• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

میرا ایک دوست ملٹی نیشنل کمپنی میں سی ای او ہے، سات ہندسوں میں تنخواہ لیتا ہے، ہر چوتھے روز ملک سے باہر جاتا ہے، دو تین گاڑیاں رکھی ہیں، بچے امریکن سکولوں میں پڑھتے ہیں، بیوی کسی بین الاقوامی این جی او کی رکن ہے، گھر میں ’’آرگینک فوڈ‘‘ آتی ہے، ہر چھ ماہ بعد پورے خاندان کا طبی معائنہ ہوتا ہے، تندرست و توانا رہنے کے لئے ڈاکٹر صاحبان انہیں نت نئے ملٹی وٹامن تجویز کرتے ہیں جو صرف یورپ یا امریکہ سے ہی منگوائے جا سکتے ہیں، دفتر اور گھر میں انگریزی اخبار آتا ہے، بچے کھیل کے شوقین ہیں مگر انہیں کسی مقامی کھیل سے رغبت نہیں مانچسٹر یونائیٹڈ اُن کی پسندیدہ ٹیم ہے، میاں بیوی کبھی کبھار کتابیں بھی پڑھتے ہیں مگر صرف انگریزی کی، مقامی لکھاریوں کی سرپرستی کے جذبے کے تحت وہ اُن کی کتابیں بھی خرید لیتے ہیں بشرطیکہ وہ اردو میں نہ ہوں، کافی پیتے ہیں چائے نہیں، بچوں، کولیگز اور ہم پلہ دوستوں سے انگریزی میں، نوکروں اور کمی کمین عوام سے پنجابی میں اور بوڑھے والدین سے اردو میں بات کرتے ہیں۔ میرے اس دوست کا ماننا ہے کہ جاہل عوام اور کرپٹ حکمرانوں نے ملک کا بیڑا غرق کر دیا ہے، جب تک یہ ان پڑھ عوام اپنے جیسے انگوٹھا چھاپ لوگوں کو ذات، برادری کے نام پر ووٹ دیتے رہیں گےاُس وقت تک کوئی صاف ستھرا پڑھا لکھا شخص اوپر آہی نہیں سکتا ’’یہ دو نان اور ایک قورمے کی پلیٹ پر بکنے والے لوگ ہیں، اِن سے تم کس خیر کی توقع رکھتے ہو!‘‘ میرا دوست اکثر حقارت سے یہ بات کہتا ہے۔ دراصل یہ میرے دوست کا ہی نہیں اکثر ایسے لوگوں کا ماننا ہے جو پڑھے لکھے متمول طبقے سے تعلق رکھتے ہیں، زندگی میں جن کے لئے خدا نے آسانیاں لکھ دی ہیں اور جنہیں یہ اندازہ نہیں کہ بچوں کی ایک وقت کی روٹی کمانے کے لئے بیماریوں میں لتھڑے ہوئے اُن کے لاغر ماں باپ کیسے رات دن اپنا خون جلاتے ہیں۔
ہماری اشرافیہ نہایت اطمینان سے ملک کی تمام تر خرابیوں کی جڑ ’’جاہل عوام‘‘ کو قرار دے کر بری الذمہ ہو جاتی ہے جیسے خود اُس کے ذمہ کوئی اخلاقی ذمہ داری نہیں اور یہی المیہ ہے۔ کم ازکم تین خرابیاں ہماری اشرافیہ میں ایسی ہیں جو ایک ساتھ جمع ہو کر سوسائٹی کے زوال کا باعث بن رہی ہیں۔ پہلی، متکبر پن، یہاں جس شخص کے پاس چار پیسے آ جائیں، اسے کوئی طاقت یا عہدہ مل جائے، عوام میں کوئی سچی جھوٹی شہرت مل جائے، اُس نے کوئی ممتاز مقام حاصل کر لیا ہو، اُس کے پرستار ایک حد سے بڑھ جائیں یا اِن میں سے کچھ بھی نہ ہو اور آپ کو کسی گمنام شخص (بشرطیکہ متمول ہو) سے کام پڑ جائے تو پہلی جھلک اُس کی شخصیت میں جو نظر آئے گی وہ تکبر کی ہوگی۔ ایسے شخص کی چال ڈھال، اطوار، گفتگو کرنے کا انداز، اُس کا دو انگلیوں سے ہاتھ ملانا، کنٹرول ریٹ پر معانقہ کرنا، ایک خاص رکھائی سے بات کرنا، غرض اس کی بدن بولی چیخ چیخ کر بتائے گی کہ مجھ میں تکبر بھرا ہے، ہارن دے کر پاس کرنے کی کوشش بھی نہ کریں۔ ایسے لوگ البتہ اپنے جیسے متکبر لوگوں کے سامنے بندے کے پتر بن کر رہتے ہیں، ایک دوسرے کے لئے اسی طرح شائستہ اور مودب ہوتے ہیں جیسے کسی انسان کے بچے کو ہونا چاہئے اور حیرت انگیز طور پر اپنی کلاس کے سامنے اِن لوگوں کی تمام متکبرانہ عادتیں یکایک غائب ہو جاتی ہیں اور یہ ایک دوسرے کے ساتھ شیر و شکر ہو جاتے ہیں۔ ایک بات کا خیال رہے کہ بعض اوقات یہ ’’بڑے لوگ‘‘ عاجز ہونے کی اداکاری بھی کرتے ہیں، اپنے اقوال اور ادب و آداب میں ایسا تاثر دیتے ہیں جیسے اِ ن سے زیادہ منکسر المزاج کسی ماں نے نہیں جنا، مگر خیال رہے کہ اگر آپ کا تعلق اس کلاس سے نہیں تو اسے سچ مچ کی عاجزی نہ سمجھ بیٹھئے گا، یہ انکساری نہیں فیشن ہے۔
ہماری اشرافیہ کی دوسری خرابی جھوٹ اور بد دیانتی ہے، اس معاملے میں یہ بالکل عام پبلک کی طرح ہیں، بے تکان جھوٹ بولتے ہیں، عہد کی پاسداری کی اِن کے نزدیک کوئی اہمیت نہیں، آپ کسی کو فون کریں کوئی بات طے ہو اُس کے بعد دوسرا شخص اگر یہ کہہ کر گفتگو ختم کرے کہ وہ اس بابت آپ کو دو گھنٹے میں بتائے گا تو بھول جائیں کہ دو گھنٹے تو کیا دو دن بعد بھی کوئی فون آئے گا۔ اسی طرح آپ کسی سے زبانی یا تحریری معاہدہ کریں اور اُس کے بعد یاد دلاتے رہیں کہ جناب والا اِس معاہدے پر عمل کرنا بھی آپ کی ذمہ داری ہے، یہ وطیرہ صرف اشرافیہ تک محدود نہیں عوام بھی ایسے ہی ہیں۔ بدعنوانی کے معاملے میں البتہ اشرافیہ کا قصور کہیں زیادہ ہے، یہ لوگ سوسائٹی کے اُس طبقے سے تعلق رکھتے ہیں جو سسٹم سے ہر لمحہ فائدہ اٹھاتا ہے، مگر اِس کے باوجود بدعنوانی کے سب سے زیادہ اسکینڈلز اسی طبقے کے نکلتے ہیں اور یہی بڑی خرابی ہے۔ تیسری خرابی اس طبقے کی خود کو عقل کُل سمجھنا ہے، چونکہ یہ لوگ زندگی میں کامیاب ہیں، معاشرے میں اپنی جگہ انہوں نے بنائی ہے، دولت کمائی ہے، شہرت حاصل کی ہے، عام عوام لاشعوری طور پر انہیں آئیڈیلائز کرتے ہیں، اِن جیسا بننا چاہتے ہیں، سو اِن حالات میں یہ لوگ خود کو عقل کل سمجھنا شروع کر دیتے ہیں۔ وجہ اس کی بے حد سادہ ہے، اِن کے خیال میں اِن کی کامیابی محنت اور غیر معمولی ذہانت کے بل بوتے پر ہے لہٰذا جن نظریات کو انہوں نے اپنی عقل کی بنیاد پر عملی زندگی میں اپنایا وہ غلط نہیں ہو سکتے، اُن کی عقل کا مقابلہ ممکن نہیں، اُن کی دانش کا کوئی جوڑ نہیں، لہٰذا ہر مسئلے پر اُن کی رائے مستند سمجھی جائے، یہی بات انہیں اس مرحلے پر لے آتی ہے جہاں وہ نرگسیت کے ایک اعلیٰ درجے پر خود کو فائز کر لیتے ہیں اور پھر باقی تمام لوگ انہیں کیڑے مکوڑے نہ صرف دکھائی دیتے ہیں بلکہ وہ انہیں سچ مچ کیڑے مکوڑے سمجھنے لگتے ہیں۔
کالم یہاں تک پہنچا تو مجھے اندازہ ہوا کہ منافقت بھی ہماری اشرافیہ کا طرہ امتیاز ہے، اسی طرح غیبت، چغلی، دروغ گوئی اور دیگر قباحتیں بھی، مگر یہ سب خصوصیات صرف اشرافیہ میں ہی نہیں عوام میں بھی پائی جاتی ہیں، تو پھر صرف بالائی طبقے کو الزام کیوں دیں، اگر پوری دیگ ہی بدذائقہ ہے تو چاندی کے ورق کا کیا قصور! بات ایسی سادہ نہیں، دنیا کے ہر معاشرے میں یہی دو طبقات ہوتے ہیں، باقی اِن کے شیڈز ہیں، ایک طبقے کو ہم اہل دانش یا پڑھی لکھی ایلیٹ کلاس کہہ لیتے ہیں جو کچھ متمول بھی ہوتی ہے، باقی تمام لوگ دوسرے طبقے میں شمار ہوتے ہیں، اب یہ اہل دانش کی ذمہ داری ہے کہ وہ تاریخ کی درست سمت میں کھڑے ہوں، اس کلاس سے تعلق رکھنے والے لوگوں کا دامن آلودہ نہ ہو، ان کے مزاج میں تکبر نہ ہو، وہ خود کو عقل کل نہ سمجھیں اور حقیقت میں عاجز ہوں کیونکہ دنیا کی ہر سوسائٹی میں یہی لوگ ہوتے ہیں جو معاشرے کی سمت کا تعین کرتے ہیں، اگر معاشرے کا سب سے priviligedطبقہ ہی راستہ بھول جائے تو پھر فٹ پاتھ پر بیٹھے مزدور سے کیا گلہ کرنا جو روزانہ تین وقت کا کھانا کمانے کی خاطر مسلسل آٹھ گھنٹے پتھر توڑتا ہے۔ سوال تو آجر سے پوچھا جانا چاہئے، مزدور سے نہیں۔
کالم کی دُم24:فروری 1616ءوہ دن تھا جب چرچ نے گلیلیو پر پابندی لگائی کہ وہ یہ تعلیم نہیں دے سکتا کہ زمین سورج کے گرد گھومتی ہے۔ شکر ہے گلیلیو 2018میں نہیں تھا ورنہ ہمارا سوشل میڈیا یہ فتویٰ لگاتا کہ گلیلیو نے پیسے لے کر زمین کو سورج کے گرد گھما دیا ہے۔

تازہ ترین