• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مورخین نے قوموں کے زوال کی کچھ وجوہات بیان کی ہیںان میں ایک اہم وجہ ریاست کے استحصالی اداروں کا زیادہ مضبوط ہونا ہے۔حکمران طبقات اور عوام میںدوری اور عوامی رائے کوریاستی اداروںمیں پذیرائی حاصل نہ ہونا بھی اس کی وجوہات میں شامل ہے۔یہاں تک کہ عوام کی نظروں میں ریاست ان کی محافظ ہونے کی بجائے ان کے دشمن کی شکل اختیار کر جاتی ہے۔پاکستانی عوام بھی آج کل اسی کشمکش سے دوچار ہیں۔
ضیاالحق سے لے کر اب تک ریاستی اداروں کے بیانیے میں ذرہ برابر فرق نہیں آیا اور یہ حقیقت پاکستانی تاریخ کا حصہ بن چکی ہے کہ انہوں نے بے نظیر کی 1988ء کی حکومت کے خلاف عدم اعتماد تحریک کی پشت پناہی کی گوکہ ناکام ہوئے مگر پھر بھی تسلسل کے ساتھ ان پالیسیوں کو جاری رکھا گیا او ریوں مشرف کے آتے آتے کئی آئینی حکومتوں کو اپنی مدت پوری نہیں کرنے دی گئی۔سماج میں اس عمل کے خلاف سیاسی قوتوں نے کوئی لائحہ عمل مرتب نہیں کیااور اگر کیا بھی تو صرف وقتی طور پر اپنا فائدہ اٹھانے کے لیے کیا۔آج سیاسی قیادت اشرافیہ کے ہاتھوں میں ہے اور مزید کچھ عرصہ بھی رہے گی۔اس لیے اس طبقے نے ذاتی مفادات کے تحفظ کے لیے ہر طرح کے گٹھ جوڑ کیے۔جس کا حاصل عوام کو بھوک افلاس ،بے روزگاری،نفرت اور بنیاد پرستی کے علاوہ کچھ نہیںملا۔
آج 70سال گزر نے کے باوجود مقتدر طبقوں کے رویہ ذرا نہیں بدلا۔ بلوچستان میں نیب کو استعمال کرکے اپنے مخالفوں کوتہہ تیغ کیا جارہاہے۔آج سینیٹ کے الیکشن کے لیے دن رات جوڑ توڑ ہو رہاہے۔اس عمل میں سب سے پہلے تو پیسوں کے ذریعے ووٹ لینے کی کوشش کی جاتی ہے اور اگر کوئی ایم پی اے نہ مانے تو پہلے اس کی پوچھ گچھ ہوتی ہےاور آخر میں نیب کے حوالے کردیا جاتاہے۔ بلوچستان میں تواس عمل کو خفیہ رکھنے کی بھی کوشش نہیں کی گئی۔جس طرح 2002ء میں مشرف کے دورمیں الیکشن کرائے گئے اور تمام نیب زدہ امیدواروں کو اکٹھا کر کے ایک پارٹی کو برسراقتدار لایا گیااور صرف تربت سے ایک خاتون کو جتوانے کے لیے پوری ریاستی مشنری حرکت میں آگئی لیکن مشرف کے جاتے ہی اس پارٹی کا بھی صفایا ہوگیا۔بلوچستان میں آج وہی ایکشن ری پلے ہورہاہے۔محمود خان اچکزئی نے تونام تک لے دیا ہے لیکن پنجاب اور دوسرے صوبوں سے اس کے خلاف کوئی موثر آواز نہیں اٹھائی گئی۔آج بھی بلوچستان میں ’’ن‘‘ لیگ کی اتحادی پارٹیوں کو روزانہ کی بنیادوں پر نیب میں حاضری لگوانے کے ساتھ ساتھ ووٹ دینے کے لیے بھی مجبور کیا جا رہا ہے۔یاد رہے بلوچستان میں یہ سارا عمل جمہوری اور صاف ستھرے طریقے سے کیا جا رہا ہے۔تاثر ہے کہ ہر ایم پی اے کو اس کی مناسب قیمت ملے گی مگر اس یقین کے بعد کہ اس نے اپنا ووٹ متعلقہ امیدوار ہی کو ڈالا ہے۔پارٹیوں کو اس بات پر بھی مجبور کیا جارہاہے کہ وہ آپس میں اتحاد نہ کریںورنہ نقصان میںرہیں گی۔ریاستی اداروںکے ساتھ معاہدہ کریں توعددی اکثریت سے زیادہ نمائندگی ملنے کی یقین دہانی بھی کرائی جا رہی ہے۔مختلف پارٹیوں کوپہلے تو اس بات پر مجبور کیا گیا کہ آپ فلاں فلاں شخص کوٹکٹ دیں کیونکہ وہ بلوچستان کے مسائل زیادہ بہتر طریقے سے بیان کرسکتاہے۔سونے پر سہاگہ کہ عین سینیٹ کے الیکشن کے موقع پر ن لیگ کو الیکشن سے باہر کردیا اس لیے کہ اس کے امیدوار آزاد حیثیت میں الیکشن لڑیں تا کہ انہیں اپنے منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کے لیے قانونی مسائل کا سامنا نہ کرنا پڑے۔اس سارے کھیل میں پیپلز پارٹی کا موقف ہے کہ ن لیگ نے ان کے دور میں ریاستی اداروں کے ساتھ مل کر یہی کھیل کھیلا تھااس لیے وہ ان کی کوئی مدد نہیں کریں گے بلکہ جو کچھ بھی مل جائے گا اس پر ہی اکتفا کریں گے۔پی پی کی یہ بہت بھونڈی دلیل ہے کیونکہ سماجی ارتقاکہیں رکا نہیں کرتا اور خاص طور پر اس وقت انتقامی سیاست کا مطلب صرف اورصرف مقتدر حلقوںکی جھولی میں جا بیٹھنا ہے اس کا پیپلز پارٹی کو مستقبل میں شدید نقصان ہوگا۔اگر انتقامی سیاست ہی قوموں کی کامیابی کی دلیل ہوتی تو نیلسن منڈیلا28سال جیل میں رہنے اور سفید فاموں کے ہاتھوں شدید استحصال کا شکار ہونے کے بعد ان سے انتقام لیتالیکن اس نے ایسا نہیں کیا کیونکہ اسے ایک قوم بناناتھی۔اس نے ’’سچائی کمیشن‘‘بنا دیا اور اعلان کیا کہ جس جس نے جو ظلم کیا ہے وہ یہاں آکر سچ سچ بتا دے اوراپنے گناہوں کی معافی مانگ لے اسے معاف کردیا جائے گا۔لگتا ہے ہمارے سیاسی لیڈران کا قد کاٹھ بھی موجودہ سیاسی و سماجی تنزلی سے عبارت ہے۔
اس میںکوئی شک نہیں سیاسی اور قانونی ارتقا سماج میں الگ الگ میکانزم سے پروان چڑھتے ہیںلیکن دونوں کا مقصدایک ہی ہوتا ہے یعنی سماج کومختلف ارتقائی مراحل سے گزار کر ترقی کی راہ پر گامزن کرنا۔ہر ادارہ،قانون یا عقیدہ سماج کے لیے ہی ہوتاہے اور اس کا مطمح نظر سماج سے ماورا نہیں ہوسکتا۔عدالتی فیصلے اگر سیاسی اور سماجی حقیقتوں کو مدنظر رکھ کر نہیں کیے جائیں گے تو یہ سماج ایک ایسے جسم کی طرح پروان چڑھے گاجس کے سر ،پیر اور ہاتھ مربوط نہیں ہوں گے۔صاف ظاہر ہے ایسا جسم کتنا بڑا ہی کیوں نہ ہو اس کے تمام اجزا ایک ساتھ کام نہیں کرسکتے اورسماج کو اس کا کوئی فائدہ نہیں ہوسکتا۔آج نوازشریف جو ہر طرح کی قربانی دینے کوبظاہر تیار نظر آرہا ہے اس سے آئندہ آنے والے سیاسی کلچر کو بہتر بنیادوں اور ترقی پسندانہ روایتوںپر استوار کرنے میں مدد ملے گی۔سوال اتنا سا ہے کہ نواز شریف کا یوں کھڑے ہو جانا کسی سیاسی ارتقائی عمل کا نتیجہ ہے یا یہ بھی وقتی فائدے کے لیے ہی ہے۔ جمہوری عمل کو مستحکم کرنے کیلئے ضروری ہے کہ زرداری،عمران خان اور نواز شریف اپنے فروہی اختلافات بھلا کرپاکستان کی سیاسی تاریخ میں اپنا مقام متعین کروالیںورنہ آئندہ کا آزاد منش سیاسی مورخ انہیں اچھے ناموں سے یاد نہیں کرے گا۔

تازہ ترین