• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

40 سال سے اوپر کے افراد کو زندگی کیسے گزارنی چاہیے؟

بڑھاپا کیسے گزارنا چاہئے!سماجی ماحول کے اثرات ذہنی سطح اور تعلیم

ایک المیہ یہ بھی ہے کہ روزگار کی کمی ہے۔ جن کو روزگار ملا ہے جب وہ ریٹائر ہو جاتے ہیں تو وہ مایوسی اور ڈیپریشن کا شکار ہو جاتے ہیں۔ اس کی وجہ لوگوں میں پھیلے ہوئے فکری مغالطے ہیں جو بڑھاپے کو کچھ نہ کر سکنے کی عمر قرار دیتے ہیں۔ اب وہ ناکارہ ہو گئے ہیں۔ اس تصوّر نے ان کو زنگ آلودہ سوچوں کے حصار میں مقید کر دیا ہے۔ اس قسم کی سوچیں انہیں کچھ نہ کرنے کے نفسیاتی عارضے میں مبتلا کر دیتی ہیں۔ عالمی سطح پر جو تحقیق ہوئی اس سے پتہ چلا ہے اگر بڑی عمر کے لوگوں کو نئے تجربات حاصل کرنے پر مائل کیا جائے، زندگی کے معمولات میں دلچسپی لینے کو سراہا جائے تو ان کی زندگی معیاری گزر سکتی ہے۔ اگر یہ لوگ سماجی سرگرمیوں میں مثبت حصّہ لیں تو وہ کارآمد انسان کی حیثیت سے معاشرے کو آگے بڑھا سکتے ہیں، اس سے ان کی روزمرّہ کی زندگی پر اچھا اثر مرتب ہوتا ہے۔ ایک نفسیات دان ولیم شیلڈن عمررسیدہ انسانوں کی ذہنی کیفیت کا نقشہ کھینچتے ہوئے لکھتا ہے ’’جوانی کے زمانے ہمارا ذہن بڑی جرأت آمیز خیالات اور نظریات کا مرکز ہوتا ہے۔ ہر روز نت نئے منصوبے بناتے ہیں، خواب دیکھتے ہیں، کامیابی کے خواب، اچھے آنے والے دنوں کے خواب۔ نہ جانے کیوں 40برس سے اوپر آئے اور ذہن مضمحل سوچوں کا گھر بن جاتا ہے۔ 50سال بعد یہ سمجھتے ہیں کہ ہماری صلاحیتیں کند ہوتی جا رہی ہیں۔ نتیجتاً ہم اپنی صلاحیتوں اور وقت کو درست طریقے سے استعمال نہیں کر پاتے۔‘‘ 95سال کی عمر میں نامور فلاسفر ول ڈیورانٹ نے ’’خزاں کے پتّے‘‘ایک کتاب لکھی جو ان کی آخری کتاب ثابت ہوئی لیکن کتاب میں کہیں محسوس نہیں ہوتا کہ ول ڈیورانٹ کہیں مایوسی کا شکار ہے لیکن پاکستان کے کھاتے، پیتے بوڑھے جن کو ہر شے میسّر ہے، خزاں رسید درخت کی طرح ویران شخصیت کی علامت بن جاتے ہیں۔ اگر بڑھاپے کی عمر میں پہنچ کر منفی سوچوں میں محو گم ہو جائیں، مردہ دلی، مایوسی اور بے بضاعتی کا شکار ہو جائیں، اس رویّے کا کچھ ذمہ دار معاشرہ ہے اور کچھ خود انسان ہے۔ جب اسٹیفن ہاکنگ جیسا سائنسدان جس کا صرف ذہن اور ابرو کام کر رہے ہیں لیکن فلکیات اور فزکس کے راز افشاں کر رہا ہے اور جو آدمی جسمانی طور پر ٹھیک ہے وہ بے بضاعتی کا شکار ہو جائے تو اس کا ایک مطلب یہ ہے کہ ایسا شخص کتاب دوست نہیں، صرف دوست ہی نہیں بلکہ جنون کی حد تک کتابوں کا رسیا نہیں، ورنہ وہ مایوسی کا شکار نہ ہوتا۔ ایک تو ذمہ دار معاشرہ ہے دوسرا نظام حکومت ہے جس نے کالج اور اسکول کے نوجوان طلبہ و طالبات جن کو ہر قسم کی فزیکل کلچر کی سہولتیں فراہم کیں لیکن ان کو تمام عمروں میں جینے کا سلیقہ نہیں سکھایا اور نہ ہی نوجوانوں کو یہ سکھایا کہ وہ عصر حاضر میں بوڑھوں کو نظرانداز نہ کریں۔ وہ اس احساس میں گم ہو گئے کہ ان کی زندگی کا بہترین زمانہ تو گزر گیا۔ اس قسم کے معاشرے میں بوڑھے اپنے آپ کو زمین کا بوجھ سمجھنے لگتے ہیں۔ غالب نے کہا کہ ’’موت کا ایک دن معّین ہے، نیند کیوں رات بھر نہیں آتی‘‘یہ کیفیت نہیں ہونی چاہئے۔ ہندوستان کے معروف اداکار دیوآنند سے ایک اینکر پرسن نے پوچھا… آپ 80سال کے ہو گئے ہیں، آپ کو کوئی خوف تو لاحق نہیں تو دیوآنند نے کہا کہ … لوگ تو 30برس کی عمر میں بھی مر جاتے ہیں، میں تو 80سال کی عمر میں چاک و چوبند ہوں اور ایک اچھی زندگی گزار رہا ہوں۔ مر گیا تو دوسرا جنم بھی ہو گا البتہ انہوں نے یہ ضرور کہا کہ آپ جوان ہوں اور بیماریوں میں مبتلا ہوں یا جس عمر میں ہوں ویل چیئر پر ہوتا تو پھر ایسی زندگی بوجھ بنتی ہے لیکن زندگی گزارنی ہے تو خوف میں کیوں گزاروں۔ پاکستان میں اکثر دیکھا گیا ہے کہ بڑھاپے میں لوگ تنہائی پسند ہو جاتے ہیں۔ اس طرح کی لاتعلقی انسان کیلئے اچھی نہیں ہوتی۔ مارکس نے سرمایہ زدہ معاشرے کے لاتعلقی اور بیگانگی کے تصوّر پر بہت کچھ لکھا۔ اس مہلک مرض کی تشریح اور تشخیص میں مضامین کا ایک سلسلہ 1844میں تحریر کیا تھا اور یہ ان کی ابتداء تھی البتہ مارکس کے فلسفۂ بیگانگی پر سارتر اور دیگر دانشوروں نے بہت لکھا۔ صفدر میر کے بہ قول بیگانگی کا تصّور از منہ وسطیٰ میں مغرب و مشرق کے صوفیوں اور نوافلاطونی فلسفے کی راہ سے آیا۔ یہ نوفلاطینوس (2.5ء…270ء)کہتے ہیں کہ سکندریہ کے زوال پذیری کے دور کی پیداوار تھے لیکن کارل مارکس نے بہت جدا تصّور پیش کیا۔ مارکس کہتا ہے ’’بشر کی نوعی خصوصیت جو اس کو دوسرے حیوانوں سے ممتاز کرتی ہے اس کا با ارادہ اور باشعور تخلیقی عمل ہے۔ تخلیق ذات، تحفظ ذات، تجدید ذات، تزئین ذات کی خاطر لیکن معاشرے میں طبقوں کے پیدا ہونے کے باعث جب بادشاہ اور رعایا، آقا اور غلام، حاکم اور محکوم، زمیندار اور کاشت کار کی تفریق ہونے لگی تو بشر کی یہ نوعی خصوصیت مجروح ہو گئی۔ تخلیقی عمل تو جاری رہا اور محنت کرنے والے بدستور اشیاء ضرورت پیدا کرتے رہے مگر ان کی محنت پیداوار میں اغیّار بھی حصّہ دار بن گئے۔ اس طرح بیگانگی کے جراثیم معاشرے کے جسد میں داخل ہوئے۔‘‘

مندرجہ بالا باشعور نظام ہائے دنیا کو سمجھنے والوں کیلئے ہے لیکن عام زندگی میں بوڑھوں کیلئے کچھ نہیں کیا جا رہا ہے اور سرمایہ دارانہ نظام مہنگائی اور بیروزگاری میں اضافہ کر کے نوجوانوں کو مجبور کرتا ہے کہ وہ والدین کو یہ کہہ دیں کہ ہم بچّوں کو پڑھائیں یا آپ کا علاج کروائیں، لیکن انسانی ذہنی سطح میں جھانک کر دیکھا جائے اور معیاری تعلیم کو بروئے کار لایا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ انسان کی خوابیدہ ذہنی صلاحیتوں کو نکھارنے اور ؟؟ کرنے میں تعلیم انتہائی اہم کردار ادا کرتی ہے۔ چنانچہ کوئی انسان فطری طور پر جتنا ذہین ہو گا اور اس کی قابلیتوں کو تعلیم و تربیت کے ذریعے جتنا سنوارنے کا موقع ملے گا، اس کی ذہنی صلاحیتیں بہت دیر تک کام کرتی رہیں گی۔ سرمایہ داری نظام میں یہ بھی دیکھنا ضروری ہوتا ہے کہ فرد کے طرزعمل پر سماجی مرتبہ بھی اثرانداز ہوتا ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام میں بچّے کے سماجی مرتبہ کا تعین اس کے والدین کی سماجی حیثیت سے ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر ایک غیر ہنرمند کاریگر کا بچّہ لازماً نچلے طبقے کا فرد سمجھا جائے گا جبکہ ایک منیجر یا انجینئر کے بچّے کو متوّسط طبقے کا سمجھا جائے گا۔ ہندوستان میں اگر ذات پات کا نظام بربادی کر رہا ہے تو پاکستان طبقاتی نظام اور طبقاتی نظام تعلیم بربادی کر رہا ہے۔ ایک مخصوص سماجی طبقہ میں پلنے بڑھنے والے ہر بچّے کیلئے اپنے طبقے کے اثرات قبول کرنا ناگزیر ہو جاتا ہے۔ عام طور پر اس طبقاتی تمدّن کے اثرات اس قدر شدید اور گہرے ہوتے ہیں کہ بچّہ کیلئے دیگر سماجی اداروں سے ہم آہنگی پیدا کرنا دشوار ہو جاتا ہے۔ گھر کی حدود سے باہر جس سماجی ادارے سے بچّہ کا تعلّق استوار ہوتا ہے وہ مدرسہ یا اسکول ہوتا ہے۔ ان میں پڑھانے والے بھی متوسّط طبقے کے ہوتے ہیں۔ ان میں پڑھایا جانے والا نصاب میں غلامانہ طرز زندگی گزارنے کا ہوتا ہے۔ ان مدارس میں بچّوں میں ایسے اوصاف پیدا کئے جاتے ہیں جنہیں متوسّط طبقہ سالہا سال سے مستحسن نگاہ سے دیکھتا آیا ہے اس لئے ضروری ہو گیا ہے کہ معاشی و سماجی نظام میں انقلابی تبدیلیاں لائی جائیں۔

برٹرنڈ رسل گزشتہ صدی کے برطانوی فلاسفر اور ریاضی دان تھے۔ وہ ایک جگہ لکھتے ہیں کہ ’’کالونیل نظام کیا کالونیاں چلانے کے لیے انگریزوں نے ایسا نظام وضع کیا ہے جو انگریزوں نے تھوڑی مدت کے لیے کام یابی سے چلایا اور ایسے انگریز پیدا کیے، جنہوں نے ایک ایسی سلطنت کی بنیاد رکھی جہاں سوچ غروب نہیں ہوتا تھا۔‘‘ یہ بھی دیکھئے یہ نظام تعلیم عقل سے ماورا ایسے اوصاف پیدا کرتا ہے جو پس ماندہ اقوام کے حکمرانوں طبقے کے لیے سود مند ثابت ہوتے ہیں حالاں کہ یورپ میں رومانوی تحریک اور برصغیر میں ترقی پسند تحریک کی بالیدگی نے تعلیم کو موثر بنانے کی کوشش کی۔ لیکن حاکمانہ طرز تدریس کے لیے یہ کوشش قبل قبول نہ تھی اور نہ ہی ہے۔ دراصل گزشتہ صدی میں تعلیم میں جبر و تشدد کے نیتجے میں طالب علم مزاجاً جنگ جو پیدا ہوئے (مشرق اور مغرب دونوں جگہ یکساں) ظاہر جبر اور سختی جمالیاتی پہلو کو اوجھل کردیتی ہے چاہے وہ معاشرہ ہو یا کوئی مدرسہ جہاں حاکمانہ طرز تدریس کو فوقیت دی جاتی ہے اس لیے آپ دیکھیں کہ آج بے رحم لوگ پیدا ہورہے ہیں۔ تعلیمی نظام میں اگر فیکلٹی ایک ہی خیال کی پابند ہو تو چیلجنگ دماغ پیدا نہیں ہوں گے۔ زیادہ تر لکیرکے فقیر پیدا ہوں گے وہ اگر دو اور دو پانچ کہہ دیں تو سب کو یہی کہنا پڑتا ہے۔ اس موقع پر اشرافیہ اس طرح کے فکری مغالطے کو فروغ دینے میں حکمرانوں کی معاون ہوتی ہے۔ تاکہ اس کی برتری جو موروثی ہے وہ برقرار رہے اس کے لیے عوام جاہل رکھنے کے لیے ایسے اساتذہ اور نصاب بنانے والے رکھے جاتے ہیں جن کی روحیں غلامانہ ہوں اور اشرافیہ یہ باور کراتی ہے کہ ان کا ڈی این اے غریب طبقے سے بہتر ہے اس ماحول میں ممکن نہیں کہ انتخابات کے ذریعے جہالت کے اندھیروں میں غیر معمولی انسانوں کے انتخاب کا کوئی طریقہ رائج ہو یا پھر انقلاب کی صورت پیدا کی جاسکے۔

لیڈر شپ پیدا نہیں ہوسکتی حالاں کہ لیڈر تاریخ پیدا کرتی ہے اور پھر لیڈر تاریخ بناتا ہے اگر نہ بناسکے تو اس کا نام و نشان مٹ جاتا ہے جیسے برطانیہ کا کرامویل اور جرمنی کا ہٹلر اور اٹلی موسیسلینی ہے جن کے آنے پر بھی خوشیاں منائی گئیں اور جانے پر بھی لوگ خوش ہوئے۔ تعلیمی نصاب اور نظام جو کہ طبقاتی ہے اسے تبدیل کرنا اس لیے بھی ضروری ہوگیا ہے کہ دنیا بھر میں ٹیکنالوجی کی ترقی سے لوگ دفتری کاموں روبوٹ اور بے حس بنتے جارہے ہیں لہٰذا تعلیمی نظام ایسا ہو جہاں فطری و ؟؟؟؟ کی قدر کی جائے۔ آج کے نظام زندگی میں وہ علوم مادی طور پر مفید ہیں جن سے کلچر پیدا نہ ہوں آج تو وہ علوم پڑھائے ہی نہیں جاتے جو بلند نگاہ اور کائناتی سچائی پر مبنی ہوں پھر ایسے معاشروں میں حکمرانی جاہل اشرافیہ طبقہ ہی کرے گا یہ طبقہ فراست اور عقل فہم کی بجائے جائیداد کو ترجیح دیتا ہے۔ اس لیے ایسے ذہنی مفلسی کے معاشرے میں ایک صاحب شعور فرد کا جینا بے حد مشکل ہوجاتا ہے کیا پیغمبران دین اور سچ بولنے والے دیگر بڑے لوگوں کے ساتھ ایسا نہیں ہوا۔ یہی دیکھئے کہ ذہنی مفلسی کو موجودہ تعلیمی نظام کس طرح فروغ دیتا ہے۔ مثلاً دنیا کا کوئی حصہ زلزلے یا طوفان سے تباہ ہوجائے تو اس وقت کے نام نہاد دانا کوشش کرتے ہیں کہ پتا چلائیں کن کن لوگوں کے غلط اعمال و عادات کی وجہ سے ایسا عذاب آیا ہے۔ یہ سوچ آج بھی صدیوں بعد کہیں کہیں گوناگوں قسم کے ابہام اور توہمات کے ساتھ موجود ہے اور اس سے فائدہ حکمران طبقہ اٹھاتا ہے۔ برٹرنڈرسل رکھتے ہیں ’’ازمنہ وسطی میں تعلیم صرف پادریوں کا حق تھا‘‘میرا خیال ہے کہ ایسا ہی مسلمانوں میں یہ حق اشرافیہ کو دیا گیا ہے حالاں کہ دین علم سیکھنے کے لیے عام و خاص دونوں کو ترجیحات میں رکھتا ہے۔ اس لیے طبقاتی نظام مروج ہے۔

سرکاری اسکول ایسے ہوں جہاں غریب اور امیر بچے اکٹھے پڑھتے ہوں۔ جمود کے حامی چاہتے ہیں کہ حاکمانہ طرز تدریس میں دولت مندوں کو اچھا اگردانا جائے یوں منافق اور بدھو پیدا ہونے شروع ہوجاتے ہیں جو سرمایہ داری نظام کا چارہ بن جاتے ہیں اس لیے اس نظام میں وسیع مطالعے یا آئوٹ آف باکس پڑھنے سے منع کردیا جاتا ہے کیوں کہ اس میں استدلال اور علم میں اضافہ ہوتا ہے سوالات کرنے کا حوصلہ پیدا ہوتا ہے مگر کیا کیا جائے کہ رسمی اور بزدل لوگ ہی استاد بننے کے قابل سمجھے جاتے ہیں ایسی فیکلٹی تیار کی جاتی ہے جو اپنے اندر یا طالب کے اندر جرأت آموز خیالات پیدا نہیں ہونے دیتے لہٰذا یہ سب ’’دم کٹی لومڑی‘‘ بن جاتے ہیں۔

جدید دنیا کو ایک اور مسئلہ درپیش ہے مغرب میں تشویش پائی جاتی ہے کہ طالب علموں کی ہینڈ رائٹنگ بگڑتی جارہی ہے اور اس کا عمل بھی غلط دیا جارہا ہے وہ یہ کہ طلبا کو امتحانات میں ٹائپنگ کی اجازت دینے پر غور کیا جارہا ہے۔ یہ اقدام اٹھانے کے بارے میں اس لیے سوچا جارہا ہے کیونکہ آج کل طلبا زیادہ تر لیکچرز کے نکات لیپ ٹاپ یا دیگر الیکٹرانک آلات کے ذریعے اپنے پاس محفوظ کرتے ہیں امتحانات کے دوران بعض طلبا کی لکھائی اتنی خراب ہوتی ہے کہ انہیں دوبارہ کالج آکر اپنے جوابات کو اونچی آواز میں پڑھنا پڑتا ہے۔

ٹیلی گراف سے بات کرتے ہوئے کیمبرج یونیورسٹی میں تاریخ کے شعبے کی لیکچرر ’’سارا پیٹرسل نے کہا ہے کہ ’’ہمیں طلبا کی لکھائی کی خراب صورتحال پر کئی برسوں سے تشویش لاحق ہے۔ طلبا کی جانب سے جمع کرائے جانے والے صفحات کو پڑھنا انتہائی ہوتا جارہا ہے۔‘‘

ایک مسئلہ نہیں سرمایہ دارانہ نظام تعلیم میں سب سے زیادہ ربوٹ اور بدھو پیدا کیے جارہے ہیں جس سے بے حسی پھیل رہی ہے ملازمت کے لیے ملازم پیدا کیے جارہے ہیں اچھا انسان ہونا اس نظام کے لیے بہتر نہیں ہے اس لیے جو لوگ انسانیت کو زندہ رکھنے کے خواہش مند ہیں ان کو تعلیمی انقلاب و نصاب کے لیے جدوجہد کرنا ہوگی۔

تازہ ترین