• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مسلم لیگ ن کی حکومت اپنا پانچ سالہ دور مکمل کرنے کے قریب ہے اور آخری چند ماہ جس طرح ہچکولے کھاتے اپنی منزل مقصود پر پہنچنے کی کوششوں میں مصروف ہے، اس دوران اس کے اپنے لیڈر وزیراعظم سے اب سابق وزیراعظم ہوچکے ہیں، اہل سے نااہل ہوچکے ہیں، پارٹی صدر سے ہٹائے جانے کے بعد اب ن لیگ کے قائد بنائے جاچکے ہیں اور اپنے اوپر ہونے والی ناانصافیوں پر مسلسل صدائے احتجاج بلند کرنے کے جرم میں اب شاید تاحیات انتخابات میں حصہ لینے پر بھی پابندی کا شکار ہونے کے قریب ہیں۔ یہ سزائیں عموماََ پاکستان کی سیاست میں عوام میں مقبولیت حاصل کرنے، عوام کا محبوب لیڈر ہونے کی روایت سمجھی جاتی ہیں۔ حقیقت میں دیکھا جائے تو ن لیگ کے قائد اور سابق وزیراعظم میاں نواز شریف پر اب تک صرف اقامہ اور بیٹے کی کمپنی سے تنخواہ نہ لینے کا جرم ہی ثابت ہوسکا ہے جسکی سزا کے طور پر ایک مضبوط اور سیاسی طور پر بہترین چلتی ہوئی حکومت، عالمی برادری میں پاکستان کو معاشی طورپر بہترین ملک روشناس کرانے اور پاکستان کو جمہوری طور پر مضبوط ملک بنانے کی کوششوں میں مصروف وزیراعظم کو گھر بھیج دیا گیا، اور اب انھیں سیاست میں کردار ادا کرنے سے روکنے کیلئے بعض قوتوں کی طرف سے اقدامات دنیا کو نظر بھی آرہے ہیں، لیکن حکومت اب بھی ملک میں ن لیگ کی ہے جو پارٹی کے صدر سے قائد میں تبدیل ہونے والے سابق وزیراعظم میاں نواز شریف کو بچانے میں مکمل ناکام نظر آرہی ہے۔ پاکستان میں ن لیگ سے پہلے بھی پیپلز پارٹی کے سابق وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی کو حکومت کے آخری سال ایک عدالتی فیصلے کے ذریعے وزارت عظمیٰ سے علیحدہ کردیا گیا تھا تاہم پیپلز پارٹی نے راجہ پرویز اشرف کو وزیراعظم بنا کر اپنی مدت پوری کرلی تھی۔ جبکہ کئی سنگین الزامات کے باوجود بھی سابق وزیر اعظم گیلانی اور راجہ پرویز اشرف کو ایک دن کیلئے بھی جیل میں نہیں ڈالا جاسکا لیکن اس دفعہ میاں نواز شریف اور ان کے اہل خانہ کو گرفتار کرکے پابند سلاسل کرنیکے امکانات بڑھتے جارہے ہیں جس سے پاکستان میں جمہوریت کے تسلسل اور استحکام کو بھی خدشات لاحق ہوسکتے ہیں۔ اس حوالے سے ن لیگ کے مرکزی رہنما ، پارٹی کے ترجمان اور وفاقی وزیر مشاہد اللہ سے اپنے دورہ اسلام آباد کے موقع پرتفصیلی بات چیک کا موقع ملا۔ انھوں نے ملکی سیاسی حالات پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ جب انصاف کے دریچوں سے ناانصافی ہونے لگے، ایک ہی غلطی پر ایک شخص کو باعزت بری کردیا جائے اور دوسرے کو سنگین سزا سنادی جائے تو عوام میں احساس محرومی جنم لیتا ہے اور یہ احساس محرومی شخصیت سے منتقل ہوکر قوم میں منتقل ہوجائے تو پھر انقلاب آتے ہیں، اس وقت ایسا محسوس ہورہا ہے کہ انصاف اور احتساب کے اداروں کی نظروں میں صرف میاں نواز شریف ہی مجرم ہیں اور انھیں سیاست سے ہٹانے کی کوششیں پوری طاقت سے جاری ہیں جو انصاف کے ترازو میں ناانصافی کے مترادف ہیں یہی بات قائد ن لیگ میاں نوازشریف اپنی تقاریر میں عوام کو سمجھانے کی کوششوں میں مصروف ہیں، جبکہ جس طرح کا رسپانس عوام کی جانب سے ن لیگ اور میاں نوازشریف کو دیا جارہا ہے اس سے پہلے تو صرف اگلے انتخابات میں کامیابی کی امید تھی جبکہ اب لودھراں میں جہانگیر ترین کی نشست پر ن لیگ کو ملنے والی تاریخی کامیابی نے ہمیں یقین دلادیا ہے کہ اگلی حکومت بھی ن لیگ کی ہوگی۔
پاکستان کی سیاست میں اس وقت ایک اور سیاسی جماعت کی ٹوٹ پھوٹ اور دھڑے بندیوں نے پاکستان کے عوام اور عالمی میڈیا کو اپنی گرفت میں لیا ہوا ہے۔ کراچی کی سب سے بڑی سیاسی جماعت متحدہ قومی موومنٹ، جس نے لسانیت اور مہاجر قوم کے نام پر اپنی سیاست کا آغاز کیا اور پھر تشدد کی سیاست کے الزامات کو بھی سہا، کراچی میں ایک خطرناک آپریشن کا سامنا کیا اور ہزاروں شہریوں کا کراچی شہر میں قتل عام ہوا، بھتہ خوری، اغوا برائے تاوان اور لاقانونیت جب حد سے بڑھی اور متحدہ کے قائد کی جانب سے پاکستان مخالف تقاریر ہونے لگیں تو قانون نافذ کرنے والے اداروں نے ایک حکمت عملی کے ذریعے متحدہ قائد کو پاکستان کی سیاست سے الگ کیا۔ جس سےمتحدہ قومی موومنٹ میں دھڑے بندیوں کا آغاز ہوا، مصطفی کما ل کی قیادت میں پاک سر زمین پارٹی کا قیام عمل میں لایا گیا جبکہ فاروق ستار کی قیادت میں ایم کیو ایم پاکستان وجود میں آئی جس کے پاس متحدہ کے ممبران قومی و صوبائی اسمبلی کی بڑی تعداد موجود رہی لیکن پھرصرف سینیٹ کی چارنشستوں کے لئے ان کے درمیان اندرونی جنگ کا آغاز ہوگیاپھر سب نے دیکھا کہ متحدہ قومی موومنٹ پاکستان بھی دو دھڑوں میں تقسیم ہوئی ایک پی آئی بی کہلائی تو دوسری بہادر آباد۔ اس جنگ کے مرکزی کردارکامران ٹیسوری تھے جنکی نامزدگی پر ڈاکٹر فاروق ستار اور عامر خان گروپ میں شدید اختلافات سامنے آئے۔ آنسو بہنے کے جذباتی مناظر بھی دیکھے گئے، ایک دوسرے کو دلاسے بھی دیتے دکھائی دیئے لیکن کوئی بھی اپنی بات سے پیچھے ہٹنے کو تیار نہ ہوا۔ بات الیکشن کمیشن تک پہنچی جو آگے بڑھ کر قانونی جنگ کی شکل بھی اختیار کرے گی۔ گزشتہ دنوں اسلام آباد یاترا کے دوران ہی ڈاکٹر فاروق ستار اور کامران ٹیسوری سے بھی سیر حاصل گفتگو ہوئی۔ ڈاکٹر فاروق ستار پاکستان کے ان چند سیاسی رہنمائوں میں سے ایک ہیں جو انتہائی دبائو میں بھی بہترین نتائج دینے میں مہارت رکھتے ہیں۔ ان کا کہنا تھاکہ بات سینیٹ کے ایک ٹکٹ کی نہیں ہے۔ بائیس اگست کے بعد جب پارٹی کے اہم ترین لیڈرز نے روپوشی اختیار کی، کچھ بیرون ملک چلے گئےتواس مشکل وقت میں پارٹی میں شامل ہوا اور ہر طرح سے پارٹی کے ساتھ کھڑا رہا۔ پارٹی کو بہت سی مشکلات سے نکالنے میں ہر طرح کا کردار ادا کیا اور پھر جب پارٹی کے اندر ہی سینیٹ، قومی اسمبلی وصوبائی اسمبلی کی نشستوں کے لئے مشاورت ہوئی تو چھ اہم ترین پارٹی رہنمائوں نے کامران ٹیسوری کانام آگے بڑھایا ان میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جو آج ان کی مخالفت کررہے ہیں، تو ہم احسان فراموش ہر گز نہیں ہیں جبکہ کامران ٹیسوری کی متحدہ سے محبت سینیٹ کی نشست کے لئے نہیں ہے لیکن بات پارٹی صدر کی حیثیت سے اتھارٹی کی ہے ڈمی عہدہ قبول نہیں کیا۔ اس موقع پر کامران ٹیسوری نے بھی بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ وہ چاہے پارٹی میں ابھی شامل ہوئے ہوں لیکن متحدہ رہنمائوں سے ہمدردیاں بہت پرانی ہیں، آپریشن کے زمانے میں بہت سے پارٹی رہنمائوں کو روپوشی کے دن گزارنے ہوں یا وکیلوں کی خدمات چاہیے ہوں، حتی کے لندن سے خط وکتابت کے لئے فیکس بھی ان کا ہی استعمال ہوتا رہا ہے جب مہاجروں پر مشکل وقت دیکھا تو بائیس اگست کے بعد فاروق ستار بھائی کو جوائن کیا، اپنی خدمات کو منظر عام پر لاکر چھوٹے پن کا مظاہرہ کرنا بھی ٹھیک نہیں ہے لیکن ہماری کو شش ہے کہ پارٹی کو دوبارہ ایک کریں اور اختلافات کو گھرمیں ہی حل کرلیں۔ ہماری کوشش ہوگی کہ متحدہ کی کوئی بھی پارلیمانی سیٹ ضائع نہ ہوسکے۔ باقی جاپان کی جمہوریت اور سیاست میں راوی سب چین ہی چین لکھتا ہے۔

تازہ ترین