• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ذرا تصور کیجئے۔ پچھلے چار برسوں میں دو سو غیر ملکی سربراہ بھارت کا دورہ کرچکے ہیں۔ سربراہوں کا جیسا استقبال بھارت میں ہوتا ہے ، کہیں اور نہیں ہوتا۔ زبردست آؤ بھگت ہوتی ہے۔ گلے ملے جاتے ہیں، گلے شکوے دور کئے جاتے ہیں اور جو بہت ہی چہیتے مہمان ہوں ان کو وزیر اعظم نریندر مودی اپنے ہمراہ اپنی ریاست گجرات لے جاکر وہاں کی سیر کراتے ہیں۔ اس تصویر کا ایک رخ اور بھی ہے۔ غیر ملکی سربراہ بھارت کے دورے کے معاملے میں کچھ زیادہ ہی اشتیاق دکھاتے ہیں۔ وہ اس ذوق و شوق سے دلی کے ہوائی اڈے پر اترتے ہیں کہ دیکھا ہی کیجئے۔طیارے کے دروازے میں نمودار ہوتے ہی ہاتھ جوڑ لیتے ہیں اور جب تک واپسی نہ ہوجائے، نمستے کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔ پھر ماتھے پر بندی لگوانے کا ان کا اشتیاق بھی مارے ڈالتا ہے۔ کسی نہ کسی بہانے کسی مندر کا پھیرا ضرور لگاتے ہیں تاکہ ماتھا بندی سے آراستہ ہوجائے۔ وہاں جاتے ہوئے سادھوؤں جیسا گیروا لباس ضرور پہنتے ہیں اور کسی مورتی یا گاندھی جی کی تصویر کے آگے ہاتھ ضرور جوڑتے ہیں۔ بعض لوگ بجا طور پر کہتے ہیں کہ بھارت کا عجب معاملہ ہے کہ اچھے بھلے حکمراں یہاں آتے آتے سیاحوں کا روپ دھار لیتے ہیں اور بھارت والوں کا دل جیتنے کے لئے کبھی کبھی تو الٹی سیدھی، عجیب و غریب حرکتیں شروع کردیتے ہیں۔ مزے کی بات یہ ہے کہ ان تمام باتوں کا خاطر خواہ اثر بھی ہوتا ہے۔ یہ ہے ڈپلومیسی کا کمال کہ پاکستان میں دہشت گردوں کے ٹھکانے ختم کرنے کے معاملے پر چین بھارت کا ہم خیال ہوگیا اور افغانستان تک مال پہنچانے کے لئے ایران اپنی بندرگاہ بھارت کے لئے کھول رہا ہے۔ ایک خلیجی ریاست میں تاریخ میں پہلی بار ایک مندر تعمیر ہورہا ہے۔
مگر ایک غیر ملکی سربراہ کے تازہ دورے کو تازہ واردات کہیں تو غلط نہ ہوگا۔ اس مرتبہ ڈپلومیسی کا وار ذرا اوچھا پڑا۔ بھارت والوں کی چھٹی حس نے انہیں خبردار کردیا کہ کینیڈا کے وزیر اعظم آرہے ہیں، خدا خیر کرے۔ اب اور کچھ ہو نہ ہو، خالصتان کے زخم کھل جائیں گے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ شروعات ہی غلط ہوئی۔ دلّی کے ہوائی اڈّے پر کینیڈا جیسے بڑے ملک کے سربراہ کو لینے نریندر مودی نہیں بلکہ ایک معمولی وزیر آیا۔ اپنے خاص اور چہیتے مہمانوں کو مودی اپنی ریاست یعنی گجرات ضرور لے جاتے ہیں، اس بار ٹروڈو خود اپنے طور پر عام سیاحوں کی طرح گئے۔اوراپنے ایک ہفتے کے دورے کے آخر میں ٹروڈو کوآگرہ جاکر تاج محل دیکھنا تھا جو انہیں شہری انتظامیہ کے معمولی افسروں نے دکھایا ۔ جسٹن ٹروڈو کے بارے میں سب جانتے ہیں کہ وہ جوان ہیں، توانا ہیں، خوبرو ہیں اور عوام میں گھل مل جانے کا جیساشوق انہیں ہے، کسی وزیر اعظم کو نہ ہوگا۔ اپنی ان ہی خوبیوں کی وجہ سے بہت مقبول ہیں اورہر جگہ ان کی پذیرائی ہوتی ہے۔مگر بھارت کا معاملہ الگ ہے۔ ٹروڈو نے آتے ہی دھوم مچانی شروع کردی ۔کہیں ناچ گانے میں شریک ہوکر بھنگڑہ ڈالنے لگے، کہیں مندر گئے تو سادھوؤں جیسا لباس پہن لیا۔ کہیں رنگ برنگے کپڑے پہن کر بازاروں میں نکل گئے۔ اوپر سے ایک غضب ہوا۔ بھارت والو ں نے کہنا شروع کیا کہ یہ کون آگیا۔ اسے اتنے بہت سے دنوں کے لئے کس نے بلایا ہے۔ یہ کیسی مسخروں جیسی حرکتیں کر رہا ہے۔ اس طرح کا لباس تو بالی ووڈ کے اداکار بھی نہیں پہنتے۔ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اس کے آنے پر بھارت کی سکھ برادری اتنی نہال کیوں ہے۔
یہ ہے ساری کم نگاہی کی جڑ۔ کینیڈا کے وزیر اعظم کے ملک میں زیادہ نہیں تو پانچ لاکھ سکھ ضرور آباد ہیں۔ کہتے ہیں کہ جن دنوں دوسری عالمی جنگ شروع ہوئی، ایک سمندری جہاز کینیڈا کی کسی بندرگاہ میں پھنس گیا۔ اسے کھلے سمندر میں جانے دیتے تو جھٹ ڈبودیا جاتا۔ اب سنئے اس قصے کی دل چسپ بات۔ اُس جہاز میں سکھ بھر ہوئے تھے۔ جنگ کئی برس چلی اور یہ سارے سکھ کینیڈا میں پھنس کر رہ گئے۔ پھنسے بھی تو اس طرح کہ وہیں کے ہوکر رہ گئے اور آج وہاں ان کی اولادیںاور اولادوں کی اولادیں کینیڈا کی قومیت کی مالک ہیں۔ سکھ تو بہت سخت جان ہوتے ہیں۔ کینیڈا کے موسم کی سختیوں کے عادی ہوگئے اور اب ملک پر چھائے ہوئے ہیں۔ یوں سمجھئے کہ ملک کی کابینہ میں ایک دو نہیں، چار وزیر سکھ ہیں۔ ٹروڈو بجا طور پر کہتے ہیں کہ اتنے سکھ تو بھارت کی کابینہ میں بھی نہیں۔ اوپر سے غضب یہ کہ ان میں سے اکثر سکھوں کا جھکاؤ بھارت میں آزاد خالصتان کے قیام کی تحریک کی طرف ہے۔ ٹروڈو ابھی مئی میں ا ن لوگوں کی ایک شاندار خالصہ پریڈ میں شریک ہو چکے ہیں۔ سکھوں سے اپنی اس قرابت داری کی وجہ سے جسٹن ٹروڈو کو اپنے ملک میں جسٹن سنگھ کہا جانے لگا ہے۔ملک کی ایک نئی سیاسی جماعت ڈیموکریٹک پارٹی کا سربراہ شدت پسند سکھوں کا حامی ہے اور سنہ پچاسی میں کینیڈا سے بھارت جانے والے جمبو جیٹ کو دھماکے سے تباہ کرنے والے سکھوں کا طرف دار ہے۔ اس واقعے میں تین سو انتیس افراد ہلاک ہوئے تھے۔
ادھر بھارت میں ٹروڈو کا قیام طول کھینچنے لگا تو میزبانوں نے کہنا شروع کیا کہ یہ شخص یہاں کیا کررہا ہے۔ کیا چلانے کے لئے اس کا اپنا ملک نہیں؟۔ دلّی کے ایک ڈنر میں کینیڈا کے ہائی کمشنر نے علیحدگی کے حامی ایک سکھ جسپال اٹول کو مدعو کرلیا جو مشہور انتہا پسند ہے اور جس نے سنہ چھیاسی میں بھارت کے ایک وزیر کو قتل کرنے کی کوشش کی تھی۔ بھارت سرکارکے روّیے کو دیکھ کر جسپال کا دعوت نامہ منسوخ کردیا گیا۔
ٹروڈو نے اس اقدام کو افسوسناک قرار دیا اور ایک سابق سفیر نے کہا کہ اس سارے نظام میں خالصتانی داخل ہوگئے ہیں۔ بھارتی پنجاب کے وزیر اعلیٰ امریندر سنگھ نے اس معاملے سے اپنا دامن بچا کر رکھا ہے۔ وہ ٹروڈو کے چاروں سکھ وزیروں پر الزام لگاتے ہیں کہ یہ سارے کے سارے خالصتان کے علیحدگی پسندوں کے ہمدرد ہیں۔ مودی نے دورے کے چھٹے روز مہمان وزیر اعظم کو ملاقات کا موقع دیا۔ اس موقع پر ٹروڈو نے کہا کہ وہ متحد بھارت کے حامی ہیں۔وہ کچھ بھی کہیں،میزبانوں کی جو ناک بھوں چڑھی ہے، وہ نیچے نہیں اترنے کی۔

تازہ ترین