• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

میں نے کمرہ نچلی منزل پر تبدیل کیا ہوٹل کی کھڑکی اونچی تھی مسجد کے میناروں سے !
یہ کیفیت بہت سال پہلے کی ہے ،میں شہر مقدس میں تھا۔میں کمرہ میں داخل ہوا اور میرا سامان لانے والے بنگلہ دیشی ملازم نے جھٹ سے کھڑکی کا پردہ کھول دیا۔ میرے سامنے مفتی جی والا ’’کالا کوٹھا تھا ‘‘ اور میں حیرت زدہ ،میں نے اپنے پرانے وطن مشرقی پاکستان کے باسی سے بنگلہ میں پوچھا ۔(کیمون اچھے) کیسے ہو، وہ حیرت سے مسکرایا اور بولا (بھالن اچھے)ٹھیک ہوں، میں نے پھر بنگلہ میں پوچھا (اپنا رنام کی )آپ کا کیا نام ہے وہ بولا ’’رحمان علی ‘‘ میری بنگالی ختم ہو چکی تھی اور اس کو بھی اندازہ ہوا وہ مجھ سے پوچھنے لگا آپ پہلی بار آیا ہے میں چپ رہا پھر کچھ دیر کے بعد مجھے اس کے سوال کا خیال آیا۔وہ میرا سامان فٹ کر رہا تھا میں نے اس کو اشارے سے روک دیا اور بولا میں دو تین دفعہ پہلے بھی آیا ہوں مگر اتنی بلندی پر نہیں ٹھہرا۔وہ میری بات کو سمجھنے کی کوشش کر رہا تھا میں کالے کوٹھے سے نظریں چرا رہا تھا اور مجھے بلندی کا خوف بھی تھا میں نے کہا رحمان علی ،میں یہ کمرہ بدلنا چاہتا ہوں سارا سامان واپس گرائونڈ فلور پر لے چلو۔
رحمان علی لفٹ میں پھر بولا شاب آپ کا کمرہ بہت اسپیشل ہے اس کمرہ کے لئے لوگ تو سفارش کرواتے ہیں ہمارے مولوی شاب کا کہنا ہے کہ یہ کمرہ اور ہوٹل حرم پاک کا حصہ ہیں اور بہت برکت والا ہے ۔شکر ہے اس وقت لفٹ میں ہم دو ہی تھے پہلے تو ایک لمحہ کو مجھے غصہ آیا پھر خیال آیا کہ اس شہر مقدس میں مایوسی اور گناہ حرام ہے اور میں بھی ذرا شانت ہوا۔میں نے رحمان علی سے کہا کیا تمارا مولوی صاحب تمارا پیر بھی ہے رحمان علی نے مجھے غور سے دیکھا ۔شاب ادھر تو پیر شاب بالکل نہیں ہوتا۔مگر مولوی شاب کے پاس بہت طاقت ہے اور ان کا حکم بادشاہ کے بعد چلتا ہے اتنی دیر میں ہم گرائونڈ فلور پر آ چکے تھے۔گیٹ ڈیسک پر کھڑے اسٹاف سے کمرے کی تبدیلی کی بات کی وہ مقامی عربی تھا اس کی عربی میری بساط سے اونچی تھی اور میری انگریزی اس کے لئے قابل فہم نہ تھی ۔کچھ تکرار کے بعد ایک اور ہوٹل اسٹاف نے مداخلت کی اور میری عرضی سنی وہ موصوف پاکستانی تھے آپ کا کمرہ تو بدل دیتے ہیں مگر ویسا شاندار نہ ہو گا۔
میں نے کمرہ بدل کر غلطی نہیں کی تھی میں جتنے دن بھی شہر مقدس میں رہا مجھے گھبراہٹ ہی رہی کہ اتنی اونچی اونچی عمارتوں نے شہر مقدس کے حسن کو برباد تو نہیں مگر متاثر ضرور کیا ہے ۔ابھی حالیہ دنوں میں سعودی عرب میں تبدیلیوں کی جو ہوا چل رہی ہے وہ لوگوں کی زندگی تو نہیں مگر چلن ضرور بدل رہی ہے ۔مجھے یاد ہے کہ ایک دفعہ میں بیت اللہ کا طواف کر رہا تھا میرے سر پر ریڈکراس والوں کی ٹوپی تھی دوسرے چکر میں دو لیحم عربی شرتوں نے مجھے دبوچ لیا اور نیچے معالموں کے دفتر لے گئے ۔وہاں بھی زبان کا معاملہ تھا خیر سے ایک ایسا عربی نمودار ہوا جو ان کا افسر لگ رہا تھا سب اس کو تکریم دے رہے تھے پہلے تو اس نے عرب شرتوں سے میری شکایت سنی اور مسکرایا اور مجھے غور سے دیکھنے لگا۔میں نے عربی میں کہا سید کیف حالاکا۔اس نے مسکرا کر سر ہلایا اور بولا معافی عربی ۔اب میں انگریزی میں بولا یہ لوگ کیا چاہتے ہیں اس کا جواب نفیس انگریزی میں تھا ان کو کچھ غلط فہمی ہو گئی ہے ۔
ہماری کچھ دیر گفتگو ہوتی رہی پھر اس نے عربی شرتوں اور دیگر لوگوں کو عربی میں کچھ دیر لیکچر دیا اور مجھے کہنے لگا دفتر چلتے ہیں۔قہوہ پیتے ہیں میں اب بھی کچھ کچھ خوف زدہ سا تھا خیر میں اس کے ساتھ اس کے دفتر آ گیا کیا شاندار دفتر تھا میں نے اس سے پوچھ ہی لیا کہ وہ کون ہے اور کیا کرتا ہے یاد رہے ہماری گفتگو انگلش میں ہو رہی تھی اس نے پہلے تو میرے بارے میں پوری معلومات لیں اور بتانے لگا کہ وہ کچھ عرصہ پاکستان میں بھی کام کر چکا ہے وہ پاکستان میں انٹرنیشنل ریڈکراس کی ٹیم کے ساتھ تھا جو افغان مجاہدین کے لئے کام کرتی تھی۔وہ کوئٹہ اور لاہور میں بھی رہ چکا ہے اب وہ اس شہر مقدس کے انتظامی امور کا نگران ہے میں نے اس سے تعلیم کا پوچھا وہ امریکہ کی ایک مشہور یونیورسٹی سے تعلیم مکمل کرنے کے بعد سعودی ریڈکراس کا حصہ بنا اور اس حوالہ سے انٹرنیشنل ریڈکراس میں کا م کیا۔
اب وہ سعودی شاہی حکومت کا اعلیٰ عہدیدار ہے میں نے اس سے پوچھ لیا تم اپنی زندگی اور ماحول سے خوش ہو۔وہ بولا بالکل میں مطمئن ہوں پھر خود ہی بولا میری زندگی میں تین چیزیں بہت اہم ہیں اتنی دیر میں ملازم قہوہ اور کھجوریں لے آئے ایک چھوٹا کپ پینے کے بعد میں رکھنے لگا تھا کہ ملازم نے دوبارہ وہ کپ بھر دیا مجھے مجبوراً وہ بھی نوش کرنا پڑا پھر میں نے عربی انداز میں وہ کپ بائیں ہاتھ منتقل کیا تو ملازم میری طرف دوبارہ متوجہ ہوا اور کپ لیکر میری جان چھوڑی۔میں نے اس سے پوچھ ہی لیا کونسی تین چیزیں تمہاری زندگی میں اہم ہیں وہ کہنے لگا نماز، عورت اور خوشبو میں نے اس کی بات دہرائی تو وہ مسکرایا اور کہنے لگا نماز پڑھنا پانچ وقت میری عادت ہے ۔کسی بھی جگہ جب وقت ہوا نماز ادا کی کہ عبادت بھی ہے اور فرض بھی، عورت ہر مرد کی ضرورت ہے یہ پرلطف کمپنی دیتی ہے اور آپ کو مطمئن کرتی ہے اور خوشبو بھی عورت اور نماز کی طرح آپ کو خوش وخرم رکھتی ہے اور دوسرے بھی خوشبو سے خوش ہوتےہیں ۔
مجھے اس عربی کی باتوں میں حقیقت لگی میں نے اس سے پوچھا میں اب جا سکتا ہوں اس نے اپنا فون نمبر دیا اور کہا کوئی مشکل ہو تو رابطہ کرنا اور پھر کہنے لگا اگر کوئی سعودی تم سے سوال جواب کرے تو صرف ایک بات کہنا ’’تکلم انگلش معافی عربی‘‘اور اس کے بعد جتنے دن بھی سعودی عرب میں ٹھہرا یہ مخصوص جملہ میرے لئے آسانی فراہم کرتا رہا اور مجھے کوئی پریشانی نہ ہوتی ۔
اب میں جب سعودی عرب میں سیاسی معاشی اور سماجی تبدیلیوں کے بارے میں دیکھ رہا ہوں تو خوف بھی آتا ہے اور کچھ کچھ خوشی بھی ہے ۔کچھ ویسی تبدیلیوں کی ہوا ہمارے ہاں بھی چل رہی ہے اور ویسا ہی احساس مجھے اپنے وطن کے بارے میں ہو رہا ہے ابھی حال ہی میں پنجاب کی نوکر شاہی کے اہم افسر کو نیب نے دھر لیا۔پنجاب کی نوکر شاہی کا دعویٰ ہے کہ اس افسر کے ساتھ زیادتی ہو رہی ہے پنجاب کی نوکر شاہی نے فریق بننے کی کوشش کی مگر جہاں دیدہ خادم اعلیٰ شہباز شریف نے معاملہ فہمی کرکے حالات کو خراب ہونے سے بچا ہی لیا
عاملوں سے زائچے بنوائیں کس امید پر
خواب ہی اچھے نہ تھے تعبیر لیکر کیا کریں

تازہ ترین