• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آج دنیا کا اجتماعی انسانی شعور اس سطح پر آچکا ہے جہاں افراد کے انسانی بنیادی حقوق کو نہ صرف یہ کہ کم ازکم اصولی و نظری طور پر تسلیم کر لیا گیا ہے بلکہ اقوام کے اس حق کو بھی عملی کوتاہیوں کے علی الرغم مان لیا گیا ہے کہ اُن پر جارحیت یا بیرونی جبری قبضہ ناقابلِ قبول ہے۔ اگر دنیا کے کسی مخصوص خطے یا خطوں میں ہمیں ہنوز ایسی کچھ مثالیں ملتی ہیں تو ان کا تجربہ مخصوص پس منظر اور روا رکھی گئی کئی کوتاہیوں کے تناظر میں کیا جائے گا۔ جواز تو ہر چیز کا پیش کیا جا سکتا ہے اور پیش کیا جاتا رہا ہے ماضی قریب کی مثال ہے جب ایک اسلامی ملک کے ڈکٹیٹر کے مظالم نے امریکہ کے لیے یہ جواز پیدا کر دیا کہ وہ اس قوم کی آزادی کیلئے جبر کے خلاف یلغار کرے تو ہماری مسلم ورلڈ سے بہت سی آوازیں اٹھیں کہ امریکہ کی یہ یلغار غیر قانونی اور ناجائز ہے اس لیے کہ امریکہ نے یو این سے اس کی اجازت حاصل نہیں کی ہے۔ ہم نے انہی دنوں اپنے کالموں میں یہ سوال اٹھایا کہ اسی ملک پر جب ڈیڑھ ہزار برس قبل ہم نے یلغار کرتے ہوئے نہ صرف قبضہ جمایا تھا بلکہ ہمیشہ کیلئے اپنے اندر ضٗم کر لیا تھا اُس وقت ہم نے کس یو این یا اقوام کے لبرٹی چارٹر سے اجازت حاصل کی تھی؟
یونانیوں کی تمامتر فکری عظمت سکندرِ اعظم کو دنیا فتح کرنے کے خبط سے نہ نکال سکی بلکہ الٹا اُس نے شاید اُسے یہ مہمیز دی کہ اس اعلیٰ تہذیبی عظمت کو دنیا میں برآمد کرو اس درآمد برآمد میں بے گناہ انسانی خون بہتا ہے تو ہمیں کیا۔ سکندرِاعظم تو خیر ایک تہذیبی عظمت کا نمائندہ تھا یہاں تو ہلاکو خاں اور ہٹلر جیسے خونخواروں نے محض ذاتی انا و غرور کے گھمنڈ یا گھٹیا قومی تفاخر کے زیر اثر انسانی خون بہانے سے لذت محسوس کی۔ سنٹرل ایشیا کے متکبرین یا افغانستان کے خوانین جب ہندوستان پر یلغار کرتے رہے تو اس کا کیا اخلاقی جواز تھا؟ خلجی، تغلق، محمد غوری نادرشاہ یا سلطان محمود یکے بعد دیگرے ہندوستان پر جس طرح چڑھائی کرتے رہے اس کا آخر کیا اخلاقی جواز ہے۔ یہ سب حضرات ہندوستان میں تہذیبی عظمت پھیلانے آتے تھے یا شب خون مارنے اور لوٹ مار کرنے؟ متحدہ ہندوستان میں کمیونل مسئلے کا حل بٹوارہ تھا یا جمہوری حقوق کا تحفظ کرتے ہوئے مزید اشتراک؟ اس پر کم ازکم پاک سرزمین کی موجودہ فضا میں آزادانہ مباحثہ ناممکن ہے اور اس وقت تک ناممکن ہے جب تک ہم جبر کے شکنجے سے باہر نہیں نکل آتے۔ یہ تو دور کی بات ہے یہاں تو کشمیر ایشو پر لاجک کی بات ممکن نہیں ہے ۔
اقوامِ دیگر پر بیرونی یلغار اگر آج غلط ہے تو پچھلی صدیوں میں روا رکھی گئی ایسی تمامتر وارداتیں بھی غلط قرار پانی چاہئیں۔سلطنت ِمغلیہ کا قیام اگر درست تھا تو پھر یہاں انگریزوں کی حکمرانی کیسے غلط تھی؟ جبکہ مسلم جارحین و فاتحین ہزار برسوں میں بھی خطے کے باسیوں کی وہ خدمت کرنے سے قاصر رہے جو کرشمہ برٹش رول نے محض 90برسوں میں کر دکھایا؟ کوئی بھی سلیم العقل ترازو کے دونوں پلڑوں میں ہر دو قابضین کی کارکردگی تول کر دیکھ لے۔ درویش کے پیرو مرشد سر سید شاید اسی لیے آخر الذکر کا دورانیہ مزید بڑھانا چاہتے تھے تاکہ خطے کے باسی تہذیبی تربیت کے اس بہتر مقام پر فائز ہو سکیں جہاں وہ اپنی اقوام کے لیے زحمت کی بجائے رحمت ثابت ہوں۔
1857کے غدر اور اس کے نتائج کی جتنی بھی مذمت کر لی جائے اور انگریز کی حکمرانی میں جتنے بھی کیڑے ڈال لیے جائیں یہ ایک حقیقت ہے کہ آج خطے میں شعور کی جو رمق ہے وہ سب اسی غلامی کا فیضان ہے ورنہ آج کے افغانستان کی جو کیفیت ہے ہماری حالت اس سے مختلف نہ ہوتی بلکہ اس تلخ سچائی کو شاید ہضم نہ کیا جا سکے گا کہ غلامی کے 90سالوں کا تقابل اگر آزادی کے 70سالوں سے کیا جائے تو ہم اخلاقی و تہذیبی زاویہ نگاہ سے ترقی کی بجائے پستی و تنزلی کی طرف گئے ہیں۔ ماقبل ہم اگر سفید چمڑی اور عالی دماغ کے غلام تھے تو مابعد ہم کالی چمڑی اور پست دماغ کی غلامی کے دور سے گزر رہے ہیں۔
1947 میں بظاہر ہم نے پارٹیشن کی صورت کمیونل مسئلہ حل کر لیا ہے لیکن فی الحقیقت خطے میں بسنے والی مسلم کمیونٹی کے تین ٹکڑے کر ڈالے ہیں اگر متحدہ ہندوستان میں مسلمانوں کے حقوق کا تحفظ نہیں ہو رہا تھا تو پارٹیشن کی صورت یہ مسئلہ کیسے حل ہو گیا جبکہ20کروڑ سے زیادہ مسلم مینارٹی کو ہم ہندووں کے رحم و کرم پر چھوڑ آئے ہیں۔ مسلم میجارٹی کے خطوں میں تو الحمد للہ پہلے ہی حقوق یا زندگیوں کے تحفظ کا کوئی ایسا ایشو نہیں تھا مسئلہ تو مینارٹی خطوں کی مسلم آبادیوں کو تھا سو وہ تو آج بھی جوں کی توں ہیں بلکہ انہیں میجارٹی خطوں سے جو ڈھارس ملتی تھی اُس کی تو ہم نے جڑہی کاٹ دی جو ہلکی سی بچی ہے اُسے کاٹنے پر تلے بیٹھے ہیں۔ کیا یہی ہماری مسلم نوازی ہے کہ اپنے کروڑوں بھائیوں کو دشمن کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا جائے اور مزید مہربانی یہ کی جائے کہ دشمنی کی آگ پر مزید تیل چھڑکا جائے تاکہ اُن کا غصہ مزید بھڑکے۔ کیا اس طرح ہم اپنے بھائیوں کا بھلا کر رہے ہیں یا نقصان؟
اب بھی وقت ہے کہ اپنی اس کوتاہ بینی کی سوچ پر نظرثانی کرتے ہوئے نفرت اور دشمنی کی فضا کا فوری خاتمہ کریں، سبق چکھانے یا مرنے مارنے کے نعروں کو خیر باد کہتے ہوئے پیار محبت اور امن و سلامتی کی دوطرفہ صدائیں بلند کریں۔ ماضی کے تمام جارحین پر تین حروف بھیجتے ہوئے اپنے حال کو خوشگوار بنائیں نواز شریف کی انسان نوازی پر مبنی سوچ کو سلام کہیں خطے میں تعمیر و ترقی اور خوشحالی کے نئے دور کا آغاز کرتے ہوئے غربت جہالت اور بیماری کے خلاف اعلان جنگ کریں۔ یہ عہد کریں کہ ہم نے عدل و انصاف کے ساتھ آگے بڑھنا ہے تمام مذاہب کا احترام کرنا ہے لیکن جمہوریت، انسانی حقوق اور آزادیاں ہماری منزل یا ٹارگٹ ہیں۔ شعوری سربلندی کے ساتھ اقوامِ عالم کے دوش بدوش ہم انسانی دکھوں کو راحتوں اور مسکراہٹوں میں بدلیں گے۔

تازہ ترین