• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جدید جمہوریہ ترکی کے قیام سے قبل اس ملک کو ’’سلطنتِ عثمانیہ‘‘ کے نام سے یاد کیا جاتا تھا جس کی سرحدیں دنیا کے تین براعظموں، ایشیا، یورپ اور افریقہ تک پھیلی ہوئی تھیں لیکن ہر عظیم سلطنت کی طرح اس سلطنت کو بھی وقت کے ساتھ ساتھ عروج و زوال کا سامنا کرنا پڑا۔ جدید جمہوریہ ترکی کو سلطنتِ عثمانیہ کے ملبے پر نئے سرے سے قائم کیا گیا تھا۔ یہ اتاترک ہی تھے جو اس بات کو اچھی طرح سمجھ چکے تھے کہ مختلف نسلوں سے تعلق رکھنے والے خطوں اور علاقوں کو ایک پرچم تلے یکجا رکھنا اب ممکن نہیں ہے۔ اس لیے انہوں نے صرف ترک علاقوں (جہاں اکثریت ترکوں کی آباد تھی) کو یکجا کرتے ہوئے جدید جمہوریہ ترکی کی بنیاد رکھی جو اپنی ڈیمو کریسی اور آزادی کی بدولت دیگر اسلامی ممالک کے لیے رول ماڈل بنا۔ بانی ِ پاکستان قائداعظم محمد علی جناح خود اتاترک کی عظمت کے بڑے قائل تھے اور ان ہی کی راہ پر چلتے ہوئے انہوں نے بھی مسلمانوں کے لئے ایک الگ مملکت کی تشکیل کی جدوجہد کا آغاز کیا تھا۔ جب تک اتاترک زندہ رہے ملک بڑی تیزی سے ترقی کی راہ پر گامزن رہا اور ملک نے صدیوں کا سفر چند سالوں میں طے کرلیا جس پرمغربی ممالک بھی بڑے حیران تھے لیکن بدقسمتی سے اتاترک کے بعد ترکی کو کوئی ایسا رہنما نصیب نہ ہوا جو اتاترک کی طرح ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن رکھ سکتا۔ اتاترک کے بعد عصمت انونو نے اتاترک کے نام سے ایسے ایسے اقدامات اٹھائے ( اتاترک کی شدید بیماری میں وزیراعظم کے عہدے پر فائز عصمت انونو نے اتاترک کے جعلی دستخطوں سے کئی ایک حکم نامے جاری کئے جس کا انکشاف ادارہ تاریخ ترکی کے سابق چیئرمین یوسف حلاچ اولو کرچکے ہیں) جن پر ایک مسلمان ہونے کے ناتے شرم محسوس ہوتی ہے۔ عصمت انونو کے دور میں ترکی اس حد تک غربت کا شکار ہوگیا کہ ایک عام آدمی کو اپنی زندگی بسر کرنے کے لیے آٹا، چینی اور دیگر تمام ضروریات زندگی کے لیے راشن کارڈ کا سہارا لینا پڑتا تھا جس کی وجہ سے یہ ملک تیسری دنیا کے پسماندہ ترین ممالک کی صف میں شامل ہوتا تھا۔ پچاس کی دہائی میں اگرچہ ایک بار پھر ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنے کے لیے برسر اقتدار آنے والی جماعت ڈیمو کریٹ پارٹی نے اپنی کوششوں کا آغاز کیا لیکن اس جماعت کو عوامی مقبولیت حاصل ہونے کے باوجود فوج نے اس پر مختلف الزامات لگا کر پابندی عائد کردی اور اس کے بعد فوج کی اشیر باد حاصل کرنے والی جماعتیں ہی برسر اقتدار رہیں اور ملک زبوں حالی کا شکار رہا۔ ملک ایک طرف دائیں اور بائیں بازو کی جماعتوں کی جھڑپوں اور انتشار کی وجہ سے شدید مشکلات کا دوچار رہا تو دوسر ی طرف ملک میں توانائی کا بحران اپنے پورے زوروں پر تھا۔ تمام قارئین کو یہ بات شاید عجیب لگے کہ جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی کے اقتدار سے قبل تک انقرہ میں اپنی تعیناتی کے دوران سفارتکاروں کو انقرہ کے پسماندہ دارالحکومت ہونے کی وجہ سے خصوصی الاؤنس دیا جاتا تھا۔ سابق وزیراعظم اور صدر ترگت اوزال کے دور تک ترکی ایک کمیونسٹ ملک کا منظر پیش کرتا تھا جہاں غیر ملکی اشیاء کی خریدو فروخت پر پابندی عائد تھی۔ اس بارے میں سابق صدر ترگت اوزال (جب وہ محکمہ پلاننگ میں اعلیٰ عہدے پر فائز تھے) نے بتایا تھا کہ وہ ورلڈ بینک کے ایک اجلاس میں شرکت کے بعد جب وطن واپس آرہے تھے تو ان کی اہلیہ نے ان سے" lady's stocking "لانے کی فرمائش کی اب مشکل ان کو یہ پیش آرہی تھی کہ "lady's stocking" کسٹم والوں کی آنکھوں میں دھول جھونک کر کیسے ترکی لائی جائے؟ اس کا حل بھی انہوں نے خود ہی نکالا اور خواتین کے یہ دونوں موزے انہوں نے اوپر تلے خود ہی پہن لیے اور یوں کسٹم ڈیوٹی سے بچ نکلنے میں کامیاب ہوگئے۔ اس چھوٹی سی مثال سے پتہ چلتا ہے کہ اس دور میں ترکی میں غیر ملکی اشیاء کا تصور بھی نہیں کیا جاتا تھا اور سرکاری ملازمین کی تنخوائیں اتنی قلیل تھیں کہ بچت ممکن نہ تھی۔ ملک میں بینکنگ، ریلوے، ائیر لائن اور ٹیلی وژن جیسے ادارے عالمی اداروں کے مقابلے میں بہت پیچھے تھے۔ ستر کی دہائی میں استنبول ائیر پورٹ پر اترنے والا پہلا سب سے بڑا طیارہ پی آئی اے کا جمبو جیٹ تھا جس کی باقاعدہ خبر ترکی کے اخبارات میں شائع ہوئی تھی۔ اس دور میں پاکستانی ماہرین ترکی کے مختلف اداروں میں ٹریننگ کے فرائض بھی ادا کیا کرتے تھے۔ ترکی کے حالات نے ترگت اوزال کے دور میں پلٹا کھانا شروع کردیا تھا۔ انہوں نے ملک میں کمیونسٹ طرز کے بند منڈی نظام کی جگہ آزاد منڈی اقتصادی نظام متعارف کروایا یعنی دوسرے الفاط میں کہا جاسکتا ہے ترکی میں ترقی کی پہلی اینٹ صدر ترگت اوزال ہی کے دور میں رکھی گئی تھی۔ ترگت اوزال کے بعد اگرچہ ملک میں آزاد منڈی اقتصادیات پر عمل درآمد ہوتا رہا لیکن ملک اس رفتار سے ترقی نہ کرسکا جس کی ضرورت محسوس کی جارہی تھی۔ 2002میں جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ کے برسر اقتدار آنے کے بعد تبدیلی آنا شروع ہوئی (عمران خان والی تبدیلی نہیں) اور ملک بڑی تیزی سے ترقی کی راہ پر گامزن ہوتا چلا گیا۔ ترکی جس کی فی کس آمدنی چھ سو ڈالر کے لگ بھگ تھی موجودہ دور میں یہ گیارہ ہزار ڈالر تک پہنچ چکی ہے اور ملک اس وقت اقتصادی لحاظ سے سولہویں بڑی طاقت کی حیثیت سے جی 20 ممالک کی صف میں بھی شامل ہوچکا ہے۔ ترکی جسے ایردوان دور سے قبل کبھی بھی اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی عبوری رکنیت حاصل نہ ہوئی تھی، ایردوان دور میں دو بار سلامتی کونسل کا عبوری رکن بننے میں کامیاب رہا۔ اسلامی ممالک میں ترکی کو ایک سیکولر ملک ہونے کے ناتے کبھی بھی وہ پذیرائی حاصل نہ ہوسکی جو دیگر اسلامی ممالک کو حاصل تھی لیکن ایردوان حکومت کے دور میں ترکی کو اسلامی تعاون تنظیم کے سیکرٹری جنرل کے عہدے پر منتخب کرتے ہوئے عالمِ اسلام میں اس کے کھوئے ہوئے وقار اور عظمت کو بحال کردیا گیا۔ ترکی نے ایردوان کے دور میں فلسطین کے عوام کی جس طرح حمایت اور یکجہتی کا اظہار کیا ہے اس کی تاریخ میں مثال نہیں ملتی۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ایردوان دور میں جس طریقے سے مسئلہ کشمیر پر پاکستان کا کھل کر ساتھ دیا گیاہے کسی اور ملک نے اس طریقے سے کھل کر مسئلہ کشمیر کی حمایت نہیں کی ہے۔ ترکی کی حمایت نے پاکستان کو بین الاقوامی پلیٹ فارم پر کبھی تنہا نہیں ہونے دیا ہے ۔ فنانشل ایکشن ٹاسک فورس FATF کے معاملے میں بھی جب دیگر قریبی دوست ممالک نے پاکستان کا ساتھ چھوڑ دیا تو یہ ترکی ہی تھا جو پاکستان کے ساتھ مکمل یکجہتی کا اظہار کررہا تھا۔ اگرچہ ترکی کے پاکستان کے ساتھ تعلقات ہمیشہ ہی بڑے قریب اور مضبوط رہے ہیں لیکن ایردوان دور میں ان تعلقات کو ایک نیا رنگ و روپ عطا ہوا ہے اور دونوں ممالک ایک دوسرے کے مزید قریب آگئے ہیں۔ ایردوان کی پاکستان دوستی ہی کی وجہ سے پاکستان کے لوگ دل و جان سے ایردوان سے محبت کرتے ہیں ۔پاکستان کے عوام کو اگرچہ اپنے سیاسی لیڈروں سے شکوے اور شکایتیں ہوسکتی ہیں لیکن پاکستان کی تمام سیاسی جماعتیں ترکی اور ایردوان سے دوستی کے معاملے میں یکساںموقف رکھتی ہیں اور شاید یہی وجہ ہے کہ ان کو پاکستان میں ترکی جیسی ہی مقبولیت حاصل ہے۔

تازہ ترین