• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

 کراچی (تجزیہ :مظہر عباس )سینیٹ انتخابات آج ہونگے اورا س میں حکمراں جماعت یا اپوزیشن میں سے 52سیٹوں پر کون اکثریت لے گا، آج ہونے والے سینیٹ انتخابات سے جمہوری سسٹم اور تقدس دائو پر لگا ہے۔حکمراں جماعت مسلم لیگ (ن)اور اس کے اتحادی یا پی پی قیادت سینیٹ انتخابات میں اج 52 نشستوں پر اکثریت کس کی ہوگی یہ حقائق سامنے آنا باقی ہیں ،تقدس اور صداقت آج کے انتخابات کے اہم پہلو ہونگے ،جنہیں ووٹوں کی خریدو فروخت کے الزامات سے بری طرح نقصان پہنچا ہے ۔سینیٹ یا ایوان بالا کسی بھی جمہوریت میں انتہائی مقدس ادارہ ہوتا ہےلیکن اس میں ایسا نہیں ہے انتخابات پر سنگین سوالات کھڑے ہوگئے ہیں ،لیکن اس کا تقدس بن سکتا ہے کہ اگر سیاسی جماعتیں جمہوری فعل بنانے میں مخلص ہوں ،سیاسی جماعتیں اور رہنما اسے پیچیدہ بنارہے ہیں جو کہ اپنی زندگیاں قربان کررہے ہیں اور آئینی حق کیلئے مشکلات کا سامنا کررہے ہیں ،تو ایسے لوگ کیسے جمہوری سسٹم میں بہتری کیلئے اپنا حصہ ڈال سکتے ہیں اور یہ اہم سوال ہے ۔الیکشن کمیشن آف پاکستان جس نے احتیاطی اقدامات کیے ہیں اور کوشش کی جارہی ہے کہ ایم پی ایز کے کسی بھی غیر اخلاقی عمل کو روک لیں اور یہ ایوان کی توہین ہے لیکن ایک الیکشن کمیشن آف پاکستان کی حمایت کرتا ہےاور ماضی میں ایسے انتخابات میں کیا ہوتا رہا ۔الیکشن کمیشن آف پاکستان ووٹ کو ان ویلڈ قرار دے سکتا ہے اور حتیٰ کہ ایم پی اے کو نااہل بھی قرار دے سکتا ہے،اس صورتحال میں ایم پی اے یا ایم این اے غلط کام میں پایا گیا لیکن یہ بھی افسوسناک ہے کہ ماضی میں کبھی کسی سیاسی پارٹی نے خود سے ووٹ بیچنے والے کیخلاف کارروائی نہیں کی ۔اگرچہ الیکشن کمیشن آف پاکستان نے موبائل فون اور دیگر آلات پر پابندی لگائی جو کہ غلط کام میں استعمال ہوسکے ،میڈیا کو الیکشن کمیشن آف پاکستان کی حمایت کی ضرورت ہے لیکن الیکشن کمیشن آف پاکستان کا خود اپنا اسٹاف اپنے اصولوں پر عملدرآمد کرے گا جوکہ ایک ٹیسٹ اور چیلنج ہوگا ۔بدقسمتی سے الیکشن کمیشن آف پاکستان نے بھی امیدوا ر و ں سے سیاسی جماعتوں سے آزاد نامزد امیدواروں کے منسلک ہونے کی تبدیلی پر غیر روایتی طریقہ اپنایا ہے ،جیسا کہ مسلم لیگ (ن)کے امیدواروں کے ساتھ ہوا ہے۔یہ بھی سچ ہے کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان کے پاس سپریم کورٹ فیصلے کی روشنی میں دو انتخاب کے راستے ہیں جس نے ناصرف سابق وزیر اعظم نوازشریف کو لیگی صدارت سے نااہل کردیا بلکہ یہ بھی کہا کہ 28 جولائی 2017 سے ان کے تمام فیصلے بھی غیر قانونی ہیں ۔الیکشن کمیشن آف پاکستان انتخابی عمل کو ری شیڈول یا اپنی نامزدگیوں کو مسترد کرسکتا ہے ،کیا اس نے غیر روایتی کیا تھا کیونکہ امیدواروں کی حتمی فہرست جاری کردیے جانے کے بعد اس کی قانونی حیثیت نہیں ۔یہ پاکستان مسلم لیگ (ن)کیلئے دھچکا ہوگا کہ اس کے امیدوار بغیر کسی سرکاری نشان کے الیکشن لڑرہے ہیں اگر انہیں آزاد امیدواروں سے الیکشن کمیشن کا نام واپس مل جاتا تو یہ سچ ہے کہ وہ منتخب ہونے کے بعد پارٹی میں شامل ہوجاتے لیکن پورا تصادم سے اس عمل کا نام خراب ہوا اور امیدوار اور ووٹرزکمزور سے چمک ہوگئے ۔کرپشن نے ہمارے معاشرے میں تمام سطحوں پر جڑیں گہری ہوگئی ہیں ۔سینیٹ ،جسے انتہائی مقدس تصور کیا جاتا ہے اور اس سے توقع کی جاتی ہے کہ سیاسی جماعتیں اور رہنما اپنی غلطیوں سے سیکھیں گے اس سے مزید اپنا تقدس کھوئیں گے ،اگر ان میں سے کچھ آج ہونے والے انتخابات میں منتخب ہوجاتے ہیں تو وہ کرپشن کے نام کے ساتھ ہی سینیٹ میں جائیں گے چاہے انفرادی ہو یا مجموعی طور سے ہوں ۔گزشتہ چار برسوں میں اس کے چیئر مین رضا ربانی نےجس طرح سے ایوان بالا کو چلایا اس کے تقدس کو چار چاند لگادیے ہیں ،میں نے حکومت یا اپوزیشن سے بہ مشکل ہی ایسے سینیٹر کو دیکھا ہو جس پر جانبداری کا الزام ہو۔آج کے انتخابات کے نتائج دلچسپ ہونگے اور بڑا سوال یہ ہوگا کہ حکمراں جماعت اور اس کے اتحادی ایوان بالا میں واضح اکثریت لینے میں کامیاب ہوتے ہیں یا نہیں ہوتے ۔اسی طرح پی پی قیادت میں اہم اپوزیشن اتحاد جس نے سال 2013 کے انتخابات کے بعد سینیٹ میں اکثریت حاصل کی ،کوشش کرے گی کہ وہ اپنی پوزیشن کو بحال کرے اور سینیٹ میں دوبارہ اکثریت حاصل کرلے ۔اگرچہ مسلم لیگ (ن)کی جماعت کو بلوچستان میں انحراف کا دھچکا لگا ہے،اس کے امیدواراب بھی اس کیلئے پر اعتماد ہیں کہ 52 سیٹوں کیلئے آج ہونے والے انتخابات میں اکثریت حاصل کرلیں گے ۔(ن)لیگ اور اس کے جے یو آئی (ف)جیسے اتحادی پختونخوا ملی عوامی پارٹی ،پی کے میپ اور نیشنل پارٹی ہیں ،نیشنل پارٹی اس کیلئے پر اعتماد ہے کہ وہ اتنی سیٹیں لینے میں کامیاب ہوجائینگے کہ اپنا چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین منتخب کرالیں ۔لیکن بلوچستان بحران سے پہلے جیسا بحران تھا تو ایسا کرنا مشکل نظر آرہا تھا،دوسری طرف پی پی کی قیادت کرنے والے آصف علی زرداری جنہیں مصالحت کا بادشاہ کہا جاتا ہے وہ بھی ایم کیوایم پاکستان کی حالیہ صورتحال کے بعد اسی طرح مطمئن ہیں ۔اگر ایم کیوایم سنگل سیٹ لینے میں بھی ناکام ہوتی ہے جیسا کہ اس نے توقع کی ہے ،تو وہ بھی پہلے وقت 1988 جیسا ریکارڈ ہوجائے گا۔

تازہ ترین