• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کافی سوچ بچار کے بعدمیں چند سیاسی مفکرین کی اِس رائے سے متفق ہوں کہ ایم کیو ایم کا ووٹ بینک آج بھی کم و بیش برقرار ہے ۔لیکن ووٹرزکے لئے یہ فیصلہ کرنا مشکل ہو رہا ہے کہ بکھری ہوئی پارٹی کے کس دھڑے کی حمایت کی جائے ۔اِنہیں فی الحال یہ اندازہ بھی نہیں کہ سال 2018کے عام انتخابات تک کون کس دھڑے میں شامل ہوگااور کون سا دھڑا انتخابات میں حصہ لے سکے گا اور کون سا نہیں!
تذبذب کی یہ کیفیت عام ووٹرز تک محدود نہیںبلکہ پارٹی کے مشہور رہنما بھی مستقل اِسی صورتحال سے دو چار ہیں ۔ ایک زمانہ تھا جب ایم کیو ایم کے کسی بھی رہنما کی تقریر میں مخل ہونے کا تصور ہی نہیں تھا۔ اِن کی تقاریر میں روانی ہوا کرتی تھی ، پارٹی پر عتاب کے دوران بھی زیادہ تر تقاریر میں روایتی گرج اور بلا کا اعتماد دکھائی اور سنائی دیتا تھا ۔ تقریر میں مصروف پارٹی کا بڑا یا چھوٹا رہنما آس پاس پیدا ہونے والی کسی بھی آواز یا دیگر مداخلتوں پر کان نہیں دھرتا تھا؛ بلکہ سچائی یہ ہے کہ ماحول میں ایسی کسی مداخلت یا رکاوٹ کی گنجائش ہی نہیں ہوا کرتی تھی ۔لیکن اب صورتحال مختلف ہے۔
دیکھنے میں آیا ہے کہ کم و بیش اب ہر پارٹی رہنما کی توجہ اپنی تقریر سے زیادہ آس پاس کھڑے ساتھیوں کی با ت یا گفتگو سننے یا ان کے موبائل پر آئے ہوئے پیغامات یا فون کالز پر ہوتی ہے ۔ تقاریر اورخطابات کے دوران چہروں کے تاثرات سے واضع ہوجا تا ہے کہِ ان کی توجہ بری طرح بٹی ہوئی ہے ۔ یہ کوئی بڑا انکشاف نہیں بلکہ براہ راست نیوز کوریج کے دوران یہ سب کچھ واضع طور پر دکھائی دیتا ہے ۔
ایک جانب تو بظاہر یہ کوئی انتہائی خفیہ سی بات لگتی ہے لیکن دوسری جانب پارٹی میں حالیہ دھڑے بندی ، رہنمائوں کے درمیان بیان بازی اورخطابات کے حالیہ سلسلے کواگر مد نظر رکھا جائے تو توجہ کے مستقل بٹے رہنے کا یہ معاملہ کسی حد تک سمجھ میں آ سکتا ہے۔ غالبا ً یہ تو معلوم نہیںہو سکتا کہ کسی رہنما کی تقریر کس خاص ایس ایم ایس یا فون کال پر متاثر ہوئی لیکن یہ اندازہ ہو جاتا ہے تقریر کرنے والا پل پل کی پیش رفت سے آگاہ ہونے کی کوشش میں تقریر کی روانی پر توجہ دینے سے قاصر رہتا ہے۔ وفادار ساتھیوں اور دوست صحافیوں کے ذریعے پل پل کی خبر رکھنا شاید اِن خاص دنوں میں تقاریر سے پہلے، تقاریر کے دوران اور تقاریر کے بعد ضروری سمجھا جا رہا ہے۔
ایک بار ڈاکٹر فاروق ستار ایک صحافی کو تقریر کے دوران مخل ہونے پر انتہائی پیار سے ٹوک چکے ہیں۔یہ کام تو انہوں نے غالبا ً ٹھیک ہی کیا تھالیکن اُن کا براہ راست ٹیلی کاسٹ ہونے والے خطاب میں حیدر عباس رضوی کی کال سننے کا انداز پہلے سے پریشان حال ووٹرز کو مزید تجسس سے دوچار کر گیا۔عام حالات میں ڈاکٹر صاحب مفصل تقریر ضرور کرتے ہیں لیکن فون کالز، ایس ایم ایس یا آس پاس سے آنے والی آوازوں پر انہیں پہلے شاید یوں متوجہ ہوتے نہیں دیکھا گیا، اُس دور میں بھی جب لندن سے دی جانے والی ہدایات پر ہر وقت چوکنا رہنا پڑتاتھا ۔
پروگرام سیاسی نوعیت کا ہو یا کوئی سیمینار ، اس نئی صورتحال سے قبل فیصل سبز واری کی تقاریر میں روانی کے ساتھ ساتھ زبان پر مہارت، ادب اور شاعری کا کمال امتزاج پایاجاتا تھا۔ لیکن اب ان کے خطابات میں مخل ہونا بھی شاید کافی آسان ہوگیا ہے۔ وہ بھی، بظاہر، کسی ایس ایم ایس ، کسی کی فون کالز اور آس پاس سے آنے والی آوازوں کی جانب مستقل متوجہ رہتے ہیں : ر ک رک کر بولتے ہیں۔ خالد مقبول صدیقی کی گفتگو میں روانی اگرچہ اب بھی باقی ہے لیکن تقاریر میں شعلہ بیانی کا عنصر پہلے جیسا نہیں: عموما ًپریشا ن دکھائی دیتے ہیں! رونے دھونے کا سلسلہ ایک نئی روایت ہے ۔
سچ یہ ہے کہ اس قسم کے خطابات اور تقاریر کے اِس انداز کے سبب ووٹرز تک پہنچنے والا پیغام راستے ہی میں شدید ابہام کا شکار ہو جاتا ہے ۔ لہٰذا پارٹی کی روایتی حمایت پر کاربند رہنے کے باجود ایم کیو ایم کا ووٹر شدید تذبذب کی اِس مستقل کیفیت کے سبب کوئی ذہن بنانے میں اب تک مکمل طور پر ناکام رہا ہے ۔ بہادر آباد اور پی آئی بی کے درمیان کبھی اختلافات اور کبھی مفاہمت کی خبریں ، بیان بازی اور مداخلت سے بھرپور تقاریر سنتے رہنے کے سبب ووٹرز کی پریشانی جوں کی توں قائم ہے۔ وہ منتظر ہیں کہ اگلے انتخابات کے تناظر میں انہیں جلد کوئی واضع رہنمائی حاصل ہوجائے ۔
بہادر آباد اور پی آئی سے باہرکی دنیا بہت زیادہ مختلف نہیں۔ شہر میں ایم کیو ایم کے خاص علاقوں میں پارٹی کے عام ووٹرز ہر گز دھڑے بندی کے حق میں نہیں ! سچ یہ ہے کہ ایم کیو ایم کے حمایتی دھڑے بندیوں کے ہمیشہ خلاف رہے ہیں اور شاید اسی لئے پارٹی سے پہلی بغاوت کرنے والے آفاق احمدکو بھی کبھی مقبولیت حاصل نہیں ہوسکی۔ مصطفی کمال کی بے پناہ مقبولیت بھی آج اسی فارمولے کے تحت متاثر ہوتی محسوس ہو رہی ہے۔ زیادہ تر ووٹرز آج بھی کسی ایک دھڑے کی حمایت یا مخالفت کے لئے تیار نہیں وہ اس تفریق سے کسی طور خوش نہیں! کون جانے کہ بہادرآباد اور پی آئی بی میں بیٹھے رہنمائوں کو ووٹرزکی اِس پریشانی کاکتنا اندازہ اور ادراک ہے۔
ماضی میں بانی ایم کیو ایم پراِن کے مخالفین تنقید کیا کرتے تھے کہ انہوں نے اپنے طویل سیاسی کیرئیر میں کبھی بھی اپنا کوئی جانشین تیار کیا اور نہ ہی کسی کو اس حیثیت سے دیکھا! جمہوری روایات کے تناظر میں اگرچہ یہ تنقید معروضی ہے لیکن قیادت سے متعلق موجودہ بحران ایک طرف پچھلی قیادت کی ٹھوس پیش بینی کااشارہ دیتا ہے اور دوسری جانب ’’جانشینی ‘‘ پر اس کے فیصلے کی بظاہر تائید کرتا نظر آتا ہے۔
حال ہی میں پی آئی بی کی فضائوں میں ’’بڑے بھائی کا چھوٹا بھائی، فاروق بھائی فاروق بھائی‘‘ کا نعرہ گونجتے سناگیا ۔ اس نعرے کا صحیح مفہوم تلاش کرنا بدلتی ہوئی صورتحال میں اہم ثابت ہو سکتاہے ؛ لہٰذا ساتھی صحافی حضرات اورتجزیہ کاراگر اس نعرے کے مفہوم پر اپنے خیالات کا اظہار کریں تو مستقبل قریب میں واضع ہونے والی صورتحال کا پیشگی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ اُدھر ایم کیو ایم کے ووٹرز آج بھی اس شدید کشمکش میں مبتلا ہیں کہ 2018کے انتخابات کے لئے فیصلہ کن رہنمائی کا اصل منبع کہاں واقع ہے: شہر کراچی کے کسی علاقے میں ، ملک کے کسی اورمقام پر یا پھر سمندر پار ؟

تازہ ترین