• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کڑا وقت آن پہنچا۔ وطن عزیز سرکس کا منظر پیش کر رہا ہے۔ انواع و اقسام کے جانور، چرند پرند، مداری سب کے سب رنگ ماسٹر کی چھڑی اشارے پُرخطر مفاداتی کرتب دکھانے میں مصروف و مجبور۔ دوسری طرف وطنی سرحد پار جڑے خطرات سامنے رنگ ماسٹر بھی بے بس، خود نشانہ پر۔ نتیجہ آئوٹ، بار بار بتایا جا رہا ہے ’’شریف خاندان اگلے انتخابات میں نظر نہیں آئے گا، آخر کیوں؟ ایسا وطن کی قیمت پر ہی ہو گا۔ دوسرا نتیجہ بھی عام، ’’امریکہ پاکستان کو مشکلات میں دیکھنا چاہتا ہے، امریکہ پاکستان کو گھیرنا چاہتا ہے‘‘، پیرس میں فنانشل ایکشن ٹاسک فورس گروپ کی میٹنگ سے واپسی پر وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل کا اظہاریہ بیانیہ، نہ تھمنے کو۔ بعینہٖ یہی بات خواجہ آصف اور احسن اقبال وغیرہ ملفوف انداز میں بیان کر رہے ہیں۔ میرا اضافہ اتنا کہ امریکہ کا اصل ٹارگٹ ہماری افواج کو گھیرنا کمزور کرنا ہے، بھارت کا ایجنڈابھی ہمیشہ سے یہی۔ میرا عقیدہ،ایمان پختہ، ’’ریاست پاکستان اور افواج لازم و ملزوم‘‘۔ جس کسی نے جب بھی ریاست کو نقصان پہنچانا ہے، پاکستان کو بربادی کی طرف دھکیلنا ہے، پہلا نشانہ ہماری افواج نے رہنا ہے۔
سرد جنگ کے خاتمہ بالخیر پر، امریکہ اکلوتی طاقت بن کر ابھرا۔ پلک جھپکتے بھارت امریکی گٹھ جوڑ وجود میں آیا۔ پہلا نشانہ پاکستان اور افغانستان ٹھہرے۔ یہی وقت کہ 80 کی دہائی کے آخر میں تحریک آزادی کشمیر زور پکڑ چکی تھی۔ کچلنے کے لئے 6/7لاکھ بھارتی فوج تعینات کرنا پڑی۔ دہشت گردی، بربریت، قتل و غارت کی ہر جہت متعارف ہوئی۔ امریکہ خم ٹھونک کر نئے نویلے اتحادی کی مدد کو آپہنچا۔ ’’روگ آرمی‘‘ اور ریاست پر دہشت گردی کا بٹہ لگانے میں بھارت کا ہاتھ بٹایا۔ اقتصادی پابندیاں لگائیں، مشکلات کی طرف دھکیلا، تعمیر و ترقی کے راستے سالوں مسدود رکھے۔ چند سالوں سے ایک بار پھر ارض وطن تخت مشق بن چکا ہے کہ تحریک آزادی کشمیر نے پھر سے سر اُٹھایا ہے۔ 7لاکھ مسلح باوردی بھارتی بھیڑیئے بے بس نظر آرہے ہیں۔ ملبہ ہمیشہ کی طرح پاکستان پر، حافظ سعید، جماعت الدعوۃ، فلاح انسانیت کا نام اچھالنا فقط بہانہ، پاکستان کی فوج اصل نشانہ۔ پاکستان کی عدالتیں کتنی دفعہ فیصلہ دے چکیں کہ حافظ سعید، جماعت الدعوۃ، فلاح انسانیت کے گناہ صفر، وطن عزیز کا قیمتی سرمایہ ہیں۔ کسی طور دہشت گردی یاTERROR FINANCING میں ملوث نہیں۔ اب تو DAVIDSSON کی تحقیقی دستاویز آچکی کہ بمبئی واقعات بھارتی ایجنسیوں کا اپنا کیا دھرا ہے۔ کلبھوشن رنگے ہاتھوں پکڑا گیا،TERROR FINANCING دہشت گردی، قتل و غارت میں ملوث رہا۔ امریکہ اور حواری مفاد پرستانہ رویہ اپنائے ’’میں نے نہیں سنا، میں نے نہیں دیکھا‘‘، کے اصول پر منافقت راسخ کر چکے ہیں۔ بھارت کے ساتھ مفاد برائے مفاد کے معاہدوں پر معاہدے کی پہلی منزل پاکستان کو نقصان پہنچانا ہے۔ ہدف فوج کو کمزور کرنا تاکہ پاکستان کو بنگلہ دیش، نیپال، بھوٹان سکم جیسی بھارت طفیلی ریاست بنا سکیں۔ سوویت یونین کی شکست پر امریکی عزائم مترشح، ٹپک ٹپک باہر آئے۔ ٹارگٹ ایک ہی، چین طاقت نہ بن پائے، روس دوبارہ ابھر نہ سکے۔ پاکستان ہتھیائے بغیر مقاصد ناکام رہنے تھے۔ امریکہ بھارت دونوں کے مفادات مشترک،پاکستانی افواج کو ناکارہ بنایا جائے تاکہ پاکستان گھٹنے ٹیک دے۔ 17سال سے ڈومور اور ہر دفعہ ’’گول پوسٹ‘‘ کو مختلف مقام پر رکھ کر نت نئے نیا ٹارگٹ دینا امریکی وطیرہ بنا رہا۔ کراچی سے گلگت بلتستان، دہشت گردی پھیلائی گئی۔ افواج کو ملک کے کونے کونے میں جانا پڑا۔ ڈومور کا مطلب افواج کو قبائلی علاقوں میں غیر ضروری ملوث رکھا جائے۔ آج دہشت گردی کے خلاف ایک لاکھ فوج اندرون ملک، اڑھائی لاکھ فوج قبائلی علاقوں میں تعینات ہے۔ بھارت اور امریکہ دونوں گھمبیر صورتحال سے دوچار ہیں۔ ابھی تک تدبیریں ناکام گئیں، پاکستان غیر معمولی اسپیڈ سے اقتصادی ترقی اور نئے بلاک میں نمایاں مقام حاصل کر چکا ہے۔ چینی اقتصادی راہداری منصوبہ، روس نئی دریافت طاقت، دونوں پاکستان سے تاریخی قربت حاصل کر چکے ہیں۔ کئی دفعہ لکھا کہ ’’امریکہ اقتصادی راہداری بننے نہیں دے گا (پاکستان ہتھیانے کا مقصد بھی یہی تھا) جبکہ چین راہداری بنا کر چھوڑے گا‘‘۔ پاکستان میں انارکی، انتشار، افراتفری، عدم استحکام، نفسا نفسی، باہمی تصادم کو پروان چڑھانا تھا کہ چین کے لئے ناقابل استعمال رہے۔ میرے پڑھنے والے گواہ، ان گنت مرتبہ، سالوں سے اس کی نشاندہی اور پیش گوئی کی۔ بدقسمتی کہ دشمن اپنے عزائم پورے کرنے میں کامیاب ہو چکے۔ وائے نصیب پاکستان کو تباہ کرنے کا امریکی بھارتی ایجنڈا پورا ہونے کو ہے۔ FATF میں جو کچھ ہونے جا رہا تھا یا3ماہ بعد جو کچھ ہو سکتا ہے،صدر ٹرمپ کی ٹویٹس، امریکی پالیسیاں مقصد یہی تو تھا، انتشار، افراتفری، عدم استحکام پھیلانا۔
اگر یہ سب سچ ہے تو پھر ’’خوگر حمد سے تھوڑا سا گلہ بھی سن لے‘‘۔ گلہ کرنے سے پہلے یادش بخیر بھی، امریکہ کے لئے پاکستان میں من مانی کب آسان رہی؟ مرضی کے فیصلے کب کروا پایا؟ بازو مروڑنے میں کب کامیابی ملی؟ ماضی شاہد، سب کچھ تب ہی ممکن رہا، جب فور اسٹار آمر مملکت پر قابض تھا۔ ٹوٹی پھوٹی سیاسی حکومت میں امریکی مداخلت مشکل رہی۔ اہم معاملات پر دفاعی اداروں کے چیکس اور بیلنس موجود رہے، محفوظ رہے۔ پریشان ہوں کہ نامساعد حالات میں سیاسی حکومت کی بیخ کنی میں ادارے رات دن اپنا اوڑھنا بچھونا کیوں بنا چکے ہیں؟ لاقانونیت، انسانی تذلیل اورتضحیک آمیز ہتھکنڈوں کا سہارا کیوں لیا جا رہا ہے۔ ابھی احد چیمہ کی سلاخوں پیچھے، AK-47 اسالٹ رائفل کے سائے میں بنائی تصویر میڈیا، سوشل میڈیا پر پھیلا کر کیا ثابت کیا۔ یقین دلاتا ہوں ایسے اقدامات ہی نے تو ابھی تک آپ کے منصوبوں کو خاک میں ملایا۔ افتخار چوہدری اور حسین نواز کی تصاویر اسی رعب داعب کی ترویج میں ہی تو باہر آئیں۔ افتخار چوہدری کی تصویر نے تو قوم کو مشتعل کیا، تدبیروں کو الٹا دیا۔ قوم کے مشتعل ہونے کا تلخ تجربہ جھیلنے کے باوجود، طاقت کے نشے میں سرشار سبق نہیں سیکھ سکے۔ ہماری عدالتی تاریخ سیاسی فیصلوں پر کئی بار اپنے ہاتھ، پیر، منہ جھلسا چکی ہے۔ چاہئے تو یہ تھا کہ اب کے پھونک پھونک کر کیس سنے جاتے۔ چیف جسٹس قسمیں کھا رہے ہیں، روزانہ کی بنیاد پر وضاحتیں دے رہے ہیں ’’ہمارا سیاسی ایجنڈا نہیں‘‘، مائی لارڈ! زمینی حقائق یکسر مختلف ہیں، آپ کے دعوئوں کی نفی کر رہے ہیں کہ انہونی نظریں دیکھنے کو ملی ہیں۔ آج قوم اداروں پر تقسیم، کسی کی کوئی وضاحت کام نہیں آرہی۔ وطنی حالت جس نہج پر، عدلیہ بری الذمہ ہو ہی نہیں سکتی۔ حالات حاضرہ کا تخمینہ لگائیں، ملک اپنی تاریخ کے بدترین سیاسی بحران میں ہے۔ افراتفری، اشتعال، انتشار، باہمی تصادم عروج پر ہے۔ قوم منقسم، ایک حصہ سپریم کورٹ اور افواج پاکستان کا حمایتی و مددگار بن کر اپنے سیاسی ’’کھوکھے‘‘ کو سپر مارکیٹ بنانے میں تن من لگائے، دھن کا حقدار بننے کو ہے۔ جبکہ دوسرا حصہ عوامی حمایت سے سرشار اپنی سجی سجائی سپر مارکیٹ میں بڑے اداروں بارے معاندانہ رویہ اپنا چکا، انا للہ وانا الیہ راجعون۔ اگرچہ نواز شریف اور مریم نواز کے لہجہ میں نرمی اور ٹھہرائو آچکا، جذباتی سے زیادہ اصولی باتیں جگہ لے چکی ہیں۔ لمحہ فکریہ، رائے عامہ میں جذباتیت، طوفان بن چکی ہے۔ شادی، بیاہ، جنازہ، فنکشن جہاں جائیں اداروں کے خلاف زبان درازی حدیں ٹاپ رہی ہے۔ اشتعال ہے کہ بے قابو، اندرون ملک کی جنگجویانہ سیاست نے قوم کی اداروں پر تقسیم، مضبوط بنا دی ہے۔ ایسے موقع پر مشرقی و مغربی سرحدوں پر دو بڑی طاقتیں جارحانہ موڈ میں قدم بقدم وطن عزیز کو بھنبھوڑنے کی خاطر منہ پھاڑ ے ہیں۔ ہر آئے دن پاکستان کا حشر نشر کرنے کا نیا ایجنڈا پیش ہورہا ہے۔
صدق دل سے سمجھتا ہوں، افواج پاکستان کو گھیرنے کی حکمت عملی کامیاب نظر آ رہی ہے۔ حیرت زدہ ان حالات میں کچھ لوگ اندرون ملک سیاست فتح کرنے کیوں نکلے ہیں؟2014 سے ایک بیانیہ تسلسل سے عام کہ نواز شریف حکومت کو چلنے دیا گیا تو 2018 کا الیکشن بڑے مارجن سے جیت جائیں گے۔ کیا یہ وجہ کافی تھی؟ نواز شریف کو رائے عامہ ہٹاتی تو بیرونی خطرات کی پیش بندی بھی ہو سکتی تھی۔ سیاستدان وہ جو رائے عامہ من بھائے، نواز شریف ساتویں آسمان پر کہ پہلی دفعہ جنونی حمایت مل چکی ہے۔ البتہ موجودہ سیاسی کھچائو اور ٹکرائو اداروں کو دلدل میں دھکیل چکا ہے۔ احد چیمہ نے کبھی اہم نہیں رہنا تھا۔ گرفتاری پر رفعتوں سے دور، آنکھ اوجھل رہنا تھا۔ اب جبکہ مقصد بذریعہ احد چیمہ، شہباز شریف پر ہاتھ ڈالنا تھا۔ احد چیمہ کی گرفتاری، اداروں کے گلے کی ہڈی بن چکی ہے۔ AK-47رائفل سے مزین رعب داب والی تصویر بے کار گئی بلکہ ردعمل پیدا کر گئی ہے۔ احد چیمہ کو ذہنی اذیت اور شاہد شفیق پر بہیمانہ جسمانی تشدد لاقانونیت، بربریت اور مایوسی کی داستان رقم ہوئی ہے۔ نواز شریف کے خلاف جتنی جلدی ہے، وطن عزیز کا بحران اسی تیزی سے گہرا ہو رہا ہے۔ بھلا ایسی سوچ کے حامل پاکستان کے دوست ہو سکتے ہیں؟ پچھلے سال سے ایک گونج یکسو، شریف خاندان کا نام و نشان مٹانا ہے۔ تاریخ کے کوڑے دان میں ڈالنا ہے۔ جناب والا! یہ فیصلہ تو رائے عامہ نے کرنا تھا، آپ کیسے کر سکتے ہیں ؟طریقہ کار گھسا پٹا، نواز شریف، شہباز شریف، مریم نواز وغیرہ کو چن چن کرختم کرنا ہے۔ ریاست کو بھی سنبھال لیں گے؟ اب جبکہ ادارے ایک انچ پیچھے ہٹنے کو نہیں، نواز شریف نے جتنا ہٹنا تھا، بے فائدہ، بے سود رہا۔ نواز شریف بے وقوف جانا جائے گا اگر ایسے موقع پر جنونی رائے عامہ کو منظم نہ کرے، حوصلہ نہ لے، حوصلہ نہ دے۔ فیصلہ کی گھڑی بالآخر آن پہنچی، اگلے چند ماہ میں ریاست کی نئی حدود و قیود متعین ہونے کو۔ اب جبکہ افراتفری اپنے جوبن پر، اسٹیبلشمنٹ سے ہمدردانہ التجا، خدارا ایک دفعہ اپنے جنگجویانہ بورڈ پر دوبارہ جائیں، غور و خوض کریں، آنیوالے دنوں میں خطرات کا بھرپور جائزہ لیں۔ اگر سمجھیں کہ سب اچھا کی رپورٹ ہے تو ’’کمانڈ اینڈ کنٹرول‘‘ کو متعین سمت میں دوڑائے رکھیں۔ بے شک پلانA کو نافذ رکھیں۔ اگر سمجھیں کہ کہیں غلطی رہی ہے تو فوراً بریک لگائیں اور قوم کو دوبارہ متحد کرنیکی ترکیب نکالیں۔ 1971 کا سبق ایک ہی، آج تک تاریخی گفت و شنید، تحقیق کا حصہ بھی، اگر یہ کر لیتے، یہ نہ کرتے، تو بہت کچھ بچ جاتا۔ بابا رحمتا مجھ سے زیادہ سیانا اور باخبر، تاریخی فیصلے دے چکے ہیں، بیسیوں سال یاد رکھے جانے ہیں، قوم خمیازہ بھگتے، وضاحتیں کام آنے کو نہیں۔ آنے والے دنوں میں چین و عرب سے بھی اچھی خبریں آنے کی امید کم۔آخری بات حتمی، ملی نغمہ آج کی ضرورت،بار بار بجانا ہو گا، ’’اے مرد مجاہد جاگ ذرا، اب وقت شہادت ہے آیا‘‘۔

تازہ ترین