• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہندوستان کی جانب سے پاکستان سے مذاکرات کا فیصلہ خوش آئند ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ تنازع کشمیر حل کئے بغیر بھارت سے مذاکرات کبھی کامیاب نہیں ہوسکیں گے۔ 70برسوں سے جموں وکشمیر پر انڈیا قابض ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی ظلم وستم جاری ہے۔ اب تک لاکھوں کشمیریوں عوام بھارتی فوج کے ہاتھوں شہید ہوچکے ہیں۔ پاکستان نے کبھی مذاکرات سے انکار نہیں کیا ہے بلکہ ہمیشہ ہندوستان کے ساتھ بامقصد مذاکرات پر زور دیا ہے۔ بدقسمتی یہ ہے کہ بھارت ہمیشہ مذاکرات کے نام پر ڈھونگ رچاتا رہا ہے۔ اب بھی اُس نے قیدیوں کے تبادلے کا عندیہ دیا ہے جس کے مطابق بچوں، خواتین اور ذہنی معذور قیدیوں کو ترجیحی بنیادوں پر رہا کیا جائے گا۔ ہندوستان نے وفاقی وزیر تجارت پرویز ملک کو عالمی تجارت تنظیم سے متعلق غیر رسمی مذاکرات کی دعوت دی ہے۔ شنید ہے کہ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے بھی اسلام آباد میں ہونے والی سارک کانفرنس میں شرکت کیلئےسوچ و بچار شروع کردی ہوگی۔ واقفان حال کا کہنا ہے کہ امریکی آشیر باد پر دونوں ملکوں کے سلامتی کے مشیروں ناصر جنجوعہ اور اجیت اوول کی خفیہ ملاقاتوں کے بعد اب برف پگھلنے لگی ہے اور ہندوستان پاکستان سے بات چیت پر آمادہ ہوا ہے۔ سفارتکاری کیلئے بیک چینل ڈپلومیسی بڑی اہمیت کی حامل ہوتی ہے لیکن سفارتکاروں کو یہ خیال رکھنا چاہئے کہ ملکی وقومی مفاد سے ہٹ کر کوئی بات نہ کی جائے۔ ماضی میں بھی ٹریک ٹو پالیسی پر کام ہوتا رہا۔ بلکہ جنرل پرویز مشرف کے دور میں جموں وکشمیر پر آگرہ میں مذاکرات بھی ہوئے جو کامیاب نہ ہوسکے۔ گزشتہ ادوار میں مختلف مواقع پر دوطرفہ مذاکرات کا سلسلہ چلتا رہا لیکن وہ بھی ناکامی پر منتج ہوا۔ بھارت سے مذاکرات صرف اُسی صورت میں کامیاب ہوسکتے ہیں کہ جب بات چیت کا مرحلہ وہیں سے شروع کیا جائے جہاں چند سال پہلے جامع مذاکرات کا یہ سلسلہ رکا تھا۔ ہندوستان سے مذاکرات میں مسئلہ کشمیر کو سرفہرست ہونا چاہئے، تمام تصفیہ طلب مسائل کو مذاکرات میں شامل ہونا چاہئے۔ اگر واقعی بھارت پاکستان کے ساتھ مذاکرات کا سلسلہ بحال کرنا چاہتا ہے تو اُسے اعلیٰ سطح پر بامقصد اور بامعنی بات چیت کو آگے بڑھانا ہوگا۔ سب سے پہلے اُسے افغانستان میں اپنی خفیہ تنظیم ’’را‘‘ کا نیٹ ورک ختم کرنا ہوگا جو پاکستان میں دہشت گردی کے ان گنت واقعات میں ملوث ہے۔ اسی طرح مقبوضہ کشمیر میں ریاستی ظلم وتشدد کا خاتمہ اور بھارتی فوج کا انخلا ہونا چاہئے۔ کیونکہ ہندوستان نے پہلے بھی کبھی سنجیدہ مذاکرات نہیں کئے اور ٹال مٹول کے ذریعے مسئلہ کشمیر کو لٹکائے رکھا۔ پچھلے چند مہینوں سے لائن آف کنٹرول پر اس کی جانب سے بلااشتعال فائرنگ اور گولہ باری مسلسل ہورہی ہے ۔ ایسے حالات میں دوطرفہ مذاکرات کیسے کامیاب ہوسکتے ہیں؟ پاک بھارت تعلقات کی بہتری کیلئے ضروری ہے کہ وہ اپنے رویئے میں تبدیلی لائے۔ اگر اس نے اپنی روش نہ بدلی تو دونوں ملکوں کے درمیان ایٹمی جنگ چھڑ سکتی ہے جوکہ خطے کیلئے تباہ کن ثابت ہوگی۔
مقبوضہ کشمیر کے عوام نے قربانیوں کی نئی تاریخ رقم کردی ہے۔ حزب المجاہدین کے کمانڈر برھان مظفروانی کی شہادت سے تحریک آزادیٔ کشمیر میں جان پڑگئی ہے۔ اس وقت آئے روز مقبوضہ کشمیر میں لاکھوں کشمیری عوام بھارتی ظلم وبربریت کے خلاف سڑکوں پر نکل کر احتجاج کرتے دکھائی دے رہے ہیں۔ طلبا وطالبات بھی ہندوستان کے خلاف سراپا احتجاج ہیں۔ جموں وکشمیر میں کئی ماہ سے کرفیو کا سماں ہے۔ سچ بات یہ ہے کہ ہندوستان اپنے تمام حیلے اور حربوں کے باوجود کشمیریوں کے جذبہ آزادی کو نہیں کچل سکا۔افغانستان میں بھی حالات کی خرابی کا ذمہ دار بھارت ہے۔ افغانستان میں موجود ہندوستانی قونصل خانے پاکستان میں دہشت گردی کو سپورٹ کررہے ہیں۔ ہمارا دشمن افغان سرزمین کو پاکستان کے خلاف استعمال کررہا ہے۔ افغان انٹیلی جنس بھارتی خفیہ تنظیم سے مل کر پاکستانی علاقوں میں دہشت گردی کروا رہی ہے۔ افغانستان میں امریکہ کو آئے ہوئے 17برس گزر چکے ہیں۔ آج بھی افغانستان کا زیادہ تر حصہ افغان طالبان کے زیر کنٹرول ہے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ امریکی فوج اپنی تمام تر ناکامیوں کا الزام پاکستان کے سرتھونپ دیتی ہے، حالانکہ صورتحال اس کے برعکس ہے۔ نیٹو فورسز دسمبر 2014میں افغانستان سے رخصت ہوچکی ہیں۔ اب صرف بچی کھچی 10امریکی فوج افغان دارالحکومت کابل کا نظم ونسق سنبھالے ہوئے ہے۔ کابل کے علاوہ پورے افغانستان پر طالبان کا راج ہے۔ افغانستان میں داخلی استحکام سے ہی خطے میں امن آئے گا۔ ڈائریکٹر جنرل آئی ایس پی آر جنرل آصف غفور نے بھی دوٹوک الفاظ میں کہہ دیا ہے کہ پاکستان میں دہشت گردوں کا خاتمہ کردیا گیا ہے لیکن افغانستان میں دہشت گرد اب بھی موجود ہیں۔ افغان سیکورٹی فورسز میں دہشت گردوں کو شکست دینے کی صلاحیت نہیں۔ تاہم امریکہ اور افغان حکومت کو بلاسوچے سمجھے پاکستان پر الزام نہیں لگانا چاہئے بلکہ انہیں پہلے افغانستان میں سیکورٹی کا نظام بہتر بنانا چاہئے اگر افغانستان میں دہشت گردی ہورہی ہے تو اس کا ذمہ دار ہندوستان ہے جس نے وہاں اپنے پنجے گاڑے ہوئے ہیں۔ بھارت نہیں چاہتا کہ افغانستان میں امن قائم ہو۔ کیونکہ افغانستان میں امن قائم ہونے سے پاکستان میں بھی داخلی استحکام آئے گا۔ ہمارے قانون نافذ کرنے والے اداروں نے چند ماہ میں بلاشبہ بڑی کامیابیاں حاصل کی ہیں۔ کراچی، فاٹا اور ملک کے دیگر علاقوں میں بڑی حد تک دہشت گردی پر قابو پایا جا چکا ہے۔ اب ملک میں امن وامان کی صورتحال خاصی بہتر ہےاس کامیابی کا تمام تر کریڈیٹ پاک فوج کو جاتا ہے۔ امریکہ اگر افغانستان میں امن کا خواہاں ہے تو اُسے وہاں بھارتی اثرونفوذ ختم کرنا ہوگا۔ افغان طالبان بڑے اسٹیک ہولڈرکی حیثیت رکھتے ہیں۔ افغان حکومت اور امریکہ کو براہ راست افغان طالبان سے مذاکرات کر کے امن کا راستہ نکالنا پڑے گا۔ بصورت دیگر حالات جوں کے توں رہیں گے۔ سابق وزیراعظم گلبدین حکمت یار بھی افغان حکومت کے رابطے میں ہیں۔ وہ حزب اسلامی کے سربراہ ہیں اور طالبان سے مذاکرات میں اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔ افغان حکومت کو حکمت یار اور دیگر سیاسی قوتوں کو بھی اعتماد میں لینا چاہئے۔ افغانستان میں خانہ جنگی کا خاتمہ وقت کا اہم ترین تقاضا ہے۔ افغانستان میں امن کے قیام کے بعد جموں وکشمیر کا مسئلہ بھی حل ہونے کے روشن امکانات ہیں۔ کیونکہ ہندوستان اب مظلوم کشمیریوں کو زیادہ عرصہ اپنا غلام نہیں بناسکتا۔ جموں وکشمیر کے عوام اگر انڈیا سے خوش ہوتے تو وہ اتنی کامیاب موجودہ تحریک آزادی نہ چلاتے۔ اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ مقبوضہ کشمیر کے عوام بھارت سے نجات چاہتے ہیں اور پاکستان سے الحاق کر کے ترقی وخوشحالی کے سفر پر گامزن ہونا چاہتے ہیں۔

تازہ ترین