• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

حالات بتا رہے ہیں اب کچھ بھی بعد از قیاس نہیں رہا۔ سب کچھ ہو سکتا ہے۔ آپ سب کے سامنے کی بات ہے اگر ایک منتخب جمہوری وزیر اعظم کو تیسری دفعہ صرف ایک اقامے کی بناپرفارغ کیا جا سکتا ہے۔ اگر اسی بنیاد پر اس کو پارٹی کی صدارت سے محروم کیا جا سکتا ہے۔ اگر اسی بنیاد پر اس کے کیے تمام فیصلوں کو مسترد کیا جا سکتا ہے۔ اس کے نامزد امیدواروں کو پارٹی شنا خت سے محروم کیا جا سکتا ہے۔ ملک کی سب سے بڑی سیاسی جماعت کو سینیٹ میں داخل ہونے سے روکنے کے لئے ان کو ’’ آزاد‘‘ کا رتبہ دیا جا سکتا ہے۔ اگر اسی فیصلے کی بنا پر انکی تقریر نشر کرنےپر پابندی کے حوالے سے سوچا جا سکتا ہے تو اس بات سے قطع نظر کہ نواز شریف کا بیانیہ کس حد تک لوگوں کے ذہنوں میں پہنچ چکا ہے؟ عوامی رد عمل کیا ہو سکتاہے ؟ لوگ کیا سوچتے ہیں؟ سول سپریمیسی کیا کہتی ہے؟ ووٹ کا تقدس کیا درس دیتا ہے؟ ماضی میں کیا ہوتا رہا ہے؟ مستقبل کس تاریکی کی طرف اشارہ کرتا ہے؟ ان سب سے بعید ہو کر بہت حد تک ممکن ہے کہ نواز شریف کی آواز کو دبانے کے لئے ، انکے بیانیے کو منظر عام سے ہٹانے کے لئے ، ان کو جیل بھی بھیجا جا سکتا ہے۔مریم نواز ووٹ کے تقدس کے بیانیے میں نواز شریف کی دست راست ہیں۔ انکی آواز کو بھی دبانے کے لئے یہی فارمولا اختیار کیا جا سکتا ہے۔سوال یہ ہے کہ اگر ایسا ہوتا ہے تو عوام اور سیاست کس کروٹ بیٹھے گی۔
نواز شریف اور مریم نواز بخوبی اس خدشے سے آگاہ ہیں اور اسکا خمیازہ بھگتنے کے لئے مکمل طور پر تیار نظر آتے ہیں۔ اگر ان کے لہجے میں کہیں نرمی آتی، بیانیے میں کہیں جھول پڑتا، اداروں کے خلاف بیان میں کوئی یو ٹرن آتا تو کسی ڈیل کی بات ہو سکتی تھی۔ لیکن یہاں پر معاملہ الٹ ہو رہا ہے۔ جتنی سختی نواز شریف پر ہو رہی ، اتنی شدت اور تلخی ان کے بیان میں آتی جا رہی ہے۔ اسکی ایک وجہ تو یہ ہے کہ انہیں اس بات کا ادراک ہے کہ مجھے کیوں نکالا کا بیانیہ اب عوام کے ذہنوں میں سرایت کر گیا ہے۔ اب لوگ بات سمجھ گئے ہیں۔ ستر سالہ تاریخ کا المیہ اب واشگاف ہو کر لوگوں کے سامنے آ رہا ہے۔جلسوں میں عوام کی تعداد بڑھ رہی ہے۔ سارے پاکستان میں عوام کے حق حاکمیت والا نعرہ زور پکڑ رہا ہے۔ ایسےمیں جیل جانے سے بڑی خوش بختی کیا ہو گی۔ الیکشن کا موسم آیا ہی چاہتا ہے۔ ایسے میں مظلومیت کا ووٹ بہت اہم ہوتا ہے۔ پاکستان کی تاریخ ایسی مثالوں سے بھری پڑی ہے کہ جہاں عوام کو شائبہ بھی ہوتا کہ کسی شخص کے ساتھ زیادتی ہوئی ہے، کہیں عوام کا حق مارا گیا ہے، عوامی نمائندوں کی تزلیل کی گئی تو عوام ایسے فرد یا جماعت کے ساتھ چٹان کی طرح کھڑے ہو جاتے ہیں۔ اس چٹان کے ساتھ بعد میںکیا سلوک رکھا جاتا ہے یہ بعد کی باتیں ہیں مگر الیکشن میں جیت مظلوم اور مضروب پارٹی ہی کا مقدر ہوتی ہے۔ اس کی سب سے بڑی مثال بے نظیر بھٹو کا پہلا الیکشن ہے۔ گیارہ سال بھٹو کے نام کو مٹانے کے لئے کیا کیا جتن نہیں کیے گئے لیکن جیسے ہی لوگوں کو موقع ملا عوامی سیلاب ماضی کے سب فیصلوں کو خس و خاشاک کی طرح بہا کر لے گیا۔
فرض کریں اگر الیکشن کی مہم کے دوران نواز شریف اور مریم نواز پابند سلاسل ہوں گے، ان کی آواز کے لوگوں تک پہنچے میں ہر رکاوٹ کھڑی کی جائے گی، انکی تحریر اور تقریر پر قدغن لگے گی، انکی زباں بندی کی ہر ممکن کوشش کی جائے گی، ان سے ملاقات پر پابندی ہوگی، انکے جیل سے خطاب کی بھی ممانعت ہو گی، موبائل کے ذریعے وٹس ایپ پیغام بھی ووٹروں کو نہیں دیا جا سکے گا تو ایک بات تو قطعی ہے پی ایم ایل ن کو ایک بڑی فتح سے نہیں روکا جا سکتا۔اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان دو لیڈروں کی عدم موجودگی میں الیکشن مہم کون چلائے گا۔ عوام سے نعرے کون لگوائے گا۔ جلسوں میں لوگ جوق در جوق کس کے کہنے پر آئیں گے۔بظاہر تو میاں شہباز شریف ہی پارٹی کی قیادت کریں گے۔ اسی مقصد کے لئے احتیاطاََ ان کو پارٹی صدر کے طور پر بھی نامزد کر دیا گیا ہے۔لیکن کیا میاں شہباز شریف ، نواز شریف کا بیانیہ لے کر آگے چل سکیں گے؟ کیا وہ عوامی طاقت کو ووٹ میں تبدیل کر سکیں گے؟ اس بات کا اعادہ وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی بھی بارہا کر چکے ہیں کہ ووٹ نواز شریف کے نام کا ہے۔ مشاہد اللہ خان، مریم نواز، احسن اقبال، خواجہ آصف بھی اس بات کا اقرار کر چکے ہیں۔ اب اگر شہباز شریف الیکشن کی مہم چلاتے ہیںتو ان کے پاس ترقی اور میگا پروجیکٹس کا بیانیہ ہے۔ جو کہ نواز شریف کے بیانیے کو تقویت تو دیتا ہے مگر یہ در حقیقت نواز شریف کا موجودہ بیانیہ نہیں ہے۔ نواز شریف اس ملک کی تاریخ کی بات کر رہے ہیں ، اداروں کی چیرہ دستیوں پر آواز بلند کر رہے ہیں، جمہوریت کا نعرہ لگا رہے ہیں، آمریت کے مضمرات گنوا رہے ہیں۔ جبکہ شہباز شریف وہ شخصیت رہے ہیں جنہوں نے اداروں سے ہمیشہ مفاہمت کی بات کی ہے۔ ان کے کسی بیان میں آمروں کی مخالفت نظر نہیں آتی، انکی کسی تقریر میں انصاف کے نام پر ڈھائے جانے والے مظالم کا ذکر نہیں ہے۔شاید یہی وجہ ہے بطور منتظم آپ شہباز شریف کی جتنی بھی تعریف سن لیں مگر بحیثیت عوامی لیڈر وہ کبھی بھی مقبول نہیں رہے۔
مشاہد اللہ خان، مریم نواز، احسن اقبال، خواجہ آصف ، شاہد خاقان عباسی اور سعد رفیق جیسے نواز شریف کے جانثار اپنی بساط بھر کوشش ضرور کر سکتے ہیں مگر ان میں سے کسی کا رتبہ عوام کی نظر میں نواز شریف جتنا نہیں ہے۔ ایسے میں سب سے زیادہ مشکل شہبا ز شریف کے اوپر آئے گی۔ اگر وہ اداروں کے ساتھ تعا ون کا بیانیہ اختیار کرتے ہیں تو اس بیانیے کی موجودہ صورت حال میں عوام میں پذیرائی ممکن نہیں اور اگر وہ نواز شریف کا بیانیہ لے کر آگے بڑھتے ہیں تو اداراتی سازشیں انکے خلاف شروع ہو جائیں گی۔
پنجاب میں پیپلز پارٹی کی ابتر صورت حال کو دیکھ کر اور مشترکہ اپوزیشن کے لاہور میں بدترین جلسے کا حال دیکھ کر یہ بات بڑے وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ آگے انتخابات میں مسلم لیگ ن ایک بڑے مارجن سے فتح حاصل کرے گی۔ نواز شریف کی گرفتاری اس مارجن میں بڑھوتری کا باعث بنے گی۔ یہ جو بحرانی کیفیت ہے یہ صرف ایک وقتی انتشار اور سازش ہے ۔ اگر سینیٹ میں مسلم لیگ ن کے امیدوار اپنی قیادت پر قائم رہتے ہیں اور قومی اسمبلی کے ایوان بھی مسلم لیگ ن کی اکثریت سے بھرے ہوتے ہیں تو پھر فیصلہ وہ ہو گا جو پارلیمان کرے گی۔ عدلیہ کے غلط فیصلوں کی تاریخ ہو یا ڈکٹیٹروں کے احتساب کا نعرہ ہر فیصلے پر عوام کے منتخب نمائندوں کی مہر ثبت ہوگی۔ اس کا قطعی مطلب یہ نہیں ہو گا کہ نواز شریف اپنے بیانیے کی جنگ جیت گئے ہیں اس سے صرف اتنا فرق پڑے گا کہ عوام کے حق حاکمیت کی منزل کی جانب پہلا قدم درست سمت میں پڑے گا۔ اداراتی سوچ بدلنے کے لئے ایک الیکشن اور ایک مقدمہ بہت ناکافی ہے اس جدوجہد میں کئی برس اور کئی زندگیاں لگیں گی۔ حالات اس وقت بدلتے ہیں جب آپ ان کو بدلنے کا ارادہ کر لیں ۔ نواز شریف کا ارادہ بہت واضح نظرآ رہا ہے۔ ان کی جنگ اب ذاتی نہیں رہی۔ اس کا مطمح نظر اب عوامی ہو چکا ہے۔

تازہ ترین