• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

خدشات حقیقت بن کر غرا رہے ہیں۔ آرزوئیں اسمبلیوں میں تڑپ رہی ہیں۔ اُمنگیں کروڑوں روپے کی پرتعیش گاڑیوں کے نیچے کچلی جارہی ہیں۔ اصول بوٹوں تلے پامال ہورہے ہیں۔ ہونٹ بار بار جھوٹ بولنے سے جل رہے ہیں۔ کان کھوکھلے دعوئوں تلے دب کر فریاد کررہے ہیں۔ تدبیریں سہمی ہوئی ہیں۔ سازشیں سر چڑھ کر بول رہی ہیں۔
سینیٹ کا الیکشن اپنے ساتھ ہمیشہ بے یقینی لے کر آتا ہے۔ اس میں جلسے کام آتے ہیں نہ دبنگ تقریریں۔ مارچ میں پہلے تو کبھی کبھی ڈبل مارچ بھی ہوجاتا تھا۔ چالیں ہو یا لائحہ عمل ہمیشہ متبادل بنائے جاتے ہیں۔ عسکری تاریخ کے اوراق شاہد ہیں کہ جنگ کے نقشے بھی کئی کئی بنائے جاتے ہیں۔ پیش قدمی۔ پسپائی سارے امکانات سوچے جاتے ہیں۔
1970 کے انتخابات کے بعد ہم لاڑکانہ سے سکھر جارہے ہیں۔ رائس کینال کے ساتھ ساتھ کچے راستے پر۔ ذوالفقار علی بھٹو۔ سندھ پنجاب میں اکثریت لے کر سامنے آئے ہیں۔ میں ان کے ساتھ گاڑی میں انتخابات کے بعد پہلے انٹرویو کا صحافتی اعزاز حاصل کررہا ہوں۔ گاڑی بیرسٹر کمال اظفر صاحب کی ہے۔ ان دِنوں خدشہ یہ ہے کہ شیخ مجیب الرحمن جس بھاری اکثریت کے ساتھ قومی اسمبلی میں آرہے ہیں۔ اس سے مغربی پاکستان کے صوبوں کے حقوق زد میں نہ آئیں۔ میں ان سے پوچھ رہا ہوں کہ ’’آپ دوایوانی مقننہ کو ترجیح دیں گے یا ایک ایوانی کو‘‘۔ وہ جواب دے رہے ہیں۔ ’’اگر وفاقی دستور چاہتے ہیں تو دو ایوانی مقننہ کے بغیر چارہ نہیں ہے۔ کوئی وفاق اس کے بغیر نہیں چل سکتا۔ اس کی عدم موجودگی میں بعض علاقوں کے حقوق پر زد پڑے گی۔ میں اس بات کی ذمّہ داری قبول کرچکا ہوں اس لئےاس ذمّہ داری کو نبھاتے ہوئے دو ایوانی مقننہ قائم کرنے پر زور دوں گا‘‘۔ بیرسٹر کمال اظفر لقمہ دے رہے ہیں ’’تمام علاقوں کی نمائندگی اور خودمختاری کے لئے دو ایوان ضروری ہیں۔ تاکہ آبادی کی بنیاد پر بھی نیابت ہوسکے اور یونٹوں کی بنیاد پر بھی‘‘۔
درمیان میں پاکستان کی تاریخ کے سیاہ ترین مہینے آجاتے ہیں۔ اپنوں کی غلط منصوبہ بندی۔ طویل فوجی کارروائی۔ ظالمانہ رویوں اور بھارت کی سیاسی سفارتی اور فوجی مداخلت سے ہمارا اکثریتی بازو ہم سے الگ ہوجاتا ہے۔ لیکن دو ایوانی مقننہ پھر پنجاب کے اکثریتی صوبے کے مقابلے میں دوسرے چھوٹے صوبوں کی مساوی نمائندگی کے لئے ناگزیر سمجھی جاتی ہے اور یہ بھی طے ہوتا ہے کہ قومی اسمبلی تو مدت پوری ہونے پر ساری کی ساری تحلیل ہوجائے گی۔ نئے انتخابات ہوں گے لیکن سینیٹ قائم رہے گی۔ جو جمہوری تسلسل کی علامت ہوگی۔ اس میں آدھے ارکان 3 سال بعد چلے جائیں گے۔ اتنی ہی تعداد میں نئے ارکان منتخب ہو کر آتے رہیں گے۔ اس کے دو مقاصد ان دِنوں بیان کئے جاتے تھے کہ اس میں وفاق کی تمام وحدتیں یکساں نمائندگی حاصل کریں گی۔ صوبہ چھوٹا ہو یا بڑا۔ ارکان اتنے ہی ہوں گے۔ دوسرا مقصد یہ تھا کہ اس کا انتخاب چونکہ صوبائی اسمبلیوں کے ارکان کے ذریعے ہونا ہے۔ اس لئے قومی سیاسی جماعتیں یہاں ایسے ماہرین کو منتخب کروا سکتی ہیں جو عام انتخابات میں نہیں جیت سکتے۔ ان میں وکلاء۔ پروفیسرز۔ علمائے دین۔ فنکار۔ مسیحا۔ تاجر۔ صنعت کار۔ خواتین شامل کی جاسکتی ہیں۔
مگر ہماری بدقسمتی کہ فوجی حکومتوں نے جمہوریت کے اس تسلسل پر بھی قومی اسمبلی کی طرح تلوار چلائی۔ ایوان بالا (UPPER HOUSE) کے ارکان کو بھی گھر بھیج دیا گیا۔ جنرل ضیا نے بعد میں جب ادارے بحال کئے تو ایک اچھی شرط عائدکردی کہ قومی اسمبلی کا الیکشن ہارنے والے سینیٹ کا انتخاب نہیں لڑ سکیں گے۔ بعد میں سیاسی حکومتوں نے یہ شرط ختم کردی۔ اب یہ عام انتخابات ہارنے والوں کی جنت بھی بن گئی ہے۔
بھارت میں ایوان بالا کو راجیہ سبھا کہا جاتا ہے۔ وہاں بہت سے نامور ادیب۔ شاعر۔ اداکار۔ اداکارائیں۔ دانشور۔ ایڈیٹر اس کے رکن منتخب کروائے جاتے ہیں۔اس طرح یہ دونوں مل کر پارلیمنٹ کہلاتے ہیں اور عوام کی نمائندگی کا ایک حسین امتزاج بن جاتے ہیں۔
پاکستان میں کمرشلزم اور وہ بھی کرخنداری انداز کا۔ 80 کے عشرے سے حاوی ہوگیا ہے۔ اس لئے سینیٹ خرید و فروخت کا ایسا مرکز بن گیا ہے کہ اسے ایوان بالا کی بجائے بالا خانہ کہا جاسکتا ہے۔اکثر سیٹیں نیلام ہوتی ہیں۔ بعض سے صوبائی اسمبلی کے ارکان براہِ راست مال بناتے ہیں۔ قومی اسمبلی کے ارکان کروڑوں روپے کے خرچے سے الیکشن جیتتے ہیں۔ انہیں اپنی وصولی کے لئے ایسا کوئی ذریعہ نہیں ملتا۔ صوبائی اسمبلیوں کے ارکان 3 سال بعد آنے والے مارچ کا انتظار کرتے ہیں۔ ان کو نئی قیمتی گاڑیوں اور نئے بنگلوں کی اُمید بلکہ یقین ہوتا ہے۔
دانشور تو سینیٹ میں کم جاسکتے ہیں کیونکہ دانش کی مالی قدر صفر ہے۔ البتہ بڑے جاگیردار۔ سردار۔ صنعت کار۔ کئی کئی کروڑ خرچ کرکے سینیٹر بنتے رہے ہیں۔ اپنے کاروباری مسائل آسانی سے حل کرواتے رہے ہیں۔
ایک اور دلچسپ صورت یہ ہے کہ سینیٹ کی ووٹنگ میں حساب کتاب اعداد و شمار تناسب اور فیصد کا بڑا حصہ ہے۔ کچھ ووٹ تو پورے پورے ہوتے ہیں۔ کچھ اضافی نکات ہوتے ہیں۔ بعض اوقات یہ اضافی نکات ہی کسی کے لئے سینیٹ کا دروازہ کھول دیتے ہیں۔ 80 کی دہائی میں ممتاز سیاستدان جام کرم علی بھی اُمیدوار تھے۔ ووٹوں کی گنتی دیکھ کر مایوس ہو کر وہ گھر جا کر سو گئے۔ لیکن مختلف ارکان کے ووٹوں کے اضافی نکات کو جب جوڑا گیا تو قرعہ ٔ فال جام صاحب کے نام نکل آیا۔ قسمت کی دیوی یوں بھی مہربان ہوجاتی ہے۔
اب پھر سینیٹ کا الیکشن ہونے والا ہے۔ ملک کی اکثریتی اور حکمراںپارٹی اس سے باہر کردی گئی ہے۔ خدشات اُچھل کود رہے ہیں۔ سب سے بڑا روپیا۔ کیا دِن دِکھاتا ہے۔ کراچی میں متحدہ قومی موومنٹ کے کئی دھڑے ہوچکے ہیں۔ بلوچستان میں بھی سینیٹ کے الیکشن کے عین نزدیک گھر کے اندر تبدیلی آگئی ہے۔ اس لئے سیاسی نقشے تبدیل ہونے کے امکانات ہیں۔
کون معشوق ہے اس پردۂ زنگاری میں
محنت ہورہی ہے۔ کرنسی کی شرح تبادلہ بڑھ رہی ہے۔ آئین بنانے والوں نے ایوان بالا جن اعلیٰ مقاصد کے لئےتعمیر کیا تھا وہ شرمندہ ہو کر ایک اسٹور میں پناہ گزین ہوگئے ہیں۔ کچھ سیٹیں پگڑی پر دی جارہی ہیں۔ بیعانے پکڑ لئے گئے ہیں۔ غیر سیاسی قوتوں کو بھی اس سیاسی عمل سے بڑی دلچسپی ہوتی ہے۔
دونوں ایوانوں میں ایک سے چہرے۔ ایک سی تقریریں۔ ایک سے سودے ہوتے ہیں۔ میاں رضا ربانی نے چیئرمین کی حیثیت سے کچھ اصول بحال کرنے کی کوشش کی تھی۔ ان کا دور یاد رکھا جائے گا۔ وہ وردی والوں سے وزارت کا حلف بھی نہیں لیتے تھے۔ لیکن ان ہی کے دور میں ایک آرمی چیف نے سیکورٹی پر بریفنگ دی۔ وہ ان کو جس خوش اعتمادی سے ایوان میں لے کر آئے تھے۔ وہ یادوں میں اب بھی جگمگا رہی ہے۔

تازہ ترین