• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

معتدل مزاج وزیراعظم جناب شاہدخاقان عباسی قومی اسمبلی میں شکایت کر رہے تھے کہ انتظامیہ مفلوج کر دی گئی ہے، اب ہمیں قانون سازی کے لیے پہلے کسی اور ادارے سے اجازت لینا ہو گی، تب ریاستی اداروں کے مابین محاذآرائی کا تاثر گہرا ہوا، چنانچہ تھنک ٹینک پائنا نے اِس موضوع پر غور و خوض کے لیے اہلِ علم و دانش کو دعوت دی۔ پائنا کے سیکرٹری جنرل کی حیثیت سے راقم الحروف نے صورتِ حال کی سنگینی کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ہماری تاریخ میں جب کبھی ریاستی اداروں میں محاذ آرائی نے زور پکڑا، تو پوری قوم کو ہولناک نتائج برداشت کرنا پڑے۔ آج ہم پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ محاذ آرائی کا ماحول ختم کیا جائے۔ زیادہ تکلیف دہ بات یہ کہ جو زبان استعمال کی جا رہی ہے اِس میں غصہ، اشتعال اور تضحیک کے پہلو نمایاں ہیں۔ مناسب یہی ہو گا کہ سیاسی جماعتیں فوج اور عدلیہ کے ذریعے اقتدار میں آنے کی خواہش سے مکمل اجتناب کریں۔
راقم الحروف نے تجویز دی کہ پندرہ بیس افراد پر مشتمل ایک کونسل آف ایلڈرز (بزرگوں کی کونسل) تشکیل دی جائے جو اداروں کے سربراہوں سے ملاقات کر کے درجۂ حرارت کم اور گرینڈ نیشنل ڈائیلاگ کی راہ ہموار کرے۔ اِس امر پر مجموعی اتفاق ہونا چاہیے کہ ہر قیمت پر دستور اور قانون کی پاسداری کی جائے گی، تمام فیصلوں میں قانونی ضابطوں کا خیال رکھا جائے گا، ازخود نوٹس کا دائرۂ کار محدود کیا جائے گا، سیاسی مقدمات کی سماعت کے دوران عزتِ نفس کو ٹھیس پہنچانے والے ریمارکس سے مکمل اجتناب ہو گا اور کوئی ایسا قدم نہیں اُٹھایا جائے گا جس سے انتقام یا جانبداری کی بُو آتی ہو۔ عدلیہ کا احترام ہم پر واجب ہے، فوج ہمارا قابلِ فخر ادارہ ہے اور پارلیمان عوامی اُمنگوں کی ترجمان ہونے کی حیثیت سے ایک بالادست قوت ہے۔
پروفیسر ڈاکٹر رشید احمد خاں کا تاثر یہ تھا کہ حالات بظاہر سخت پریشان کُن ہیں، مگر میں ہرگز مایوس نہیں۔ ہم ارتقا کے مراحل سے گزر رہے ہیں جو ہمیں بہتری کی طرف لے جا رہے ہیں۔ 1954ء میں بھی چیف جسٹس محمد منیر کے فیصلے سے بہت بڑا آئینی اور قانونی بحران پیدا ہوا تھا، لیکن ہم اسے برداشت کر گئے تھے۔ قراردادِ مقاصد میں طے ہو چکا ہے کہ ریاست کے اختیارات استعمال کرنے کے مجاز عوام کے منتخب نمائندے ہیں۔ اے این پی کے مرکزی رہنما اور قانون دان جناب احسان وائیں نے پروفیسر صاحب کی رائے سے اختلاف کرتے ہوئے کہا کہ 1954ء میں جو حادثہ پیش آیا، اس کی قوم کو بڑی قیمت ادا کرنا پڑی۔ اس کے بعد ملک میں مارشل لا نازل ہوئے اور ملک دولخت ہو گیا۔ اس اندوہناک تجربے کی روشنی میں ہماری عدلیہ کو محتاط رہنا چاہیے۔ باقاعدہ ٹرائل کے بغیر وزیراعظم کو نااہل قرار دینا عوام کے مقدس ووٹ کی توہین کے مترادف ہے۔
پروفیسر شبیر احمد خاں نے عجب انکشاف کیا کہ 25فروری 2016ء کی صبح نیویارک ٹائمز میں خبر شائع ہوئی کہ جسٹس کلیرنس تھامسن نے دس سال میں پہلی بار زبان کھولی۔ وہ یہ بنیادی حقیقت بھی بیان کر رہے تھے کہ پارلیمان دستور منظور نہیں کرتی، اس کی تدوین دستور ساز اسمبلی کرتی ہے یا قومی کنونشن۔ اس اعتبار سے پارلیمان ہی بالادست ادارہ ہے۔ سیاسی تجزیہ نگار رؤف طاہر نے جناب ایاز امیر کے کالم کا حوالہ دیا کہ عدلیہ کے پیچھے فوج کھڑی ہے۔ ہمارے چیف جسٹس جو ڈیڑھ لاکھ وکلا کے سپہ سالار ہیں اور وہ میرے بھی سپہ سالار ہیں، ہم اُن سے پوری توقع رکھتے ہیں کہ وہ فیصلوں میں تاخیر کے خلاف جہاد کریں گے اور قانون اور آئین کے جملہ تقاضوں کا خیال رکھیں گے۔
جناب وجاہت مسعود کو سب سے بڑی شکایت یہ تھی کہ انہیں اپنے آزاد وطن میں فیصلہ سازی میں اپنا کردار ادا کرنے کا موقع نہیں ملا۔ اُن کا خیال تھا کہ مئی 2013ء میں عوام نے جو فیصلہ دیا، بعض طاقتوں نے اسے قبول نہیں کیا اور یہ تمام اسی کے شاخسانے ہیں۔ ڈاکٹر حسین احمد پراچہ کا جچا تُلا بیان تھا کہ تاریخ میں پہلی بار حکمرانوں کا احتساب ہو رہا ہے جس کااہلِ دانش کو ساتھ دینا چاہیے۔ ہماری قابلِ قدر ادیب محترمہ بشریٰ رحمن نے مشورہ دیا کہ غیر جانبدار اہلِ قلم اور اہلِ دانش کو یکجا بیٹھ کر ایک ایسا لائحہ عمل ترتیب دینا چاہیے جس سے عوام کی بہتری کے راستے کشادہ ہوں۔ زیادہ خرابی حکمرانوں کی بداعمالیوں سے پیدا ہوئی ہے جو کرسی پر بیٹھ کر فرعون بن جاتے ہیں۔ ڈاکٹر امجد مگسی اس خیال کے علمبردار تھے کہ سیاسی جماعتیں پارلیمان کو بالادست ادارہ بنانے میں ناکام رہی ہیں۔ مسلم لیگ نون کے میڈیا کوآرڈینیٹر جناب محمد مہدی نے میثاقِ جمہوریت کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ہماری سیاسی جماعتوں کو کسی غیر آئینی اور غیر سیاسی اقدام کی حمایت نہیں کرنی چاہیے۔ بہتر ہو گا کہ سینئر صحافیوں پر مشتمل ایک ٹیم ترتیب دی جائے جو اداروں کے سربراہوں سے مشاورت کے بعد باہمی احترام کو فروغ دینے کی تدابیرکو عملی جامہ پہنانے میں مددگار ثابت ہو۔ سابق جسٹس جناب فقیر محمد کھوکھر نے وضاحت سے بتایا کہ آئین میں تنازعات حل کرنے کے ادارے موجود ہیں۔ میثاقِ جمہوریت میں سیاسی قائدین نے ایک شق رکھی تھی کہ پی سی او پر حلف اُٹھانے والا جج چیف جسٹس مقرر نہیں کیا جائے گا، مگر اس پر عمل نہیں ہوا۔ اُن کی تجویز تھی کہ حلف آئین کے بجائے قرآن پر اُٹھایا جائے۔
سول سوسائٹی کے نمائندے جناب جاوید نواز نے نیشنل ڈائیلاگ پر زور دیا۔ حیرت یہ کہ عدلیہ نے فیصلے دینے کے ساتھ ساتھ تحقیقات کا بار بھی خود اُٹھا لیا ہے۔
سیاسی جماعتوں کی تعداد کم کرنے کے لیے ترکی کے تجربے سے فائدہ اُٹھانا چاہیے کہ پانچ فی صد سے کم ووٹ لینے والی جماعتیں نمائندگی سے محروم ہو جاتی ہیں، سینیٹ کے انتخابات براہِ راست ہونے چاہئیں اور محاذآرائی پر قابو پانے کے لیے سیاسی جماعتوں کو اخلاقی اور آئینی حدود میں رہنا ہو گا۔
صدرِ مجلس جناب ایس ایم ظفر نے پوری بحث کو سمیٹتے ہوئے کہا کہ تمام مقررین محاذ آرائی ختم کرنے پر متفق ہیں۔ ہمیں یہ سمجھ لینا چاہیے کہ حادثات ایک روز میں وقوع پذیر نہیں ہوتے۔ 1954ء کا حادثہ اس لیے پیش آیا کہ ہمارے سیاست دان سات برسوں تک دستور نہیں بنا سکے تھے۔ 1973ء کا دستور انتہائی جید سیاست دانوں نے منظور کیا اور میں بھی اس کا ڈرافٹ تیار کرنے میں شامل تھا۔ آئین کی تشریح کا اختیار عدالت ِعظمیٰ کو اِس لیے دیا گیا ہے کہ اسکے پاس بندوق ہے نہ دولت کی فراوانی۔ جناب نوازشریف کے خلاف جو فیصلہ آیا وہ کمزور دلیل پر قائم تھا۔ میرے خیال میں سب سے قابلِ اعتماد کسوٹی اچھی حکمرانی ہے۔ عوام کو صاف پانی، اچھی خوراک اور آسودہ زندگی میسر نہ ہو، تو پھر کسی نہ کسی طرف سے مداخلت ہوتی ہے۔ مجھے یقین ہے کہ حالات پہلے سے بہتر ہوں گے۔
اُن کی رائے میں عدلیہ نے زیادہ تر فیصلے جمہوریت کے حق میں دیئے۔ فوجی حکمرانوں کو انتخابات کرانے پر مجبور کیا جن کے ذریعے عوام کو اپنے فیصلے کرنے کا موقع ملا۔ آج وقت کی سب سے بڑی ضرورت یہ ہے کہ سینیٹ کے انتخابات وقت پر ہوں اور عام انتخابات پوری طرح شفاف ہوں۔ عدلیہ اور فوج نے یقین دلایا ہے کہ وہ شفاف انتخابات کو یقینی بنانے میں اپنا کردار ادا کریں گے۔

تازہ ترین