• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ملکوں کے انتظامی نظام میں تبدیلی آتی رہتی ہے۔ یہ ایک فطری عمل ہے۔ اگر سمت درست رہے تو حکمرانی بہتر اور عوام کی مشکلات کم ہو جاتی ہیں۔ چالیس سال تک انتظامیہ کا حصہ رہتے ہوئے طرزِ حکمرانی کے بدلتے موسموں کو قریب سے دیکھا۔ بھٹو دور سے سرکاری نوکری شروع کی جو بالآخر 2016ء میں واپڈا کی سربراہی سے استعفیٰ دینے پر ختم ہوئی۔ واپڈا میں تعیناتی کے دوران 1960ء کی دہائی میں شروع ہونے والے، پاکستان کے سب سے بڑے اور اہم منصوبے کا جائزہ لیا۔ آج قارئین کے ساتھ اِس منصوبے کے حوالے سے بات کرنا چاہتا ہوں۔ اِس جائزے میں سمجھنے والوں کے لئے بہت سے اشارے ہیں۔
پاکستان کے معرضِ وجود میں آنے پر پنجاب کے دو حصے ہوئے۔ جو نہریں پاکستانی پنجاب کو سیراب کرتی تھیں اُن کے بیراج ہندوستان کے پاس چلے گئے۔ ہماری حکومت کا خیال تھا کہ آبپاشی کا نظام پہلے کی طرح جاری رہے گا، مگر ہندوستان راضی نہ ہوا۔ اُس کی حکومت نے مطالبہ کیا کہ پاکستان اِن دریائوں کا پانی استعمال کرنے کے لئے حکومت ہند سے معاملات طے کرے۔ پاکستان نے توجہ نہ دی۔ 1948ء میں ربیع کی فصل کاشت ہونا تھی کہ ہندوستان نے پاکستان کے علاقوں کو سیراب کرنے والی نہروں میں پانی روک دیا۔ پاکستان میں ایک قیامتِ صغریٰ بپا ہوئی اور ممکن تھا کہ حالات کی کشیدگی دونوں ملکوں کے درمیان جنگ کی صورت اختیار کرتی، مگر حالات سنبھل گئے۔ پانی کی ترسیل بحال ہوئی۔ دُنیا پریشان تھی کہ پانی کی تقسیم کے معاملے پر اِن ملکوں کے درمیان جنگ کو کیسے روکا جائے۔ امریکہ، برطانیہ، جرمنی اور دوسرے ملکوں کے علاوہ عالمی بنک نے مثبت کردار ادا کیا۔ دونوں ملکوں کے درمیان مذاکرات امریکی دارالحکومت واشنگٹن میں ہوئے۔ یہ بات چیت،1960ء میں ختم ہوئی۔ پنڈت نہرو کراچی تشریف لائے اور دونوں ملکوں کے درمیان سندھ طاس معاہدہ ہوا۔ اِس معاہدے کے تحت دریائوں کی تقسیم ہوئی۔ دریائے سندھ جہلم اور چناب پاکستان کے حصے میں آئے اور ستلج، بیاس اور راوی کے پانی پر پاکستان کا حق ختم ہوا۔ نئے انتظام سے پیدا ہونے والی صورتِ حال میں، پاکستان کو دس سال کے دوران آبپاشی کا متبادل نظام تشکیل دینا تھا۔ اِس منصوبے کو انڈس بیسن ریپلیسمنٹ ورکس (Indus-Basin Replacement Works) کا نام دیا گیا۔ اِس کے تحت پاکستان میں دریائے سندھ، جہلم اور چناب کے پانی کو راوی اور ستلج میں منتقل کرنے کے لئے دو ڈیم، پانچ بیراج اور نو لنک کینال تعمیر ہونا تھیں۔ (منگلا کے علاوہ تربیلا ڈیم بعد میں اِس منصوبے کا حصہ بنا) حال ہی میں ایک صاحب نے سندھ طاس معاہدے کے حوالے سے پی ایچ ڈی کا مقالہ لکھا۔ اُن کے مطابق ان تمام منصوبوں پر خرچ ہونے والی رقم، کرنسی کی موجودہ قیمت کے حوالے سے، تقریباً چوبیس ارب ڈالر بنتی ہے۔
ایک وقت میں آبپاشی کے حوالے سے اتنا بڑا منصوبہ کرۂ ارض کی تاریخ میں پہلے نہ بنا تھا۔ دُنیا کی نگاہیں پاکستان کی انتظامی صلاحیت پر تھیں۔ اِس منصوبے کی پلاننگ، لاگت کا تخمینہ اور تعمیراتی کام کی نگرانی واپڈا کے سپرد ہوئی۔ واپڈا اتھارٹی چیئرمین اور تین ممبران پر مشتمل تھی اور اِسے انتظامی و مالی امور میں مکمل خود مختاری حاصل تھی۔
واپڈا کے قانون میں حکومت کو اختیار حاصل تھا کہ وہ کسی بھی سرکاری ملازم کو چیئرمین واپڈا تعینات کر سکے۔ اِسی طرح واپڈا اتھارٹی کو مکمل اختیار تھا کہ ضرورت کے تحت بھرتیاں کر سکے۔ سندھ طاس منصوبے کی تکمیل کے دوران واپڈا کے تمام چیئرمین سول سروس آف پاکستان (سی ایس پی) سے تعلق رکھتے تھے۔ اُن میں کوئی بھی انجینئر نہیں تھا۔ اِسی طرح ممبر فنانس بھی سی ایس پی کیڈر سے لئے جاتے اور کبھی کبھار تو ممبر واٹر اور ممبر پاور بھی عملی طور پر انجینئر نہ ہوتے۔
اُس زمانے کا پاکستان آج کے حوالے سے انتہائی بے رنگ اور بے رونق نظر آتا ہے۔ قارئین کو حیرت ہو گی کہ سندھ طاس معاہدے کے تحت دریائوں کے کنٹرول کی ہندوستان منتقلی کو چیلنج نہیں کیا گیا۔ نہ معاملات مقدمے بازی تک پہنچے، نہ سٹے آرڈر جاری ہوئے اور نہ منصوبوں کی تکمیل میں ماحولیات کے حوالے سے کسی وکیل نے عدالت سے رجوع کیا۔ چوبیس ارب ڈالر کے ٹھیکے دیئے گئے۔ نہ بدعنوانی کے الزامات لگے، نہ کوئی انکوائری ہوئی، نہ کوئی افسر معطل ہوا اور نہ کسی کو نوکری سے فارغ کرنے کی نوبت آئی۔ وقت سے پہلے کام مکمل کرنے پر واپڈا اتھارٹی نے ٹھیکے داروں کو لاکھوں ڈالر بونس ادا کیا۔ ہزاروں ایکڑ اراضی عوام سے قیمتاً خریدی گئی۔ واپڈا اتھارٹی کے افسران نے اِن منصوبوں کی نگرانی کے لئے تین جہاز خریدے۔ اُن کے لئے حسبِ ضرورت رن وے بنائے گئے۔ ریسٹ ہائوس، رہائشی کالونیاں، اسکول، اسپتال اور دوسری سہولتوں کا انتظام ہوا۔
حیرت کی بات ہے کہ نہ کسی صحافی نے جہازوں کے غلط استعمال پر فیچر لکھا، نہ کوئی اسکینڈل بنا، نہ کسی نے واپڈا میں تقرریوں پر عدالتوں کا دروازہ کھٹکھٹایا اور نہ جہازوں کے استعمال پر کسی سٹے آرڈر کی نوبت آئی۔ خیال آتا ہے کہ اُس بے رنگ و رونق زمانے میں نہ تو صحافیوں کی قوت شامہ اتنی حساس تھی کہ وہ ہر ٹھیکے میں ایک اسکینڈل کو سونگھ لیتے اور نہ ہی ہمارے وکلا میں ابھی وہ عقابی روح بیدار ہوئی تھی جو اُنہیں مفادِ عامہ کا تحفظ کرنے کے لئے زنجیرِ عدل ہلانے پر اُکسائے رکھتی۔
اُن دنوں عدالتیں بے رونق اور فیصلے قانون کی حدود سے باہر نہیں جھانکتے تھے۔ منصوبے کی تکمیل کے دوران بیشتر وقت جسٹس کارنیلیس اور جسٹس حمودالرحمٰن سپریم کورٹ کے چیف جسٹس رہے۔ آج بھی اُن کا نام احترام سے لیا جاتا ہے۔ عدالتی نظام بھی ایک حیرت کدہ ہے۔ اُن کی نیک نامی میں ایک سبق پنہاں تھا۔ زمانے کا چلن بدلا تو ہم بھول گئے کہ اچھی شہرت، شوقِ مسیحائی کی محتاج نہیں ہوتی۔
اُس زمانے کا پاکستان بے رنگ اور بے رونق سہی مگر اُس کی انتظامی تاریخ میں یہ باب سنہرے حروف میں لکھے جانے کے قابل ہے کہ واپڈا نے نو لنک کینال، پانچ بیراج اور دو ڈیم وقت سے پہلے، لاگت کے تخمینے میں مکمل کئے۔ اِس عظیم کارنامے پر ہماری انتظامی صلاحیت کی عالمی سطح پر پذیرائی ہوئی۔
پاکستان کے ریاستی ڈھانچے میں تبدیلی آ چکی ہے۔ ادارے آپس میں دست و گریباں ہیں۔ موجودہ حالات میں اِس قسم کے کارنامے ایک خواب کی طرح نظر آتے ہیں۔ اِس تبدیلی سے ہم نے کیا کھویا اور کیا پایا، اِس کا جائزہ ٹھنڈے دل سے لینے کی ضرورت ہے۔ آج کل کا پاکستان زیادہ دلچسپ ملک بن چکا ہے، مگر بحیثیت قوم ہم اِن دلچسپیوں کی بہت بھاری قیمت ادا کر رہے ہیں۔

تازہ ترین