• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

قانونی اور آئینی طور پر نون لیگ سے مائنس ون ہوگیا ہے یعنی معزول وزیراعظم محمد نوازشریف نہ ہی اس کے صدر رہے ہیں اور نہ ہی وہ کوئی الیکشن لڑنے کے اہل ہیں تاہم زمینی حقائق اس کے بالکل برعکس ہیں جن سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ مائنس ون فارمولا قطعی طور پر ناکام ہوگیا ہے۔ کامیابی صرف سابق وزیراعظم کو نااہل کرنے کا ہی نام نہیں ہے بلکہ کامیابی تو تب ہوگی جب ان کی عوامی ساکھ کو نقصان ہوگا۔ آج بھی ان کے مخالفین یہ بات مانتے ہیں کہ وہ پاکستان کے مقبول ترین لیڈر ہیں۔ قانونی اور آئینی موشگافیوں کی وجہ سے تو وہ مائنس ون ہو گئے ہیں مگر عوام کی نظر میں وہ پلس ہی پلس ہیں۔ ہر کوئی برملا یہ ماننے پر مجبور ہے کہ نون لیگ نوازشریف کا نام ہے اور ووٹ صرف اسے ہی ملے گا جس پر وہ ہاتھ رکھیں گے۔ جب منتخب بھی اس نے ہونا ہے جس کو ٹکٹ نوازشریف نے دینا ہے اور ان کی جماعت کی پالیسی بھی وہی ہونی ہے جو انہوں نے بنانی ہے تو پھر مائنس ون کیسا۔ نون لیگ نے انہیں تاحیات قائد یعنی سپریم لیڈر بنا کر یہ پیغام دے دیا ہے کہ اس میں اصل فیصلہ کن آواز نوازشریف کی ہی ہے اگرچہ وہ قانون اور آئین کی نظر میں جماعت کے فیصلے کرنے کے اہل نہیں ہیں۔ ایسی مثالیں موجود ہیں کہ جب سپریم لیڈر کے پاس نہ تو کوئی سیاسی اور نہ ہی حکومتی عہدہ ہوتا ہے لیکن اصل طاقت اسی کے پاس ہی ہوتی ہے۔ ہمارے پڑوس میں ایران کی مثال موجود ہے اور قم کے فیصلے ہی آخری ہوتے ہیں۔ شہبازشریف کو جماعت کا قائم مقام صدر تو بنا دیا گیا ہے مگر انہیں بھی معلوم ہے کہ نون لیگ کو ووٹ صرف اور صرف نوازشریف کی وجہ سے ہی ملنا ہے لہٰذا انہیں بھی قائد کی طرف ہی دیکھنا پڑے گا۔ نہ صرف شہبازشریف اس مسلمہ حقیقت سے آگاہ ہیں بلکہ نون لیگ کا ہر کارکن اور لیڈر اسے خوب جانتا ہے۔ جس دن نوازشریف کو باضابطہ طور پر جماعت کی صدارت چھوڑنی پڑی، شہبازشریف صدر بنے اور سابق وزیراعظم قائد بنے تو نوازشریف کا غمگین ہونا ایک قدرتی امر تھا کیونکہ انہیں ایک غیر فطرتی انداز میں پارٹی کا عہدہ چھوڑنا پڑا۔
سازشی عناصر نے ہمیشہ یہ کوشش کی کہ نون لیگ میں مائنس ون فارمولے کو نافذ کرکے نوازشریف کو نکالا جائے تاکہ یہ جماعت بری طرح ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو جائے۔ 2000ء میں یہ پلاننگ صرف وقتی طور پر کامیاب ہوئی تھی جب پرویز مشرف نے قاف لیگ کے نام سے کنگز پارٹی بنائی تھی۔ جونہی آمر کا جبر کم ہونے لگا تو قاف لیگ ہوا میں تحلیل ہو گئی اور آج یہ جماعت صرف کاغذوں میں ہی موجود ہے۔ باوجود اس کے کہ 2002ء کے انتخابات میں سخت دھاندلی کی گئی تھی مگر پھر بھی پرویزمشرف قاف لیگ کو قومی اسمبلی میں اکثریت دلانے میں ناکام رہے اور نون لیگ کافی سیٹیں لینے کی وجہ سے اپوزیشن کا کردار بھرپور انداز میں ادا کرتی رہی۔ جب اس جبر کے دور میں بھی نون لیگ پاکستان کے سیاسی منظر سے غائب نہ ہوسکی تو اب تو زمانہ ہی مختلف ہے۔ اس وقت نہ ہی نوازشریف اور نہ ہی شہبازشریف پاکستان میں موجود تھے اب تو وہ ملک میں ہی بھرپور سیاست کر رہے ہیں۔ اسی پالیسی کی وجہ سے سابق وزیراعظم کی مقبولیت میں اضافہ ہوا ہے خصوصاً 28 جولائی 2017کے فیصلے کے بعد جب یہ بات کھل کر سامنے آگئی کہ اب نوازشریف کو ہر صورت سیاست سے نکالنا ہی ہے۔ اس کے بعد جو جو بھی عدالتی کارروائیاں اور نیب کے ایکشنز ہو رہے ہیں یہ بری طرح بیک فائر کر رہے ہیں۔ نوازشریف جھکنے کو تیار نہیں ہیں۔ آخر ان کا جرم کیا ہے؟ جرم ہے وہ بھی بہت سنگین یہ کہ وہ ملک کے سب سے پاپولر رہنما ہیں۔ پاکستان جیسے ملک میں مقبول لیڈر نہیں چاہئے ہمیں تو یہاں کٹھ پتلیاں اور بونے چاہئیں جو وہی کہیں اور وہی کریں جو ان کو فیڈ کیا جائے۔ پچھلے 9 ماہ سے سابق وزیراعظم کا جس قسم کا ’’احتساب‘‘ ہو رہا ہے اس کا مقصد نون لیگ کے رہنمائوں کو یہ میسج دینا ہے کہ اب یہ جماعت نہیں چلنے دینی لہٰذا بہتر یہی ہے کہ اس کو خیر باد کہیں اور کسی بھی پپٹ کے ساتھ ہاتھ ملا لیں اور اگروہ وہاں نہیں جانا چاہتے تو اسی پارٹی کے ہی دھڑے بنا لیں۔ مگر ابھی تک یہ سب پلاننگ بری طرح ناکام ہوئی ہے کیونکہ نون لیگ آج بھی نہ صرف متحد ہے بلکہ مضبوط بھی ہوئی ہے۔ تاہم یہ حملے ابھی رکے نہیں ہیں ان میں بہت زیادہ شدت کیئر ٹیکر دور میں آنی ہے جب تمام وفاقی اور صوبائی حکومتوں پر مکمل کنٹرول ہوگا۔ یقیناً بند کمروں میں بیٹھ کر بنائے گئے منصوبے اور کی گئی سازشیں بعض اوقات کامیاب بھی ہو جاتی ہیں مگر اکثر ناکام ہی ہوتی ہیں جب ان کا تعلق سیاست سے ہو اس کی کئی مثالیں گزشتہ چند ماہ میں ملی ہیں جن کا تعلق نون لیگ سے نہیں ہے۔
کئی ماہ تک جان بوجھ کر یہ ڈس انفارمیشن پھیلائی گئی کہ سینیٹ کے انتخابات صرف اس وجہ سے نہیں ہونے دینے کہ اس میں نون لیگ نے اکثریت حاصل کرنی ہے۔ مقصد ایک ہی تھا کہ اس جماعت میں کنفیوژن اور انتشار پھیلا کر اس کے رہنمائوں کو اسے چھوڑنے پر راغب کیا جائے۔ نون لیگ کی سینیٹ میں اکثریت کو کم کرنے کیلئے بلوچستان میں اس کے وزیراعلیٰ کو تبدیل کرکے ڈرامہ رچایا گیا۔ اسی طرح اس کے امیدواروں کو عدالت عظمیٰ کے فیصلے کے بعد ’’آزاد‘‘ قرار دیا گیا تاکہ کسی نہ کسی طرح نون لیگ کو نقصان ہوسکے۔ 3 مارچ کو ہونے والے سینیٹ کے انتخاب میں پتہ چل جائے گا کہ یہ ساری سازش کامیاب نہیں ہوسکی، پھر بھی نون لیگ اکثریتی جماعت بن کر ہی ابھری ہے اور اس نے ہی اپنا نمائندہ چیئرمین سینیٹ بھی بنا لیا ہے۔ پیپلزپارٹی نے سینیٹ انتخاب میں اچھی خاصی مکرو گیم کرنے کی کوشش کی تاکہ اسے بلوچستان (جہاں اس کا ایک بھی ایم پی اے نہیں ہے) سے کچھ سیٹیں مل سکیں اور خیر پختونخوا سے بھی جہاں وہ ایک بھی سیٹ نہیں جیت سکتی۔ بڑی بدقسمتی کی بات ہے کہ پیپلزپارٹی جیسی جماعت بھی ایسے غیر جمہوری اور غیر قانونی کاموں میں پڑ گئی ہے۔ تاہم جو کچھ بھی وہ کر لے اس کی سیٹیں نون لیگ سے بھی کم ہی ہوں گی۔ تحریک انصاف سے بھی ایک دو سیٹیں پیچھے ہی ہوگی۔اگر پیپلزپارٹی اور تحریک انصاف کی سیٹیں ملا بھی لی جائیں تو پھر بھی نون لیگ سے کم ہی ہوں گی۔باوجود تمام ہتھکنڈوں کے اگر عام لوگوں کی رائے میں اور عوامی سرویز کے مطابق نوازشریف پہلے سے زیادہ مقبول ہوئے ہیں اور ان کی جماعت سینیٹ کے الیکشن بھی جیت جائے گی تو کیا فائدہ ہوا اس گیم کا جو کہ ان کے خلاف زور شور سے جاری ہے۔ یہ کہنا کہ ان تمام ناکامیوں کے بعد بھی ہم ٹھوس سیاسی حقائق کو تسلیم کر لیں گے اور اپنا پلان تبدیل کر لیں گے احمقوں والی بات ہے۔

تازہ ترین