• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بات تھوڑی سی سنجیدہ اور قابل غور ہے۔ برداشت کر لیجئے کہ آج کل ہمارے ہاں برداشت کا کلچر کمزور ہورہا ہے اور سنجیدگی کا موسم انتخابی گرمی میں خزاں رسیدگی کا شکار ہے۔ نعرے لگانے والے، جذبات کی آگ بھڑکانے والے، اپنے آقائوں کی خوشنودی کے لئے گلے پھاڑنے اور قلم دوڑانے والے بہت زیادہ ہیں اور ملکی منظر نامے پر معتدل مزاجی سے غور کرنے والے بہت تھوڑے۔ جوں جوں وقت اپنی منزلیں طے کرلے گا یہ تقسیم، تفریق اور اختلافی لکیریں نمایاں ہوتی جائیں گی کیونکہ بدقسمتی سے آگ بجھانے کاسامان کم ہے اور بھڑکانے کا بہت زیادہ۔ کہہ سکتے ہیں کہ انتخابات قریب ہوں تو کچھ ایسا ہی ہوتا ہے۔ جذبات کا الائو جلا کر ووٹروں کو گرمایا اور عوام کو تڑپایا جاتا ہے، وعدے وعید ہوتے ہیں، خواب دکھائے جاتے ہیں، جھوٹ اور گزشتہ کمزور کارکردگی پر پردے ڈالے جاتے ہیں اور مخالفین پر سنگ باری کی جاتی ہے۔ بے شک ایسا ہی ہوتا ہے کیونکہ ہمارے ’’کم خواندہ‘‘ اور سیاسی حوالے سے نابالغ معاشرے میں انتخابات ایشوز، قومی پروگراموں، بنیادی تبدیلیوں اورانقلابی اقدامات پر نہیں ہوتے بلکہ ایک دوسرے کی تنقیص، تذلیل اور تحقیر پر ہوتے ہیں۔ یہ رجحان بدلنے کے بجائے اس بار قدرے ذرا خطرناک تیور کے ساتھ میدان میں اترا ہے اور اس کی ایک بنیادی وجہ ہے جس کی مثال اس سے قبل نہیں ملتی۔ وہ بنیادی وجہ اور انہونی پیش رفت میاں نوازشریف کی اقتدار سے محرومی ہے جس نے انتخابی مہم، سیاسی کلچر اور انداز سیاست کو یکسر بدل کر رکھ دیا ہے۔ عرض کررہا تھا کہ انتخابات کی آمد کے قریب ہمیشہ ہمارے جیسے سیاسی غیر پختہ معاشرے تقسیم ہوتے اور واضح لکیر کا شکار ہوتے نظر آتے ہیں لیکن اس بار یہ تقسیم کی لکیر نفرت کی خلیج بن رہی ہے اور نفرت کے اس طوفان کا نشانہ عدلیہ ہے اور تھوڑی تھوڑی اسٹیبلشمنٹ۔ کچھ عرصے سے اورخاص طور پر بلوچستان میں سیاسی تبدیلی کے بعد توپوں کا رخ فوج کے بجائے مکمل طور پر عدلیہ کی جانب کردیا گیا ہے کیونکہ فوج کی مداخلت کا کوئی ثبوت ملا ہی نہیں ’’جبکہ عدلیہ کے پانچ ججوں نے کروڑوں ووٹروں کے نمائندے کو دودھ سے مکھی کی مانند نکال باہر کیا ہے‘‘۔ سچ پوچھیں تو مجھے عالمی تاریخ میں ایسی کوئی مثال ملی ہی نہیں جب عدلیہ کے ججوں اور فیصلوں کو عوام کے ترازو اور ووٹروں کے وزن سے تولا یا ناپا گیا ہو۔ البتہ میرے سامنے ایسی سینکڑوں مثالیں ہیں جب ایک یا دو تین ججوں نے نہ صرف حکمرانوں کو اقتدار سے نکالا بلکہ انہیں پابند سلاسل بھی کیا، ہتھ کڑیاں بھی پہنائیں۔ عجیب لوگ تھے یہ کروڑوں کے نمائندے حکمران کہ نہ ججوں پر نفرت کے تیر برسائے، انتقام کی دھمکیاں دیں اور نہ ہی ججوں کے وزن کا موازنہ ووٹوں سے کیا۔ میں نے طویل زندگی گزاری، دنیا دیکھی اور دنیا کا مطالعہ و مشاہدہ کیا ہے۔ تب اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ جمہوریت کا اصل دشمن جذبہ انتقام ہوتا ہے۔ انتقامی ذہنیت وسیع القلبی اور منطقی فکر سے محروم ہوتی ہے۔ جو اقتدار انسان کو خوشامد پرست، انتقام پرست اور خود پرست بنائے وہ اس کا دشمن ہوتا ہے نہ کہ دوست۔ نیم خواندہ معاشروں میں بلوغت کی منزلیں طے کرتی جمہوریتیں ہمیشہ انتقام کی بھینٹ چڑھتی رہی ہیں۔ میری طالب علمانہ رائے ہے کہ اگر ذوالفقار علی بھٹو ضیائی انقلاب کے بعد لاہور کے جلسہ عام میں جرنیلوں کو لٹکانے کا آمرانہ اور انتقامی اعلان نہ کرتے تو شاید پھانسی سے بچ نکلتے۔ میرے اس مشاہدے کی تصدیق جنرل ضیاء کے سابق دست راست جنرل چشتی نے بھی کی تھی۔ انتقام اور نفرت کی بھڑکتی آگ دیکھ کر میں اکثر سوچتا ہوں کہ ہم کہاں جارہے ہیں، کدھر جارہے ہیں، ہماری سیاسی اور قومی سمت کیا ہے؟ لگتا ہے ہم کسی بحران اور انتشار کی جانب بڑھ رہے ہیں، ٹکرائو اور تصادم کا سامان ہورہا ہے جس کی قیمت پر سنسنی جذباتی عوامی سیاست کی جارہی ہے۔ اس سے ووٹ تو مل جاتے ہیں لیکن ووٹروں کی سیاسی تربیت نہیں ہوتی اور نہ ہی جمہوری کلچر پروان چڑھتا ہے۔
گزشتہ سا ل جب سپریم کورٹ نے وزیراعظم کو نااہل قرار دیا تھا تو یاد کیجئے میں نے لکھا تھا کہ اب عدلیہ اور اسٹیبلشمنٹ کے خلاف بھرپور مہم چلائی جائے گی اور مسلم لیگ ووٹروں کو گرما کر اقتدار میں اس ایجنڈے کے ساتھ آئے گی کہ عدلیہ، احتساب اور اسٹیبلشمنٹ کے پر کاٹے جائیں اور حکمرانوں کو ہر قسم کے احتساب، روک ٹوک کے خوف سے بے نیاز کرایا جائے۔قوانین میں تبدیلی کر کے نااہل حکمران کو بھی اہل بنا کر واپس اقتدار میں لایا جائے اور اس صورتحال کے ذمہ داران کو سبق سکھایا جائے۔ گزشتہ دور حکومت میں عدلیہ کی اینٹ سے اینٹ بجانے کے لئے عمارت پر حملہ ہوا اور چیف جسٹس جان بچاتے مستعفی ہوئے۔ بقول گوہر ایوب حکمرانوں کی ایک خواہش پوری نہ ہوسکی اور وہ تھی چیف جسٹس سجاد علی شاہ کو ہتھ کڑیاں پہنانے اور جیل بھجوانے کی۔ جہاں قوم کے لیڈروں کے ظرف، برداشت اور ویژن کا یہ حال ہو وہاں اب یہ اندازہ کرنا مشکل نہ تھا کہ اقتدار سے معزولی کا ردعمل کیا ہوگا۔ ہمارا المیہ ہے کہ ہم ذات کو قومی مفاد اور ملکی اداروں پر ترجیح دیتے ہیں۔ آج آپ کے سامنے وہی منظر نامہ کھلتا جارہا ہے اور ہوسکتا ہے کہ یہ صورت حال ایک نئے جمہوری بحران کو جنم دے دے۔ بلاشبہ سپریم کورٹ کا فیصلہ نرم تھا۔ اب وہ اسی کی سزا بھگت رہی ہے۔ اگر کمزور فیصلے کے بجائے کرپشن اور منی لانڈرنگ کے الزامات کے ثابت ہونے کا انتظار کیا جاتا تو شاید بہتر ہوتا۔ آج وہ نہایت گھمبیر الزامات سیاسی مہم جوئی کی خاک تلے دب چکے ہیں اور اقامہ ہر طرف چھا گیا ہے۔ آنے والے فیصلوں پر قبل از وقت شکوک کی چادر ڈال دی گئی ہے۔ فائدہ کس کو ہوا؟ نقصان میں کون رہا؟ نتیجہ کیا نکلے گا؟ مجھ جیسے سنجیدہ لیکن گوشہ نشین طالب علم کے لئے اس سے بڑا اور کیا قومی المیہ اور قومی سانحہ ہوگا کہ چیف جسٹس کو صفائیاں دینی پڑ رہی ہیں اور خدا کو گواہ ٹھہرا کر بیان دینا پڑا ہے کہ ان کا کوئی ایجنڈا نہیں۔ آپ اندازہ نہیں کرسکتے کہ ایک جمہوری مہذب معاشرے میں یہ کتنا بڑا المیہ ہے اور اس سے عدلیہ کے وقار کو کتنی گہری ٹھیس لگی ہے۔ ذرا سوچیں چیف جسٹس اس پر کیوں مجبور ہوا؟ میرے نزدیک دوسرا بڑا سانحہ پنجاب اسمبلی کی نیب کے خلاف قرارداد ہے جس نے ملک و قوم کو نہایت افسوسناک پیغام دینے کے علاوہ حکمرانوں کو بے نقاب کردیا ہے۔ کیا سندھ اور بلوچستان میں حکمرانوں کے پیارے وزراء اور بیوروکریٹس کرپشن کے الزامات پر گرفتار نہ ہوئے؟ کیا ان اسمبلیوں نے قراردادیں پاس کیں؟ بڑا بھائی پنجاب، کیا روایت قائم کررہا ہے؟ احتساب جمہوریت کا ستون ہے۔ آپ احتساب سے بھاگ کر کرپشن کی سرپرستی کرنا چاہتے ہیں۔ اگر احد چیمہ معصوم ہے تو نہایت عزت سے بری ہو جائے گا لیکن اگر الزامات ثابت ہوتے ہیں تو اسے سزا بھگتنے دیجئے۔ اس سے حکمرانوں کی پوزیشن واضح ہوگی۔
اصل بات بیوروکریسی سے بغاوت کروا کراور اسمبلی سے قرارداد پاس کروا کر ملزم کو حمایت کا یقین دلانا ہے تاکہ وہ رازوں سے پردہ نہ ہٹائے اور وعدہ معاف نہ بن جائے۔ ساتھ ہی ساتھ نیب کا راستہ روکنا مطلوب ہے؟ کیا کوئی صاف دامن حکمران ایسا کرسکتا ہے۔ اللہ کرے میر ےخدشات غلط ثابت ہوں لیکن میری طالب علمی رائے میں ہم ایک نئے سیاسی بحران کی جانب بڑھ رہے ہیں جو جمہوریت کے تھوڑے سے التوا کا باعث بھی بن سکتا ہے۔ ایسے بحران قیادتوں کی صلاحیتوں کا امتحان ہوتے ہیں لیکن یہاں تو قیادتیں خود ہی امتحانی صورت پیدا کررہی ہیں۔

تازہ ترین