور نظام حکومت کون چلائے گا؟ انہی بے صبروں میں ایک عام شہری بھی ہے جو برسوں سے عدالت عظمیٰ سے انصاف کے حصول کا منتظر ہے، سادہ لوح اس قدر ہے کہ سوال اٹھانے کی بھی جسارت کرتا ہے، کہتا ہے کہ ’’مجھے کیوں نکالا‘‘ کا سوال پوچھنے والے کے خلاف کیسز کیسے اتنی تیزی سے انجام کو پہنچ رہے ہیں، مخصوص وقت مقرر کر کے پاناما کی بجائے اقامہ کی کمزور بنیاد پر سزائیں دی جارہی ہیں، احتساب عدالتیں روزانہ سماعتیں کررہی ہیں، سادہ لوح کی سادگی دیکھئے، اسپیڈی ٹرائل کے ساتھ اپنے مقدمے اور دیگر ان گنت کیسز کا جلد اور میرٹ پر فیصلہ چاہتا ہے۔ یہ سادہ طبیعت سمجھتا ہے کہ موجودہ احتساب کے ہنگامی اقدامات عوام کو بہت کچھ سوچنے اور سمجھنے پر مجبور کر رہے ہیں، سیاسی جماعت کو سینیٹ انتخابات سے باہر کرنے کے اقدام عوام کے دلوں میں اس جماعت کے لئے جگہ پیدا کررہے ہیں۔ وزارت عظمیٰ دینے کے وعدے کو چھوٹے بھائی کو بڑے بھائی کا دشمن بنانے کا جھانسہ قرار دے رہے ہیں۔ عام شہری اتنا سادہ ہے کہ خیال کرتا ہے اگر نوازشریف کو بند کردیا، اس کی جماعت کو آئندہ عام انتخاب سے باہر کردیا، پارٹی کو توڑ دیا گیا، تو نتائج وہی نکلیں گے کہ جلاوطن ایک دہائی بعد واپس آکر تیسری مرتبہ وزیراعظم بن گیا، غیر فطری اتحاد اور نابالغ سیاسی جماعتیں واپس اس کی جماعت میں آملیں، کیا اب بھی یہی مقصود ہے۔ یہ سادہ لوح نہیں جانتا کہ قومی دولت واپس لانا اور ’’کرپٹ سیاستدانوں کو کٹہرے میں لانا ضروری ہے۔ سیانے بھی یہی کہتے ہیں کہ لوٹی دولت واپس آئے نہ آئے کچھ ثابت ہو نہ ہو سیاستدانوں کو کٹہرے میں کھڑا کر کے تذلیل اور بدنام کرنے کا بہتر طریقہ اور کیا ہوسکتا ہے۔ یہ سب کچھ ہوتا رہا اور ہو رہا ہے اچھی بات یہ ہے کہ آئین کے خالق پارلیمنٹ میں بیٹھنے والے منتخب نمائندوں کو نہ سمجھ پہلے آئی نہ اب آئے گی کہ وہ ’’ایماندار‘‘ ہو جائیں یا لائن میں لگ کر باری باری کسی بھی فاضل عدالت سے کم ازکم ’’صادق وامین‘‘ ہونے کا سرٹیفکیٹ ہی حاصل کرلیں۔ اگر یہ کچھ نہیں کرسکتے تو پھر ایک ہی راستہ ہے کہ آئین کو ہی بالاتر سمجھتے ہوئے قومی اخلاص کے ساتھ اپنے اور تمام اداروں کو کھلے اور چھپے ہوئے اثاثوں کا ریکارڈ منظرعام پر لانے کیلئے قانونی وآئینی طور پر مجبور کریں۔ عدم تصادم کا راستہ اختیار کرتے ہوئے سمجھ بوجھ اور اتفاق سے احتساب کا ایسا کل وقتی نظام لے آئیں جو سلیکٹو چھان پھٹک کی بجائے سب کو دامن صاف کرنے کا موقع دے۔ اگر ایسا کرنا ممکن نہیں تو سادہ لوح عوام کو یقین ہو جائے گا کہ اس ملک کی لوٹ مار میں آپ سب یک جان اور ایک ہی تھالی کے چٹے بٹے ہیں۔ بقول مرحوم منوبھائی
احتساب دے چیف کمشنر صاحب بہادر!
ساڈے بچے ویلے دی بھٹی وچ تپ کے، کندن بن کے نکلن گے
اوہنان نوں اپنے ماپاں وانگوں، ازمائشوں نسناں نئیں پئے گا
جیڑا تھاں توں ہل نئین سکدا، کدی اگاں نوں چل نئیں سکدا۔
جیڑا اپنے ویلے کولوں ڈر جاندا اے، اوسے ویلے مرجاندا اے۔
جیڑا جتھے رک جاندا اے، اوسے تھاں تے مُک جاندا اے

تازہ ترین