• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

تھوڑا عرصہ پہلے میں کسی ٹی وی چینل پر ایک خبر دیکھ رہا تھا جس میںا سکول کے چھوٹے چھوٹے بچے اپنے اسکول کے سامنے شاہراہ پر احتجاج کررہے تھے۔خبر یہ تھی کہ بچوںکے کسی پسندیدہ استاد کا کسی دوسرےا سکول میں تبادلہ کردیاگیا ہے جس کی وجہ سے بچے سراپا احتجاج بنے ہوئے تھے وہ نہ صرف نعرے بازی کررہے تھے بلکہ دس سے بارہ سال کی عمروں کے یہ بچے اپنے سرکاری اسکول کے فرنیچر کی توڑ پھوڑ کررہے تھے بلکہ فوٹیج میں ایک جگہ انہوںنے اس فرنیچر کوآگ لگانے کی کوشش بھی کی ۔میں سوچ رہا تھا کہ مذکورہ ٹیچر نے بچوںکے دلوں میں رہنے اور اپنے حسن سلوک یا پڑھانے کے انداز سے محبت کی جوت تو جگائی لیکن ان بچوں کی وہ تربیت نہ ہوسکی جو ٹیچر کے ساتھ ساتھ اس تعلیمی ادارے کے ساتھ بھی محبت ہوناچاہیے تھی جس اسکول یا درس گاہ نے انہیں اپنے سائے میں سیکھنے اور تعلیم حاصل کرنے کیلئے پناہ دی تھی۔ بچوں میں جوش اور تشدد نظر آرہا تھا۔جو مستقبل میں ان بچوں کی عملی زندگی میں نہ جانے کیا شکل اختیار کرے گا۔ اب آپ کے سامنے ایک اور تصویر رکھتا ہوں چندروز قبل بسنت اور پتنگ بازی کا خوب شور تھا ۔حکومت پنجاب اوراسلام آباد میں پتنگ بازی پر پابندی عائد تھی میں راولپنڈی سے سپر ہائی وے کے ایک نئے تعمیر شدہ انٹرچینج سے اسلام آباد میں داخل ہورہا تھا۔ جہا ںپنجاب پولیس کے کچھ اہلکار ایک پولیس وین کے ساتھ کھڑے تھے۔ پولیس وین میں درجنوں ضبط شدہ پتنگیں اور ڈور بھی پڑی تھی۔جبکہ پولیس نے دو نوجوانوں کو بھی پکڑ رکھا تھا۔ میں کچھ دیر کے لئے وہاں رک گیا اور اسی وین اور پولیس کے عقب میں جب نگاہ دوڑائی تو آسمان پر سینکڑوں پتنگیں ہوا میں اڑ رہی تھیں جبکہ اسپیکرز سے میوزک اور دوسری آوازیں بھی آرہی تھیں اور گاہے بگاہے فائرنگ کی آواز بھی سنائی دے رہی تھی میں نے ایک پولیس اہلکار سے پوچھا کہ یہ کیا ہورہا ہے وہ دیکھیں آسمان پر پتنگیں اڑ رہی ہیں۔تو پولیس اہلکار نے کہا جی کیا کریں۔ ہمارے پاس اتنی نفری نہیں کہ ہم ہرگھر اور ہر چھت پر چھاپے مارتے پھریں اور لوگوں کو خود خیال کرناچاہیے کہ حکومت نے پابندی لگارکھی ہے میں پولیس اہلکار کی بات سن کر لاجواب سا ہوگیا اور سوچنے لگا کہ میں بھی کئی روز سے شہر کی شاہرائوں پر لگے ہوئے بینرز دیکھ رہا ہوں جس میں واضح طورپر لکھاہے کہ جس چھت سے بھی پتنگ بازی ہوئی اس کے رہائشی یا مالک کو گرفتار کیاجائے گا۔میڈیا میں بھی کئی روز سے یہ خبر یں چل رہی ہیں لیکن لوگوں میں قانون کا،حوالات میں بند ہونے کا یا اہل محلہ کے سامنے گرفتار کرکے لے جانے کا کوئی خوف ہی نہیںہے بلکہ سب پتنگ اڑانے والے بغیر کسی خوف کے یہ سب کام کررہے ہیں۔ہمارے ہی معاشرے کی ایک اور تصویر کہ پتوکی جلسے میں مسلم لیگ ن کی ایک خاتون رہنما جس کا نام زیبا رانا بتایاجاتا ہے ۔وہ جلسہ گاہ کیا چلی گئی۔ اوباشوں نے اس پر حملہ کردیا۔ اس کے کپڑے اوربال نوچے گئے اس کو دھکے دیئے گئے۔اس کی کہنی سے خون بہہ نکلا اور وہ بے چاری روتی چیختی چلاتی وہاں سے بڑی مشکل سے جان بچا کر نکلی اور یہ پہلی مرتبہ نہیں ہوا۔اس سے پہلے پی ٹی آئی کے جلسوں میں بھی ہم نے دیکھا کہ خواتین کے ساتھ اس طرح کا تشدد اور بد تمیزی کی گئی۔ہم نے نہیں دیکھا یا سنا کہ کسی کو سزا ہوئی ہو۔البتہ بیانات اور ایک دوسرے پر الزامات سنے اور لگائے جاتے رہے۔ اسی طرح ہم سیاسی جلسوں میں جب کھانا کھلتا ہے یا کیک کٹتا ہے تو وہاں جس طرح کی ہلڑ بازی دیکھنے میں آتی ہے ،سر شرم سے جھک جاتے ہیں۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ سب کچھ کیا ہے۔ ہماری سیاسی جماعتوں نے ،ہماری قیادت نے ہمیں یعنی ہماری یوتھ کو اور حمایت کرنے والوں کو یہ تو سکھایا ہے کہ جھنڈے کس طرح لہرانے ہیں۔نعرے بازی کس طرح کرنی ہے۔دھرنے کس طرح دینے ہیں۔سیاسی مخالفین پر کیچڑ کس طرح اچھالنا ہے۔ لیکن ہماری قیادت ہمارے رہنما یہ نہیں سکھا سکے کہ نظم وضبط کیا ہوتا ہے۔ دوسروں کا احترام کیا ہوتا ہے۔ قومی یکجہتی اور رواداری کیا ہوتی ہے۔ خواتین کے ساتھ کس طرح کا برتائو کرنا ہے۔ پی ٹی آئی کے جلسوں میں یا مسلم لیگ ن کے جلسے میں خاتون پر حملہ اور چھیڑ خانی یہ چند نوجوانوں نے نہیں کی بلکہ ہماری ساری سیاسی قیادت کی ذمہ داری ہے جس نے گالیاں تو سکھا دیں ۔مخالفین پر کیچڑ اچھالنا تو سکھا دیا لیکن وہ سب کچھ سکھانے کی کوشش نہیں کی جو کامیاب اور اچھے لوگوں کاخاصہ ہوتا ہے۔ہم چند نوجوانوں کی پارٹی رکنیت فارغ کرکے یا چند روز حوالات میں بند کرکے کچھ حاصل نہیں کرسکیںگے جب تک ہماری لیڈر شپ خود اپنا احتساب نہیں کرے گی۔

تازہ ترین